سولہ دسمبر جب پاکستان دولخت ہوا


تاریخ کا دکھ یہ ہے کہ یہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر خاموش رہتی ہے۔ بہت مرتبہ ہم تاریخ کو اپنے زاویے میں لے کر جانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے تاریخ پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیوں کہ تاریخ کے ریکارڈ میں ہیرو، ہیرو اور زیرو، زیرو ہی رہتا ہے۔ 16 دسمبر 1971 تاریخ پاکستان کا سیاہ باب ہے جب جسم واحد کو دو لخت کیا گیا، مشرقی پاکستان میں آزادی کے بعد سے دکھتی چنگاری نے آگ پکڑی جس سے مغربی پاکستان کا یہ اہم ترین ٹکڑا جدا کردیا گیا۔

وہ دن جب ایک عام سے کاغذ کے ٹکڑے پر لکھے گئے مسودے پہ دستخط کرکے خطہ مشرقی پاکستان الگ ہوگیا۔ پاکستان کا سبز ہلالی پرچم سرنگوں ہوا اور جنرل نیازی کے تمغے سرعا م فوجی وردی سے اتارے گئے۔ پھر تاریخ نے قوم کی رسوائی، بے بسی، بے چارگی کا تماشا دیکھ کر تاریخ کے ورق پر ”بنگلہ دیش“ مشرقی پاکستان کندہ کردیا۔

کیا مغربی پاکستان کے عوام کے ساتھ واقعی ظلم ہوا، یا 16 دسمبر کے دن سقوط ڈھاکہ کا نوحہ کرکے خود فریبی میں مبتلا ہیں۔ آج کے دن عوام کو بتایا جاتا ہے کہ ڈھاکہ کی آزادی ہمارے لیے حرز جاں ہے، بڑے دکھ کا عالم تھا جب بھارتی سازشوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان کی قوم اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ دانشور اپنے خیالات کے اظہار میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ سراسر یک طرفہ معاملہ تھا جس میں ہمیں ہار نصیب ہوئی اور دشمن کی چالیں کامیاب ہوئیں۔

لہذا سقوط ڈھاکہ پر آج کے دن ساری عوام علیحدگی مشرقی پاکستان کی پر زور الفا ظ میں مذمت کرتے ہیں اور قصہ ختم کر دیا جاتا ہے۔ یہ کسی کے خیال میں نہیں آتا کہ ہم نے جو ماضی میں سنگیں غلطیاں کیں جس کی بنا پر مشرقی پاکستان میں بغاوت کی لہر اٹھی، ہم آج بھی وہی کچھ کررہے ہیں۔ دشمن کا پیٹ مشرقی پاکستان کی جدائی سے نہیں بھرا، اس لیے اس کی گندی نظریں بلوچستان پر لگی ہوئی ہیں۔

اگر غیر جانبدارانہ نظر سے دیکھیں تو مشرقی پاکستان میں آزادی کی آگ حکمرانوں کے ہوس اقتدار کی وجہ سے اٹھی۔ 1970 کے عام انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کو ڈھاکہ سے بہترین کامیابی ملی۔ مشرقی پاکستان کی 169 میں سے 167 سیٹوں پر شیخ مجیب الرحمن کی عوامی پارٹی نے واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ بھارت بنگالیوں کی ذہن سازی کررہاتھا کہ حکومت ان کے حقوق کی غاصب ہے، ان کے ساتھ اقلیتوں کا سلوک کیا جارہا ہے، لہذا انہیں اب اپنی آزادی کے لیے اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔

1970 کے عام انتخابات میں عوامی پارٹی کی اس شفاف برتری کے بعد مشرقی پاکستان میں ایک عرصہ سے پیداہونے والی اس صورت حال کو کنٹرول کرنے اورڈھاکہ کے بنگالیوں کے ساتھ بنا کسی سمجھوتے کے انتقال اقتدار کی حوالگی سے حالات کو قابو کیا جاسکتا تھا۔ اس سے سیاسی استحکام پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ یہ تاثر ختم ہوتا کہ حکومت پاکستان بنگالیوں کے حقوق کو دبا کر بیٹھی ہے۔ بظاہر یہ سادہ معلوم ہونے والا معاملہ اندر سے ”دال میں کچھ کالا ہے“ مصداق تھا۔

پہلی غلطی جو 1971 میں ڈھاکہ میں کی گئی وہ یہ تھی کہ جنرل یحی خان نے ڈھاکہ میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ڈھاکہ میں ہوگا، لیکن جیسے ہی جنرل یحیٰ خان اسلام آباد پہنچے بھٹو نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور آخر کار جنرل یحیٰ خان نے اجلاس کو شرائط کے ساتھ ملتوی کردیا۔ بنگالیوں پر انتقال اقتدارکی اتنی سخت ترین شرائط رکھی گئی کہ جس سے صاف نتائج لیے جاسکتے تھے کہ مغربی پاکستان کی سیاسی مشینری کسی بھی حال میں اقتدار سے دور رہنے کو راضی نہیں۔ یہ وہ سنگین غلطی تھی جس سے مشرقی پاکستان کے عوام کے دلوں میں مغربی پاکستان کی سیاسی قیادت کے خلاف شکوک پیدا ہوئے اور بچا کھچا اعتماد اپنی آخری سانسوں کے ساتھ دم توڑ گیا۔

اگر یہ سچ ہے کہ بھارت آزادی کے بعد سے پاکستان کے خلاف عدوکے محاذ گرم کیے ہوئے تھا اور کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہا تھا کہ جس سے پاکستان کو نقصان پہنچے، سانحہ ڈھاکہ میں بھی 80 فیصد تک بھارتی کارستانیاں کارفرما ہیں مکتی باہنی کی شکل میں شورش بپا کرنے میں، بنگالیوں کے دلوں میں جلنے والی آزادی کی چنگاری کو ہوا دینے میں بھارت نے اول دستے کا کردارادا کیا تھا، تو غلط یہ بھی نہیں ہے کہ اگر جنرل نیازی بھارت کے جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار نہ ڈالتا، جرات وجواں مردی سے سینہ تان کر کھڑا رہتا، دشمن فوج کے سپہ سالار کے سامنے اپنے ریوالور کی گولیاں نہ نکالتا، پاک فوج کے ساتھ صرف دودن اور سینہ سپر ہوجاتا تو دہلی کے وزیر اعظم ہاؤس کی ساری خواہشیں مر جاتیں اور بھارت کے پاکستان کو دولخت کرنے کے تمام خواب چکنا چور ہوجاتے۔

1970 کے عام انتخابات کے بعد شیخ مجیب الرحمن آئینی لحاظ سے اقتدار کے حق دار تھے۔ شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ پورا ڈھاکہ کھڑا تھا۔ ہماری سیاسی قیادت کا فرض تھا کہ وہ شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار منتقل کرتے اور انہیں حکومت بنانے کی دعوت دیتے۔ یہ ایک تاریخی موقع تھا کہ پاکستان کو پہلی مرتبہ مشرقی پاکستان سے ایک قیادت مل رہی، جس سے خطہ کی معاشی حالت مضبوط، سیاسی قوت میں اضافہ ہوتا۔ لیکن عین وقت مغربی پاکستان کی سیاسی اشرافیہ نے اجلاس میں شرکت کرنے سے انکار کدیا جس سے مشرقی پاکستان میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔

مشرقی پاکستان کے عوام سمجھ گئے کہ مغربی پاکستان کے سیاسی قیادت کی نیت خراب اور وہ ہم پر تسلط جماکر غلامی میں رکھنا چاہتے ہیں۔ ان خطرناک، نازک ترین حالات میں بھارت نے باغیوں کا ایک گروہ مکتی باہنی کے نام سے تیار کیا جس نے مشرقی پاکستان کے مختلف علاقوں میں بغاوت کردی۔ اس گروہ نے پاک فوج اور مغربی پاکستانی علاقوں میں حملے شروع کردیے جس سے فوجی اپریشن کی نوبت پیش آگئی۔

بھارت جو پہلے ہی تاڑ میں بیٹھا تھا، فوجی لشکر کشی کردی۔ پاک فوج اپنے مرکز سے ایک ہزار میل دور اورچاروں طرف سے دشمن میں گھری ہوئی تھی، حالات انتہائی نازک ہوچکے تھے، اس کے باوجود پاک فوج نے کسی بھی لمحے جنگ سے منہ نہیں موڑا اور جوانوں نے ہر محاذ پر دشمن کو ناکوں چنے چبوائے۔ ہزاروں جوان وطن کی خاطر کٹ مرے لیکن یہ ایک ہاری ہوئی جنگ تھی جسے مغربی پاکستان کی اشرافیہ بہت پہلے غیر سیاسی دانشمندی سے ہار چکی تھی۔ پاکستان کو تاریخ کی سب سے بڑی شکست ہوئی اور نوے ہزار پاک فوج کے جوان بھارت کے قیدی بن گئے۔ پاکستان، پاکستان نہ رہا، بلکہ مشرقی اور مغربی پاکستان کی شکل میں دوٹکڑے ہوگیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).