تعلیم کا مقصد شعوری سطح بڑھانا ہے


شعور کا مطلب آگاہی، سمجھ بوجھ، ادراک، توازن کرنا اور پرکھنا۔ شعور بہت سی انواع و اقسام کا ہوتا جیسا کہ علمی شعور، سیاسی شعور، مادی شعور، ازدواجی شعور، قانونی شعور، اور اخلاقی شعور، مذہبی شعور وغیرہ۔ سیانوں کے نزدیک شعور انسان کو فیصلہ سازی میں مدد دیتا اور جو انسان باشعور ہو وہ ہمیشہ دلیل پر مبنی بات کہے اور مانے گا۔ میرے نزدیک انسان کی عقل کل کا نام شعور ہے۔ اس کے بغیر انسان اور حیوان ہم معنہ ہیں۔ یہ اچھے برے میں تمیز کرتا ہے۔ اور حق بات کا کائل ہوتا ہے۔

انسانی زندگی میں بہت سے پہلووں کو اجاگر کرنا اور تربیت کرنا اس کے ذمے آتا ہے۔ یہ انسا کو مہذب اور با اصول بناتا ہے۔ ہمارے ہاں مغربی ممالک کی مشالیں دی جاتی ہیں جب بھی مہذب قوم کا ذکر آئے۔ کیونکہ وہ ترقی یافتہ اور ماڈران ممالک ہیں۔ مگر کبھی کسی نے یہ نہی بتایا کہ وہ ترقی یافتہ ہوئے کیسے۔ ”تعلیم سے“ وہ بھی کئی صدیاں لگی سینکڑوں انقلاب پسند تحریکیں اٹھی۔ کئی دفعہ نئے خیالات لائے گئے اور جانوں سے کھلوار کیا گیا۔ مگر وہ ہی قومیں اور ملک ترقی یافتہ ہیں جنہوں نے ماضی سے سبق سیکھا۔

ہمارا ملک نام کا اسلامی ہے۔ اور تعلیم سے دور دور تک کوئی واسطہ نہج ہے۔ پاکستان کا لٹریسی ریٹ بمطابق وکی پیڈیا 62.3 %ہے۔ اور باقی کہ لوگ ناخواندہ ہیں۔ ملک کی 15 % آبادی غربت کی لائن کے نیچے ہے۔ باقی 29 % غریب اور اس کے بعد مڈل کلاس طبقہ پھر امیر اور اپر امیر۔

معاشرہ اخلاقی پستی کا شکار ہے اور دقیانوسی خیالوں میں مبتلا ہے۔ نوجوانوں کی تعداد اس انتظار میں بیٹھی کہ آسمانی فرشتے آئیں اور ان کی خواہشیں پوری کریں۔

کسی بھی معاشرے کے شعور کی ریشو کا اندازہ اس قوم اور معاشرے کی اخلاقی اقدار اور انسانوں کے آپس کے رویے دیکھ کر ہو جاتا۔ اس لٹریسی ریٹ اور غربت میں شعور کے لیے ایک عرصہ درکار ہے۔ یہاں نئے خیالات کی تعلیم لازماً ہونی چاہیے اور اس کی کونسلنگ بھی۔

ہمارے معاشرے کا بڑا المیہ یہ بے روزگاری سے بڑھتی ہوئی غربت اور جھوٹیں آنائیں۔ نوجوان اس غرض سے تعلیم حاصل کرتے کہ کل کو ان کا ذریعہ معاش لگ سکے نہ کہ شعور آسکے۔ ہمارے معاشرے میں ابھی شعور کا لفظ آیا اس کی وضاحت نہی کی گئی۔ شعور اس وم کو آتا جو اپنے ماضی کو دیکھ کر مستقبل کا فیصلہ کرتی۔ جو چیزوں کو پڑھ کر سمجھ کر ان کو روزمرہ زندگی میں استعمال کرتی۔ ہمارے معاشرے میں تو سب سے مہذب اور پڑھا لکھا طبقہ دوسرے طبقہ پر دھاوا بولتا ہے کہ ان کی عزت پر حرف کیوں آیا۔ سفید کالے کوٹ کی حیوانی حرکت کا جواز عزت بڑھاؤ مہم ہے۔ کسی کو مار پیٹ کر بدلہ مہم سے کون سی عزت آتی سمجھ سے نالاتر ہے۔ ایک تو غیر اخلاقی پُر تشدد حرکت اوپر سے سینہ زوری۔ نقصان ہوا تو ملک اور معصوم بہتے لوگوں کا۔ شعور کا نام ونشان تک نہی۔

دوسری طرف اشیا سرخ ہے اور طلبا تنظیموں پر پابندی ختم کرنے کی تحریکیں زور پر ہیں۔ ان ریلی والوں سے پوچھا جائے کہ کیا مطلب تو سوال چنا جواب گندم والا معاملہ پیش آتا ہے۔ موجودہ شعوری صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ہر اس تنظیم پر پابندی لگائی جائے جس آگے جا کہ تشدد جیسے واقعات میں ملوث ہونا ہے۔ اور یقیناً ہوں گی ۔ اور اگر پابندی ختم کرنی ہے تو کم ازکم ان میں وہ طلبا ہوں جن کی شعوری پاور ہو اور معاملہ فہمی جانتے ہوں۔

آج کل ہر نئی چیز کو نوجوان فیشن اور اٹینشن کے لیے اختیار کرتے ہیں۔ آخر میں بات سمجھانے کے لئے ایک واقعہ یاد آگیا۔ ایک بادشاہ کو کسی جرم میں ملوث قیدی نے گالیاں دی بادشاہ نے وزیر سے پوچھا اس نے کیا کہا وزیر شعور اور عقل کو استعمال کر کے بولا بادشاہ کی لمبی عمر کی دعا کر رہا۔ بادشاہ نے سزا معاف کر دی۔ اتنے میں دوسرا بے شعورا وزیر بولا بادشاہ سلامت اس نے آپ کو برا بھلا کہا۔ بادشاہ نے کہا تمہارے اس سچ سے مجھے پہلے وزیر کا جھوٹ زیادہ پسند آیا کیوں کہ اس سے کسی کی جان بچ گئی۔ شعور کا مطلب ہی دوسرے کو فائدہ پہچانا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).