آرمی چیف کی میعاد میں توسیع، عدالتی فیصلے میں سقم اور کوتاہیاں ہیں: فواد چوہدری


وفاقی وزیر فواد چوہدری نےکہاہے کہ آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے میں قانونی سقم اور کوتاہیاں ہیں۔ حکومت، اپوزیشن، فوج و عدلیہ بیٹھ کراپنی حدود کا تعین کریں ورنہ اختیارات کی جنگ جاری رہےگی، کابینہ میں مختلف تجاویز زیر غور ہیں، فوج چاہتی ہے ان کے احتساب عمل کو نہ چھیڑا جائے۔ میڈیا بھی چاہتا ہے اس پرقدغن نہ ہو، آزاد چھوڑ دیا جائے۔ پارلیمنٹ اہمیت کھو رہی ہے۔ عدلیہ اراکین پارلیمنٹ کا احتساب کرتی ہے لیکن خود پارلیمانی اکاؤنٹس کمیٹی میں احتساب کے لیے آنے کو تیار نہیں۔

امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویومیں انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے حوالے سے فیصلے میں بہت سے سقم اور کوتاہیاں پائی جاتی ہیں۔  سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ آرٹیکل 243 کو تو بالکل ختم ہی کر دیتا ہے، سپریم کورٹ پارلیمان کو نہیں کہہ سکتی کہ آپ یہ قانون سازی کریں اور وہ قانون سازی نہ کی جائے یا یہ کہ اس مدت کا آئین میں تعین کریں۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ آرٹیکل 62-63 کے تحت تمام اراکین پارلیمنٹ کا احتساب کرتی ہے، لیکن خود پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں احتساب کے لیے آنے کو تیار نہیں ، فوج بھی چاہتی ہے کہ ان کے احتساب کے عمل کو نہ چھیڑا جائے۔  جب تک پارلیمان کو اعلی اور معتبر ادارہ نہیں بنایا جائے گا پاکستان آگے نہیں جا سکتا۔

فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت کا آئینی حوالہ دیتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ 1956 اور 1962 کے آئین میں فوج کے سربراہ کی مدت کا تعین کیا گیا تھا تاہم 1973 کے آئین میں پارلیمنٹ نے پوری بحث کے بعد مدت کا تعین ختم کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ 1973 کا آئین بنانے والی پارلیمنٹ چاہتی تھی کہ وزیر اعظم بااختیار ہو اور وہ جب چاہیں آرمی چیف کو ہٹا سکیں، اگر آپ مدت کا تعین آئین میں رکھیں گے تو اسے ہٹائیں گے کیسے؟ اس سوال پر کہ کیا حکومت سپریم کورٹ میں اس فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کرے گی؟ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ میری رائے تو یہی ہے کہ اس فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کی جانی چاہیے اور اس حوالے سے وفاقی کابینہ میں مختلف تجاویز زیر غور ہیں۔

انہوں نےکہاکہ وقت آگیا ہے کہ حکومت، حزب اختلاف، فوج و عدلیہ بیٹھ کر اپنی حدود کا تعین کریں، بصورت دیگر اداروں کے درمیان اختیارات کی جنگ جاری رہے گی۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور آصف زرداری کو جیل میں رکھنے میں حکومت کو خاص دلچسپی نہیں بلکہ عوام کو سر و کار یہ ہے کہ بدعنوانی کا پیسہ واپس قومی خزانے میں کیسے لایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).