وکلا کے سب ہی دشمن ہوئے کھڑے ہیں


وکلا نے پی آئی سی پر حملہ کر دیا۔ ڈاکٹروں کی پارٹی میں گیٹ کریش کر کے شامل ہوئے اور مریضوں سے بھی ملے۔ وکلا کی مانیں تو وہ تو محض مریضوں کی عیادت کر رہے تھے لیکن میڈیا کی رپورٹس اور سوشل میڈیا کی ویڈیوز دکھا رہی ہیں کہ وہ ان کا علاج کر رہے تھے۔ بہت سے مریض تو چند منٹ کے اندر اندر ہی ڈسچارج ہو گئے۔

حکومت نے کئی گھنٹے تو پی آئی سی کی حفاظت کی طرف توجہ نہیں دی۔ وکلا کئی میل پیدل چل کر وہاں پہنچے۔ ہنگامہ ہوا۔ جب میڈیا پر شور مچا تو پھر ہی حکومت کو خیال آیا کہ امن امان قائم رکھنا اس کی ذمہ داری ہے۔ پھر پہلے تو ہسپتال میں ہی پولیس نے آپریشن شروع کر دیا۔ اور آج اطلاعات مل رہی ہیں کہ وکلا کو گھروں کے علاوہ کچہریوں سے بھی پکڑا جا رہا ہے۔ وکلا کے مطابق جس نے بھی کالا کوٹ پہنا ہو وہ پکڑا جا رہا ہے۔ ان کی گاڑیوں کے شیشے توڑے جا رہے ہیں اور انہیں موٹرسائیکلوں سے گھسیٹا جا رہا ہے۔

یعنی یہ صرف مجرم پکڑنے کا معاملہ نہیں لگ رہا۔ گمان ہے کہ جس طرح سے افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک کے کے بعد سے پولیس والوں کی کچہریوں میں چھترول کی جانے لگی تھی، اس کا غصہ نکالا جا رہا ہو گا۔ بارہ برس بعد پولیس نے اپنا حساب چکانا شروع کیا ہے۔ ورنہ شناخت کے بغیر محض کالا کوٹ دیکھ کر پکڑنے کی کوئی تُک نہیں ہے۔ یہ تو وہی معاملہ ہے کہ پہلے ہم سزا دیں گے اور اس کے بعد فیصلہ کریں گے کہ بندہ مجرم تھا یا نہیں۔

گاڑی میں بیٹھے ایک وکیل صاحب کی ویڈیو دیکھِی ہے۔ گاڑی کے شیشے ٹوٹے ہوئے ہیں۔ چاروں طرف پولیس والے ڈنڈے لہرا رہے ہیں اور گاہے گاہے ٹوٹے شیشوں سے ڈنڈے اندر ڈال کر پوک بھی کر رہے ہیں۔ کیمرہ وکیل صاحب کو فوکس کرتا ہے۔ ان کے سر سے خون بہہ رہا ہے۔ آنکھوں تک سے خون کی لکیریں بہتے ہوئے چہرے کو تر کیے ہوئے ہیں۔ وہ رو رہے ہیں کہ میرے ساتھ ایسا کیوں کیا۔ غالباً ایک پولیس والے کی آواز ہے کہہ رہی ہے کہ ”جو آپ لوگوں نے کیا ہے وہ پتہ ہے؟ مریض مر گئے ہیں تم لوگوں کی وجہ سے۔ “ روتے ہوئے جواب ملتا ہے ”اؤ سر جی اس میں میرا کوئی بھی رول نہیں ہے“۔

اب یہ زخمی وکیل علاج کروانے ڈاکٹروں کے پاس جائیں گے۔ کل ایک بار کونسل کا ہدایت نامہ چل رہا تھا جس نے وکلا کو پابند کیا تھا کہ کوئی ڈاکٹر ان کے چیمبر میں جائے تو اسے بیٹھنے کے لیے کرسی نہ دی جائے۔ اب اگر ڈاکٹروں نے بھی ایسا جوابی ہدایت نامہ نکال رکھا ہو تو کیا ہو گا؟ اندھی نفرت اپنا ہی نقصان کرتی ہے۔ وکیل لیڈر بیرسٹر سعید ناگرہ کے سر پر چوٹ لگی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ وہ لاٹھی چارج کا نشانہ بنے ہیں۔ وکلا کا کہنا ہے کہ ”ان کی تین دن سے سی ٹی سکیں ایم آر آئی نہیں ہو سکی کوئی ہسپتال فرسٹ ایڈ نہیں دے رہا تھا وہ زندگی موت کی کشمکش میں ہیں“۔

ہسپتال پر حملہ کر کے وکلا نے بہت بڑی حماقت کی ہے۔ اس وقت وہ عوام کی ہمدردی کھو چکے ہیں۔ ڈاکٹروں کو نظرانداز کر کے عوام اس وقت وکلا کے خلاف ہی باتیں کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ بعض جذباتی وکلا فضا کو مزید اپنے خلاف کرنے میں مصروف ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں وکلا کے ایک گروہ نے فاطمہ جناح میڈیکل کالج برائے خواتین کی لڑکیوں سے بھری بس کو گھیر رکھا ہے۔ چند وکلا بس کے اندر گھسے ہوئے ہیں۔ ویڈیو میں عوامی اظہار تاسف کے کلمات سنے جا سکتے ہیں۔

رائے عامہ کو اس قسم کے اقدامات تو خراب کر ہی رہے ہیں، لیکن وکلا نے جس طرح ڈاکٹروں کے بعد میڈیا کے خلاف بھی محاذ قائم کرنا شروع کر دیا ہے، اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ پی آئی سی پر حملے کے دوران میڈیا کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، کیا اس کے بعد ان صحافیوں کے دل میں وکلا کے حق میں کوئی نرم گوشہ پیدا ہونے کی توقع کی جا سکتی تھی؟ اب بتایا جا رہا ہے کہ میڈیا کے عدالتوں میں داخلے پر پابندی کا منصوبہ بھی بن رہا ہے۔ دوسری طرف ڈاکٹر ڈٹ کر میڈیا پر اپنا موقف دیں گے اور عوام کو وہی دکھائی دے گا۔ کیا وکلا ہر حماقت کے بعد اس سے بڑھ کر اگلی حماقت کرتے ہوئے اپنے لئے حالات خراب نہیں کر رہے ہیں؟

افتخار چوہدری بحالی تحریک میں وکلا کی کامیابی کی ایک اہم وجہ وسیع عوامی سپورٹ بھی تھی۔ اب وکلا پر کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔ کیا وہ عوامی سپورٹ کے بغیر خود کو بچا پائیں گے؟ سوشل میڈیا پر تو لوگ ان کے خلاف باتیں کرتے اور انہیں سزا دینے کے مطالبے کرتے ہی دکھائی دے رہے ہیں۔

برٹش راج کی ایک دانش تھی کہ شہر کے جج، سول سرجن اور پولیس کپتان سے اچھے تعلقات رکھنے چاہئیں کہ مشکل وقت میں وہی کام آتے ہیں۔ بعض شرپسند وکلا نے ججوں، پولیس والوں اور اب ڈاکٹروں سے تعلقات خراب کر لئے ہیں۔ صحافیوں کو بھی وہ دشمنوں کی صف میں کھڑا کر رہے ہیں۔ کیا سینئیر وکلا اور بار کے دانش مند راہنماؤں نے اس صورت حال میں اس شرپسندی کو روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کیا ہے؟ گروہ کی صورت میں اپنی مرضی کا انصاف کرنے کے رویے کو تبدیل کرنا ہو گا۔ ملکی قانون کی مدد سے ہی خود اپنے اور دوسروں کے لئے انصاف لینا ہو گا۔ ورنہ دوسروں کے ساتھ ظلم ہو گا تو وکلا خود بھی اس کا شکار ہوں گے۔

ابھی تو ریاستی کریک ڈاؤن چل رہا ہے لیکن اگر عوام نے اس لہر میں بہہ کر وکلا کو اپنا دشمن سمجھ لیا تو کیا ہو گا؟ عوامی ہجوم نے اپنے دشمن کے ساتھ موب جسٹس شروع کر دیا تو کیا بنے گا؟ سنجیدہ وکلا قیادت کو آگے آنا چاہیے اور ان جذباتی نوجوان وکلا سے کنٹرول واپس لینا چاہیے۔ وکلا کے سب ہی دشمن ہوئے کھڑے ہیں تو وکلا کو اس کی وجوہات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar