جب پیار کیا تو ڈرنا کیا


پرانے زمانے کا ذکر ہے کہ ملک ہندوستان ایک بہت رعب دبدبے والا بادشاہ ہوا کرتا تھا جس کی وسیع سلطنت کنیا کماری سے راس کماری تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کا نام جلال الدین محمد اکبر تھا۔ وہ بہت کم عمری میں ہی بادشاہ بن گیا۔ پھر اپنے اتالیق خانخاناں بیرم خان کو کامیابی سے حج پر بھیجنے کے بعد وہ بااختیار بادشاہ بھی بن گیا۔ وہ نہایت دانش مند تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا اتالیق حج سے واپس نہیں آیا، بلکہ راستے میں ہی خدائے بزرگ و برتر کے پاس پہنچ گیا۔

اکبر بادشاہ نے سارے ہندوستان پر بہت رعب سے حکومت کی۔ اس کا دور دور تک کوئی حریف نہیں تھا۔ اس نے دور دور سے اہل فن اپنے دربار میں جمع کیے۔ لطائف کا وزیر اس نے راجہ بیربل اور ملا دوپیازہ کو بنایا، شعر و شاعری اس نے فیضی کے سپرد کی، تراجم اور دیگر دفتری امور ابو الفضل کو سونپے، اور فنون لطیفہ وغیرہ کا افسر انارکلی نامی ایک خاتون کو بنایا۔ انارکلی نامی اس افسر کا ذکر درباری تاریخوں سے تو حذف کر دیا گیا ہے مگر خوش قسمتی سے دورِ حاضر کے مشہور مورخ امتیاز علی تاج نے اس کا مفصل حال رقم کیا ہے اور خان آصف نے اس پر مغل اعظم نامی فلم بنا کر تاریخ کے اس باب سے ہمیں آگاہ کر دیا ہے۔

یہ افسر نہایت قابل تھی۔ اس نے بہت کم عرصے میں اپنی کارکردگی سے پورے ایوان شاہی کو اپنا دیوانہ بنا لیا۔ اب اس کی بدقسمتی کہیے یا پھر تاریخ میں اس کا نام امر ہونا مقدر ہو گیا تھا، کہ ولی عہد شہزادہ شیخو بھی ان دیوانوں میں شامل ہو گیا، بلکہ شامل کیا ہو گیا اس نے اپنا نام سرفہرست لکھ ڈالا۔ فلم مغل اعظم دیکھنے کے بعد یہ بات تو واضح ہے کہ شہنشاہ اکبر پر ملکہ جودھا بائی پوری نظر رکھتی تھی کہ وہ ہاتھ سے نہ نکل جائے مگر ملکہ نے یہ خیال ہی نہیں کیا کہ ولی عہد نے انارکلی کی کارکردگی پر نظر رکھ لی ہے۔

بہرحال قسمت کا لکھا پورا ہو کر رہتا ہے۔ انارکلی کا تعلق فنون لطیفہ سے تو تھا ہی اور اس شعبے سے تعلق رکھنے والوں کے دل نہایت نرم ہوتے ہیں۔ وہ پیار محبت کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ انہیں سب انسانوں سے ہمدردی ہوتی ہے۔ اس نے دیکھا کہ شہزادہ شیخو کی محبت کو اس نے ٹھکرا دیا تو وہ خودکشی یا پھر بغاوت کر بیٹھے گا، جو اکبر جیسے باجبروت شہنشاہ کے معاملے میں خودکشی کا ہی دوسرا نام تھا۔ دوسری طرف اسے دکھائی دے رہا تھا کہ شہنشاہ اکبر اور ملکہ جودھا بائی نے شہزادہ شیخو کے اس قدر عمر رسیدہ ہونے کے باوجود اس کا رشتہ کرنے سے بے توجہی برتی ہے اور وہ پیار کو ترس رہا ہے۔

ان حالات میں انارکلی ایک دن فل کورٹ میں شہنشاہ اور اعلی افسران کی موجودگی میں ایک بیان دے بیٹھی کہ سب کو پیار محبت کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ اکبر بادشاہ اپنے معاملے میں تو نہایت فراخ دل تھا اور اس نے خود ہر مذہب و ملت کی شہزادیوں سے بے شمار شادیاں کر رکھی تھیں، مگر اسے یہ پسند نہیں آیا کہ اس کی افسر پیار کی پرچارک ہو۔ شہنشاہ اکبر انسانوں کی برابری کا اتنا بھی قائل نہیں تھا جتنا متعصب مورخین بتاتے ہیں۔ اس نے انارکلی کو اپنا بیان واپس لینے اور معافی مانگنے پر مجبور کر دیا۔ حکام بالا کا بے پناہ دباؤ برداشت کرنے کے باوجود انارکلی نے پیار کی بات کرنے پر معافی نہیں مانگی۔

دوسری طرف شہزادہ شیخو نے اس پیغام کو پرسنل لے لیا اور باغی ہو کر شکست کھائی۔ انارکلی بھی پکڑی گئی۔ یہ سارا فساد ادھر موجودہ صوبہ پنجاب کے ایک ضلعے میں ہو رہا تھا۔ شہنشاہ اکبر نے پیار محبت کا پرچار کرنے والی اس افسر کو سول سیکرٹریٹ لاہور میں طلب کیا اور فرد جرم عائد کی۔ انارکلی نے اپنا پیار بھرا بیان واپس لینے سے دوبارہ انکار کیا اور معافی نہیں مانگی۔ نتیجہ یہ کہ اسے سول سیکرٹریٹ لاہور میں ایک دیوار میں زندہ ہی چنوا دیا گیا۔ فضا میں بس اس کے نغمے ہی گونجتے رہ گئے کہ جب پیار کیا تو ڈرنا کیا۔

اس کے بعد کسی سرکاری افسر کو جرات نہ ہوئی کہ وہ کسی دوسرے شہری سے انسان سمجھ کر محبت کرنے یا اچھا سلوک کرنے کا کہے۔ انارکلی جیسی کسی نوآموز افسر نے کبھی اگر ایسا کچھ کہہ دیا تو پھر اسے دست بستہ معافی مانگنی پڑی کیونکہ دوسری صورت میں اسے پتہ تھا کہ وہ سول سیکرٹریٹ لاہور میں زندہ درگور کر دی جائے گی۔ آج شہنشاہ اکبر تو نہیں رہا مگر اب ہر لونڈا ہی بادشاہ بنا پھرتا ہے اور بڑے بڑے شاہی افسر اس کے سامنے تھر تھر کانپتے ہیں۔ اب سب افسر جانتے ہیں کہ جو افسر بھی کہتا ہے کہ ”جب پیار کیا تو ڈرنا کیا“ وہ مر جاتا ہے۔

بعض افراد پوچھیں گے کہ شہزادہ شیخو کا کیا بنا؟ اس نے اس وقت تو اپنے امی ابا کی مرضی سے دوسری جگہ شادی کر لی مگر انارکلی کی یاد اس کے دل سے نہ گئی۔ ایک ایرانی حسینہ مہر النسا نامی اس کے دل کو بھا گئی جس نے اس کے ہاتھوں کے کبوتر اڑا دیے تھے۔ مگر اسے مہرالنسا سے شادی سے بھی روک دیا گیا۔ مہرالنسا کی شادی شیر افگن نامی ایک سردار سے کر دی گئی۔ بعد میں شہزادہ شیخو جب شہنشاہ بنا تو شیر افگن ویسے ہی قضائے الہی سے فوت ہو گیا جیسے پچھلے زمانے میں اکبر کا اتالیق خانخاناں بیرم خان ہوا تھا اور جہانگیر نے مہرالنسا سے شادی کر کے اسے نورجہاں قرار دے دیا۔ آج انارکلی سول سیکرٹریٹ لاہور میں دیوار میں چنی کھڑی ہے، جبکہ جہانگیر اور نور جہاں اس سے محض چند کلومیٹر دور شاہدرہ میں ٹھاٹ سے محو خواب ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar