اٹک واقعہ ۔۔۔ اشک مژگاں پہ ہے اٹک سا گیا


 فرض کیجئے! شہر میں بد امنی کے سبب ایک شخص فائرنگ کی زد میں آجاتا ہے اور پھر اسے فوری طور پر اچھی قسمت ہونے کے سبب ایمبولینس فراہم ہوجاتی ہے۔ گھر والے واقف نہیں کہ وہ کس حالت میں ہے لیکن وہ ایک اسپتال کی ایمرجنسی میں پہنچ جاتا ہے۔ جہاں اسے لگنے والی گولی سے نجات دلانے کے لئے فورا آپریشن تھیٹر منتقل کردیا جاتا ہے۔ اسی دوران اس کے اہلخانہ کو بھی اطلاح دے دی جاتی ہے۔ ایک حساس آپریشن کے بعد اس کے اہل خانہ کو یہ بتا کر آئی سی یو میں بھیج دیا جاتا ہے کہ آپ کے بیٹے کی حالت اب خطرے سے باہر ہے۔ کچھ دیر کے بعد آپ ان سے مل سکتے ہیں۔ اس نوجوان کے والدین ڈاکٹر کے صدقے قربان ہونے کو تیار ہیں۔ بہنیں ڈھیروں ڈھیر دعائیں ڈاکٹر کو دیتی ہیں۔ مریض کو کچھ دیر بعد ہوش آتا ہے اسے یاد ہی نہیں کہ اسے کس نے مارا لیکن وہ یہ جاننے کا خواہشمند ضرور ہے کہ خدا کے بعد وہ کون سی ہستی ہے جس نے اس کی جان بچائی۔

ڈاکٹر سے ملاقات کروائی جاتی ہے اور وہ نوجوان اپنے مسیحا کی مسیحائی اور حسن اخلاق سے متاثر ہوجاتا ہے۔ لیکن جس روز اسکے رخصت کا وقت آتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ڈاکٹر تو احمدی ہے۔ مریض جس کے رگوں میں کچھ روز پہلے دوڑ کر منت سماجت کر کے نہ جانے کس کس کا خون ڈال کر جان بچائی گئی ہوتی ہے وہ اسی ڈاکٹر کو مار ڈالتا ہے۔اس مریض کی رگوں میں کس کا خون تھا و نہیں جانتا لیکن اس کے ذہن میں یہ ضرور تھا کہ ایک نہ ایک دن اس نے یہ کا م ضرور کر نا ہے جو وہ کر گیا۔ احسان مندی، شکر گزاری اس بغض اور نفرت میں کہیں فنا ہوگئی جو اس میں ہمیشہ سے سرایت کر رہی تھی۔

یہ تو ایک فرضی قصہ ہوا لیکن جو کچھ چند روز پہلے اٹک میں ہوا وہ حقیقت پر مبنی ہے جو دل میں اٹک سا گیا ۔ انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر ایک خاتون اسسٹنٹ کمشنر اپنی تقریر میں محبت، امن اور اتحاد کے پیغام کو اجاگر کرنے میں ایک ایسی سنگین غلطی کر بیٹھی جس کا خمیازہ اب وہ کافی برسوں تک بھگتتی رہیں گی۔ وہ غلطی کیا تھی؟ تمام مذاہب اور فرقوں میں احمدیوں کو شامل کرنا اور یہ کہنا کہ آپس کے اختلافات کو بھول کر اتحاد سے رہیں تاکہ ہمارا بیرونی دشمن اس کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کے بعد اسے اس پل صراط سے گزرنا ہوگا جس کا تصور اس نے کبھی نہ کیا ہوگا۔

اس کی عمر سے کہیں کم عمر نوجوان جو ابھی تعلیم اور علم و فراست کے فرق کو بھی نہیں جان پائے۔وہ چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ سر پر دوپٹہ نہیں اور بات اسلام کی کرتی ہے۔ وہ یہ بولتے ہیں کہ بیٹے کا نام محمد رکھنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ بخدا اگر یہ جملے کوئی اور کہتا تو اب تک فتووں کے انبار لگ چکے ہوتے۔ بلاشبہ اس ملک میں کسی کو بھی مذہب کے نام پر گھیرے میں لے کر اس کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرنا بہت آسان ہے۔ ان خاتون کے اوسان بحال رہے اور وہ آخری سوال کے جواب میں بھی یہ ثابت کر گئیں کہ ان کا ختم نبوت پر ایمان ہے، بس یہ ان کی غلطی ہے کہ وہ سب کو پہلے انسان اور بعد میں کسی مذہب یا فرقے پر لاتی ہیں۔ ان کی جان بچا گیا ورنہ ان کا فیصلہ بھی اسی کمرے میں ہوجانا تھا۔

عدالتوں میں تو ویسے ہی ہائی پرفائل کیسز کا انبار لگا ہے۔ وکیل وہ کہاں سے کرتیں وہ تو آج کل دل کے اسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کو اسٹنٹ ڈالنے میں اور غریب مریضوں کی جان لینے میں مصروف ہیں۔ خاتون کہاں جاتیں؟ کسے وکیل کرتیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ یہ عدالت لگانے والوں کا ایک ایسا جتھہ ہے جو آپ کو کسی بھی چوراہے، موڑ، بازار، دفتر، گلی محلے میں آپ کا ایمان جانچنے اور پرکھنے کا ترازو لئے کھڑے ہوں گے جو تب تک آپ کو جانے نہیں دیں گے جب تک آپ ان کے ذہن میں طے کئے جانے والے معیار کے پیمانے پر پورے نہ اتریں۔ بہت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس ملک میں جس قسم کی نفرت کی آگ بھڑک رہی ہے بہت جلد یہ آگ اس ملک کی کھوکھ کو جلا کر بانجھ کردے گی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم بارود کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں جو انتہا پسندی اور عدم برداشت کی چنگاریوں سے بھرا ہوا ہے۔

 اس واقعے نے سوشل میڈیا پر جہاں ایک نئی بحث کو جنم دیا وہی اس تشویش کو بھی ابھارا کہ ہم کس راستے پر چل پڑے ہیں۔ اس کی مثال مجھے کل اس وقت ملی جب میں دفتر سے لوٹتے وقت کریم سروس سے آرہی تھی۔ کریم ڈرائیو کرنے والے حضرت حافظ تھے اور سفر کے آغاز سے ہی وہ تلاوت کلام پاک کا ورد کر رہے تھے۔ ایک جگہ پر شدید ٹریفک جام میں پھنسنے کے بعد جب بہت دور سے ایک ایمبولینس کے سائرن کی آواز آنا شروع ہوئی تو ان حافظ صاحب نے گھڑی کو دیکھا اور آہستہ آواز میں کہنے لگے کہ راستہ دو، راستہ دو۔ ان کی آواز میں پریشانی واضح تھی اور ہونی بھی چائیے کیونکہ ہم تو سوشل میڈیا پر بہت ذوق و شوق سے وہ تصاویر لگاتے ہیں جو غیر ملکی ہیں، جہاں ہزاروں لاکھوں کے احتجاج میں بھی ایمبولینس کو راستہ دیا جاتا ہے۔ اس کی مثال ابھی حال ہی میں مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ میں بھی دیکھنے کو ملی۔ لیکن یہ بہت کم مثالیں ہیں۔

خیر ایمبولینس کی آواز اب مجھے منت سماجت اور فریاد کرتی ہوئے محسوس ہونے لگی میں جو بہت دیر سے خاموش تھی حافظ صاحب سے پوچھ بیٹھی کیا گاڑیاں راستہ نہیں دے رہیں؟ جواب آیا پانچ منٹ تو ہوگئے ہیں کوئی راستہ دینے کو تیار نہیں۔ میں نے اپنی طرف سے جگہ بنائی لیکن موٹر سائیکل سوار اس میں آ گھسے ہیں۔ بہن ہم بہت بے حس ہیں نہ جانے کس کس کے ستم کا بدلہ کہاں کہاں لے رہے ہیں۔ ایمبولینس کو اب بھی راستہ نہیں ملا۔

اتنے میں ایک موٹر سائیکل سوار نے حافظ صاحب سے مخاطب ہوکر کہا کہ مولانا صاحب کیا خیال ہے، زوردار آواز لگا دوں کہ بھائیو راستہ دے دو اندر مریض مسلمان ہے، قادیانی نہیں اور پھر اس نوجوان نے زوردار قہقہہ لگا دیا۔ حافظ صاحب نے استغفار پڑھ کر کہا سنا آپ نے بہن جہاں ایسی سوچ ہو وہاں بے حسی، انتہا پسندی نہ ہو تو کیا ہو۔ وہ قادیانی ہو یا مسیحی، ہندو ہو آتش پرست سب سے پہلے تو انسان ہی ہے۔ ہم جس کے امتی ہیں اس نے تو ان کو بھی معاف کیا جو اس کو نبی تسلیم نہیں کرتے تھے، ان کو بھی بد دعا نہیں دی جس نے ان کو پتھر مارے تو پھر ہم کون ہیں جو لوگوں کو کہتے پھر رہے ہیں کہ تم نے غیر مذاہب سے رواداری کی بات کیسے کی؟ ان کا اشارہ اسی اٹک والے واقعے کی جانب تھا۔ پھر کہنے لگے ہم الفاظ پکڑتے ہیں اپنا آپ نہیں دیکھتے، پھر کہتے ہیں کہ خدا ہم سے ناراض کیوں ہے؟

میرے پاس حافظ صاحب کی باتوں پر دینے کو جواب بہت تھے لیکن یہ ڈر بھی تھا کہ کہیں برابر میں کھڑا موٹر سائیکل والا اسی جتھے کا فرد نہ ہو، جو مجھ سے کہے کہ جب تک ایمان کا پرچہ حل کر کے نہیں دے گی نہ ایمبولینس گزرے گی نہ تو گھر پہنچے گی۔ مجھے ایک ایک کر کے وہ سب یاد آنے لگے جو برسوں سے بھولے ہوئے تھے۔ وہ ہندو سہیلی جو اسکول میں مجھے کلاس تھری سے فائیو تک لنچ بریک میں آلو کا پراٹھا کھلایا کرتی تھی۔ مجھے اپنی وہ عیسائی دوست بھی یاد آئی جو مجھے ہر عید پر کارڈ اور تحفہ دینا نہیں بھولتی تھی۔ مجھے اپنے ابو اور بھائی کے وہ ہندودوست بھی یاد آئے جو ہر ربیع الاول کو میلاد کی مٹھائی اور پلاو کھانے خاص طور پر گھر آیا کرتے تھے۔

مجھے اپنے وہ تمام اہل حدیث، دیو بند، اہل تشیع بہن بھائی بھی یاد آئے جن کے ساتھ میں اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں داخل ہونے کے بعد کبھی لنچ یا رات کے کھانے پر سالن روٹی ایک ہی پلیٹ میں کھاتی ہوں۔ کوئی فاتحہ کو نہیں مانتا تو سوال نہیں کرتی ، کوئی میلاد یا مجلس کی دعوت دے تو قبول کر لیتی ہوں، دیوالی کی اور کرسمس کی مبارکباد بھی ویسے ہی دیتی ہوں جیسے مجھے عید پر ملتی ہے۔

ان سب میں مجھے اپنے بچپن کے وہ احمدی ڈاکٹر بھی شدت سے یاد آئے جن کی بیٹی مس مریم میری کلاس تھری کی ہر دلعزیز ٹیچر تھیں اور ان کے والد میرے ڈاکٹر۔ جب بھی بے وجہ میری ناک سے خون بہنے لگتا تھا میرے ابو ان ہی کے پاس دوڑ کر لے جاتے تھے اور مجھے لگتا تھا کہ وہ ہی ہیں جو مجھے ٹھیک کرسکتے ہیں، باقی ڈاکٹروں کو علاج آتا ہی نہیں۔ ایک دن ابو نے بتایا کہ ڈاکٹر انکل نے گھر اور کلینک اس محلے سے چھوڑ دیا ہے۔ میں نے وجہ جاننے کی بہت کوشش کی لیکن ابو ٹال گئے اور اس رات جب اچانک میرے ناک سے خون بہنے لگا تو وہ رات بہت بھاری تھی کیونکہ ڈاکٹر انکل اب وہاں تھے نہیں اور مجھے کہیں اور جانا نہیں تھا۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar