مجھے نہیں جانتے میں کون ہوں؟


”تم مجھے نہیں جانتے میں کون ہوں“ اس فقرہ کو اگرلطیف پیرائے میں بیان کیا جائے تو کہانی اس طرح سے ہے کہ ایک ریل کے ڈبے میں برتھ پر ایک آدمی بغیر ٹکٹ لیٹے ہوئے سفر کر رہا تھا جو مسافر بھی اس سے تقاضا کرتا کہ بھائی ذرا ساتھ ہونا، تو جناب ترش اور کرخت لہجے میں ہر کسی سے یوں گویا ہوتے کہ ”تم مجھے نہیں جانتے ہو کیا؟ “ جو کوئی بھی سنتا خامشی کی بکل اوڑھے ایک طرف کسی بھی کونے میں جا بیٹھتا، اسی اثنا میں کوئی سر پھرا بھی ادھر ہی آنکلا اور اس لیٹے ہوئے شخص سے بولا کہ چلو اٹھو مجھے بھی تھوڑی بیٹھنے کو جگہ دو تو حسب سابق لیٹے ہوئے شخص نے وہی فقرہ دہرایا جس کے جواب میں جواب آں غزل کے طور پر پوچھنے والے نے کہا کہ ہاں بتاؤ تم کون ہو؟ تو لیٹا ہوا شخص منہنی سی آواز میں بولا ”بیمار ہوں اور بیٹھ کر سفر نہیں کر سکتا“

میری طرح آپ نے بھی کئی بار پاکستا ن کے سرکاری دفاتر، ہسپتال، پولیس اسٹیشن، سکول وکالج حتیٰ کہ شاپنگ مال میں بھی مشاہدہ کیا ہوگا یا آپ کے تجربہ میں یہ بات آئی ہوگی کہ رائی بھر بھی کسی طاقتور سے رابطہ رکھنے والے شخص سے ملازمین یا دکانداروں کا سلوک خوشگوار نہ ہویا ہتک آمیز ہو جائے تو چھوٹتے ہی آپے سے باہر ہوتے ہوئے بآواز بلند پکار پکار مجمع اکٹھا کر لے گا کہ ”کیا تم جانتے نہیں میں کون ہوں؟ کیا تمہیں نہیں پتہ میں کس کا بندہ ہوں، تمہیں میرے بارے میں کچھ پتہ بھی ہے، کیا تمہیں اپنا تعارف کروانا پڑے گا؟ ایک بار اپنے دوست کی دکان پر یہ ماجرا دیکھا، میں تو ورطہ حیرت بن گیا کہ صرف پانچ روپے کی رعائت کے حصول کے لئے بحث وتمحیص کے بعد گاہک نے اپنے فون سے ایم این اے کے بھائی کو فون کردیا کہ فلاں شخص آپ کے تعارف کے باوجود بھی مجھے رعائت نہیں کر رہا ہے، مجھے محمود ہاشمی کا مشہور زمانہ یہ شعر یاد آگیا

میں نہیں مانتا کاغذ پہ لکھا شجرہ نسب

بات کرنے سے قبیلے کا پتہ چلتا ہے

پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ہونے والا حالیہ سانحہ، حادثہ، ماتم یا بے حس قوم کے ایک طبقہ کی رذیل حرکت کا آغاز بھی اسی ایک فقرہ سے ہواکہ ”تم مجھے نہیں جانتے میں کون ہوں؟ یہی“ میں ”دونوں اطراف سے“ ہم ”میں تبدیل ہوئی تو مسیحائی کی آماجگاہ، کار زار بلکہ ان خاندانوں کے لئے میدانِ کرب و بلا جن کے پیارے ان سے جدا ہوگئے، بن گیا۔ کارڈیالوجی کے اس سنٹر نے کسی کے دل کی دھڑکنوں کو ساکت کردیا تو کسی کے لختِ جگر کو اس سے جدا کردیا، چلتی سانسوں کو یک ساعت ایسے بند کر دیا کہ پسماندگان کی زندگی ہی بند ہو گئی۔ اس ایک“ میں ”نے کتنے گھروں کو اجاڑ کر جڑ ہی کاٹ دی کہ پھر کوئی وہاں پیدا ہی نہ ہو پائے۔ ٹی وی سکرین پر یہ تمام مناظر دیدن ہوئے تو یوں لگا کہ واقعی

اپنی اپنی انا میں گم

میں، محبت اور تم

حالیہ واقعہ کے بعد ڈاکٹرز اور وکلا کے جس طرح سے بیانات سننے میں آ رہے ہیں مجھے نہیں لگتا کہ معاملہ کہیں رکنے والا ہے یوں لگتا ہے کہ سب اپنی اپنی انا کے بے رحم اورنام نہاد خول سے باہر آنے سے ڈر رہے ہیں کہ کہیں ہماری انا ہی ہمیں مار نہ دے، لیکن یہ بات بھی ذہن میں ہونی چاہیے کہ جب رہبروں کے ضمیر مجرم بن جایا کرتے ہیں تو دل مردہ اور ضمیر تار تار ہو جایا کرتے ہیں، بس محسوس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، احساس ندامت ضمیر میں چھپی وہ چنگاری ہے جو اگر سلگنا شروع کر دے تو یہی احساس ندامت قوموں کا شعور بن جایا کرتا ہے، پھر انسان میں، میں نہیں بلکہ تم بن جایا کرتے ہیں۔

مولانا روم کا ایک واقعہ یاد آگیا کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور پوچھا کہ حضور۔ ”میں بڑا آدمی بننا چاہتا ہوں“ تو مولانا نے بہت خوب صورت جواب دیا کہ اس فقرہ سے ”میں“ کو نکال دو کیونکہ یہ کبریائی و تکبر کی علامت ہے، اور پھر ”چاہتا ہوں“ کو بھی اپنی ذات سے منہا کر دیجئے کیونکہ چاہنا بھی حِس ہوس کی عکاسی ہے، باقی جو بچتا ہے وہ ”آدمی“ ہی ہوتا ہے، کیا ہی اچھا ہو اگر ہم سب بھی یہ سوچنے لگ جائیں کہ ہم سب اچھے انسان بن جائیں، یقین مانئے جب ہماری سوچ میں سے ”میں“ نکل جائے گی تو پھر ہم کسی سیاستدان، جاگیردار، وڈیرے، فیوڈل، سرکاری افسر یا کسی ڈیرے دار کے نہیں بلکہ ایک اللہ کے بندے بن جائیں گے، اور جب کوئی اللہ کا بندہ بن جاتا ہے تو پھر اسے دنیا کی کسی طاقت کی پرواہ نہیں ہوتی، دنیا سے لاپرواہی دراصل آخرت کی فکر ہے اور وہی شخص کامیاب ہے جو دوسروں کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہے، اس لئے اپنی اپنی ”میں“ کے خول سے نکلتے ہوئے میری دونوں گروپس سے التماس ہے ایک دوسرے کو معاف کرتے ہوئے ایک دوسرے سے معافی مانگیں اور خوش حال پاکستان کی خاطر آگے قدم بڑھائیں کیونکہ انا پرستی کی زمین پرنہ کبھی محبت کے پھول کھلتے ہیں نہ تاج محل تعمیر ہوتے ہیں۔ بلکہ یوں ہوتا ہے کہ

پھر یوں ہوا کہ رستے یکجا نہیں رہے

میں بھی انا پرست تھا، تو بھی انا پرست


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).