کیا وکلا، طلبا اور ڈاکٹر معاشرے کا ناسور بن گئے ہیں؟


جب بیٹے نے کہا، ´´ کل یونیورسٹی نہیں جانا۔ “ تو سن کر اچھا نہیں لگا۔ چونکہ بچوں کا حصول تعلیم کے لیے پابندی سے گھر سے نکلنا باعث اطمینان و سکون ہوتا ہے۔ ایک عجیب سی خوشی ہوتی ہے، جو بیان سے باہر ہے۔ بیٹا بھی میری اس کیفیت سے واقف ہے۔ اس لیے میرے سوال کرنے سے قبل ہی کہ دیا، ´´ ویڈیو واٹس ایپ کی ہے، دیکھ لیجیے گا۔ “ ویڈیو دیکھی، تو اوسان خطا ہو گئے۔ طلبا وحشیانہ طور پر ایک دوسرے سے لڑ جھگڑ رہے تھے۔ کچھ کے سر پھٹے ہوئے تھے اور وہ پھٹے ہوئے سروں کے ساتھ حریف طلبا کے سر پھوڑنے میں لگے ہوئے تھے۔

وجہ تو یونیورسٹی نہ جانے کی سمجھ آ گئی۔ جھگڑے کی وجہ پوچھی، تو بیٹے نے بتایا، ´´ لڑائی جھگڑا تو کئی دن سے چل رہا تھا۔ لیکن یہ نوبت آج آئی ہے۔ چونکہ طلبا تنظیموں کی در پردہ سرپرستی اساتذہ کرام کی طرف سے بھی کی جاتی ہے۔ اس لیے ہری جھنڈی جب لہرا دی گئی، تو لڑائی جھگڑے کا فائنل راٶنڈ کھیل لیا گیا۔ رینجرز کھڑی تماشا دیکھتی رہی، چونکہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا۔ “

یہ واقعہ ابھی ذہن سے محو بھی نہ ہوا تھا، کہ چند دن بعد ٹی وی پر ایک کلپ دیکھا۔ جس میں چند افراد وکلا کی مار کٹائی کر رہے ہیں۔ ویڈیو دیکھ کر تعجب ہوا، کہ ایسی کون سی قوت پیدا ہوگئی، جو وکلا حضرات کی بے دھڑک اور کھل کر پٹائی کر رہی ہے۔ خبروں سے پتاچلا، کہ اسپتال کے عملے اور ڈاکٹرز نے مار پٹائی کی، تو تعجب کی کیفیت ختم ہوئی۔ چونکہ ڈاکٹرز حضرات بھی سفید کوٹ پہن کر اسی طرح وطن عزیز میں ہڑتالیں کرتے اور اودھم مچاتے پھرتے ہیں۔ جیسے وکلا حضرات کالے کوٹ پہن کر کرتے ہیں۔

چند دن بعد ہی وکلا حضرات نعرے لگاتے، دھمکیاں دیتے، مار کٹائی کا بدلہ لینے پی آئی سی پہنچے۔ اور ہاسپٹل پر ایسے ہلہ بولا۔ جیسے یہ ہاسپٹل نہیں، معزز عدالت یا جج کا چیمبر ہو۔ جیسے ججز کو کرسی اور گلاس کھینچ کے مارے جاتے ہیں۔ اسی طرح وکلا نے ہاسپٹل میں توڑ پھوڑ مچائی۔ میبنہ خبریں ہیں کہ ڈاکٹروں کو مارا پیٹا گیا، مریضوں کے آکسیجن ماسک کھینچے گئے۔ ڈرپ سٹینڈز کو بطور ڈنڈا اور لاٹھی استعمال کیا گیا۔ آپریشن تھیٹر میں گھس کر توڑ پھوڑ اور آپریشن میں رکاوٹ ڈالی گئی۔ جس کی وجہ سے چند مریض جان سے بھی گئے۔ ڈاکٹرز اور وکلا کے درمیان جھگڑے کا نقصان تیسرے بے قصور فریق مریض اور اس کے لواحقین نے جانی اور مالی طور پر اٹھایا۔

اس افسوس ناک واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ لیکن نہ حکومت نے اپنی کوتاہی تسلیم کی اور نہ ہی وکلا رہنماٶں نے ہاسپٹل میں وکلا کی طرف سے کی گئی توڑ پھوڑ، غنڈہ گردی کی مذمت کی اور جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا۔ بلکہ الٹا احتجاج اور ہڑتال کی کال دے دی۔ حکومتی وزراء اور مشیر اس موقعے پر شکر ادا کرتے نظر آئے کہ حکومتی شان دار حکمت عملی کے باعث سانحہ ماڈل ٹاٶن از سر نو رونما ہونے سے بچ گیا۔

اس موقعے پر ہر شہری کا حکومت وقت سے سوال کرنا بنتا ہے، کہ جو مریض جان سے گئے، جن حضرات کی گاڑیاں توڑی پھوڑی گئیں اور سرکاری املاک کو جس طرح نقصان پہنچایا گیا۔ کیا اسی طرح کے نقصانات ماڈل ٹاٶن میں پیش نہیں آئے تھے؟ وہاں گلو بٹ تھا، تو یہاں وزیر اعظم کے بھانجے اودھم مچاتے پھر رہے تھے۔ گلو بٹ کو تو جیل ہو گئی تھی۔ کیا وزیر اعظم کے بھانجے بھی قانون کے کٹہرے اور پکڑ میں آئیں گے؟

ابھی پی آئی سی میں رونما ہونے والے واقعے کے صدمے سے باہر بھی نہ نکلے تھے، کہ واٹس ایپ پر ویڈیو موصول ہوئی، جس میں ایک ڈری سہمی خاتون اسسٹنٹ کمشنر انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر کی گئی، ایک تقریر کی وضاحت بپھرے ہوئے، طالب علم کو دے رہی تھیں اور اپنے عقیدہ ختم نبوّت کا یقین دلا رہیں تھیں۔ ویڈیو دیکھ کر معاشرے کے عدم برداشت کے رویے پر غور کر ہی رہے تھے، کہ خبر آ گئی، کہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں ایک طلبا تنظیم نے دوسری طلبا تنظیم کے طالب علموں پر فائرنگ کر دی۔ اور ایک طالب علم جان کی بازی ہار گیا اور کئی زخمی ہو گئے۔

دل کی عجیب کیفیت ہے۔ سمجھ نہیں آ رہا، کہ معاشرے کے ہر طبقے میں پائی جانے والی عدم برداشت کی کس طور مذمت کی جائے۔ معمولی معمولی باتوں پر گالم گلوچ، مار پیٹ اور قتل و غارت گری کے واقعات معاشرے میں تسلسل کے ساتھ وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ بیٹے کی یونیورسٹی میں طلبا میں جھگڑا کینٹین میں کرسی کی وجہ سے ہوا، چونکہ فریق مخالف کا طالب علم دوسرے طالب علم کی کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔ پی آئی سی میں جھگڑے کی بنیاد اور وجہ ایک وکیل کو بنا لائن کے دوا نہ دینا اور ایک ڈاکٹر کی تقریر نکلی۔

وکلا حضرات کی تنک مزاجی، مخالف نقطہُ نظر رکھنے والے سینئر وکلا کے چہروں پر سیاہی پھینکنا، ججز پر ان کے چیمبرز میں گھس کر تشدد کرنا، وجہ بے وجہ پے در پے ہڑتالیں کرنا، تو ایک عرصے سے دیکھ ہی رہے تھے۔ اب ہاسپٹل پر حملہ کر کے وکلا حضرات نے اپنی رہی سہی عزت بھی کھو دی ہے۔ ڈاکٹرز بھی گزشتہ چند سالوں سے کٹھ پتلی بنے، موقع بے موقع او پی ڈی اور ایمر جینسی کا بائیکاٹ اور ہڑتالیں کرتے ہیں۔ ان کی طرف سے بھی وکلا پر تشدد لائق تعجب و تشویش ہے۔

اسی طرح طلبا ، طلبا تنظیموں کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور دوسری طرف مخالف تنظیم کے طالب علم کی جان لینے سے بھی نہیں چوک رہے۔ ایسی صورت حال میں کون طلبا تنظیموں کی بحالی کی حمایت کرے گا؟ جب کہ طلبا تنظیمیں، طلبا کی فلاحی سرگرمیوں سے زیادہ سیاست و گروہی سیاست میں سرگرم ہوں۔ وطن عزیز میں گروہی، مذہبی و مسلکی سیاست و نفرت اپنے عروج کو پہنچی ہوئی ہے۔ جس کی زد میں سرکاری افسران اور سیاسی رہنما بھی آئے ہوئے ہیں۔

طلبا کسی بھی ملک کا مستقبل ہوتے ہیں۔ جب ملک کا مستقبل ہی گروہی سیاست و مذہب میں الجھا ہوا ہے، تو ملک کا مستقبل کیسا ہوگا؟ یہ سمجھنا مشکل نہیں۔ وکلا اور ڈاکٹرز حضرات کا کام بھی عوام کو قانونی تحفظ دینا اور طبی امداد بہم پہنچانا ہے۔ لیکن دونوں فریق ایک دوسرے کو مارپیٹ کر ہاسپٹل اور کورٹ کچہری میں کھینچ رہے ہیں۔ فی الوقت تو محسوس ہوتا ہے، کہ گروہی و مذہبی سیاست کے حامل وکلا ، طلبا اور ڈاکٹر معاشرے کا ناسور بن گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).