بابائے قوم جارج واشنگٹن، بعد از مرگ 3 لاکھ ڈالر جرمانہ اور ہماری مقدس گائیں


جارج واشنگٹن امریکہ کے پہلے صدر تھے۔ سلطنت برطانیہ کے خلاف جنگ آزادی میں انھوں نے امریکی قوم کی قیادت کرتے ہوئے آزادی دلوائی اور امریکہ کے پہلے صدر کی حیثیت سے 1789 سے 1797 تک کا دور گزارا۔ جارج واشنگٹن کو جنگ آزادی میں مرکزی کردار ادار کرنے، امریکہ کے لئے آئین کی تشکیل اور بطور صدر امریکہ کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی وجہ سے بابائے قوم بھی کہا جاتا ہے۔ دوران عرصہ صدارت جارج واشنگٹن نے نیویارک سوسائٹٰی لائبریری سے 5 اکتوبر 1789 کو بین الاقوامی تعلقات سے متعلقہ ایک تھیسیس بعنوان ”قانون اقوام“ جو کہ برطانوی ہاؤس آف کامنز میں ہونے والی تقاریر پر مشتمل تھا کے 14 میں سے دو والیوم اپنے نام پہ ایشو کروائے۔

اس وقت نیویارک امریکہ کا دارالخلافہ ہوا کرتا تھا۔ لائیبریری کے ریکارڈ کے مطابق کتاب لینے والے کے مکمل کوائف درج کرنے کی بجائے صرف ”صدر“ کا اندراج کیا گیا۔ جبکہ کتب واپسی کا اندراج خالی تھا۔ دونوں والیم کی واپسی کا مقررہ وقت ایک ماہ کا تھا۔ لیکن وہ واپس لائبریری میں جمع نہ کروائی گئیں۔ جس کے نتیجے میں امریکن صدر پر جرمانہ عائد کردیا گیا۔ اپریل 1792 میں جب لائبریری انتطامیہ نے ریکارڈ کو نئے سرے سے مرتب کیا تو اس دوران 1789 سے 1792 کے عرصہ کا ریکارڈ کسی وجہ سے مرتب نہ کیا جاسکا۔ 14 دسمبر 1799 کو جارج واشنگٹن کا انتقال ہو گیا جبکہ اس وقت تک مذکورہ کتابیں لائبریری میں جمع نہ کروائی جا سکیں تھیں اور اس قرض کے ساتھ جارج واشنگٹن دنیا فانی سے کوچ کر گئے۔

سال 1934 میں لائبریری کا گم شدہ ریکارڈ مل گیا۔ جس سے پتہ چلا کہ سابق امریکی صدر جارج واشنگٹن نے مذکورہ کتابیں واپس نہ کی ہیں۔ لہذا وقت گزرنے کے ساتھ جرمانے کی رقم میں اضافہ ہوتا چلاگیا اور 16 اپریل 2010 کو لائبریری نے جرمانے کی رقم کا تعین 3 لاکھ ڈالرکیا۔ امریکی اخبارات نے اس خبر کو امریکی صدور سے متعلقہ مزید ایک سکینڈل کے طور پر شائع کیا۔ چونکہ اس معاملے میں لائبریری انتظامیہ ایک فریق کی حیثیت سے شامل تھی۔

لہذا جارج واشنگٹن کی ورجینیا میں موجود پرانی رہائش گاہ ماؤنٹ ورنن پر موجود وارثان نے لائبریری سے رابطہ کیا۔ اور جارج واشنگٹن کے ذمہ واجب الادا قرض کو ادا کرنے کی پیشکش کی۔ جبکہ لائبریرین کے مطابق ان کو جرمانے کی رقم سے زیادہ کتب کی واپسی میں دلچسپی تھی۔ لہذا وارثان کی طرف سے اسی کتاب کا وہی ایڈیشن آن لائن خرید کر لائبریری میں جمع کروایا گیا۔ جس کی قیمت تقریبا دس ہزار ڈالر ادا گئی۔ اس طرح دو سو اکیس سال کے بعد جارج واشنگٹن کے ذمہ واجب الادا کتاب کا قرض چکایا گیا۔

اگرچہ یہ جرمانہ کسی عدالت کی طرف سے نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن جارج واشنگٹن کے وارثان نے دو سو سال بعد منظر عام پر آنے والے اس عجیب و غریب معاملے کو آنجہانی صدر کے خلاف کسی سازش اور ان کی قد آور شخصیت کو مسخ کرنے کی کسی کوشش سے منسوب کیا اور نہ ہی اس کو جارج واشنگٹن کی خدمات کے ساتھ جوڑا گیا۔ بلکہ اس غلطی کی تلافی کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ اس جرمانے سے امریکہ کی سالمیت، جمہوریت، معاشرتی و سماجی اقدار کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا۔ کیوں کہ جارج واشنگٹن بابائے قوم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انسان بھی تھے اور ان سے غلطی ہونے کے بھی چانسز تھے لہذا وارثان نے نہ صرف لائبریری کے ریکارڈ کو نہ صرف درست تسلیم کیا بلکہ مذکورہ کتاب کی کاپی خرید کر واپس جمع بھی کروائی۔

ہمارے ہاں صورت حال قدرے مختلف ہے۔ ہم نے کچھ لوگوں کو مقدس گائے کا درجہ دے کا ان کے نظریات و افکار کو آسمانی عقائد کا درجہ دے دیا ہے۔ اور یہ بدقسمتی سے یہ رجحان تقریبا ہر طبقہ فکر میں بڑی توانا فکر کی صورت میں پایا جاتا ہے۔ اور ان خود ساختہ مستند افکار پر اعتراض کرنے کے صورت میں آپ اس مخصوص طبقہ مقلدین کے نزدیک غدار، کافر اور واجب القتل قرار دیے جائیں گے۔ اس سوچ اور انداز فکر نے ہمارے معاشرے میں ایک طرح کی گھٹن پیدا کر دی ہے۔

جہاں صحت مند مکالمے کی گنجائش نہیں رہی۔ عدم برداشت اور تشدد پر مبنی معاشرتی رویوں کی دوسری بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ اظہار رائے پر پابندی اور مروجہ عقائد و نظریات سے اندھی عقیدت بھی ہے۔ جو ان کو سچ کی کسوٹی پر پرکھنے اور نئے زاویوں سے دیکھنے کی اجازت نہیں دیتی۔ معاشرے میں عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے رجحان کی بیخ کنی اور اس گٹھن کو کم کرنے کے لئے ہمیں معاشرتی و سماجی اقدار کے پیمانوں کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہو گا۔

نئے نظریات و افکار معاشرتی و سماجی ترقی کے لئے عمل انگیز کا کام کرتے ہیں۔ چاہے یہ کتنے ہی عجیب و غریب اور غیر منطقی کیوں نہ ہوں۔ اگر ایسی آزادانہ معاشرتی رواداری و برداشت پر مبنی معاشرہ تشکیل دیا جائے جہاں نہ صرف مروجہ نظریات کو پرکھا جائے بلکہ بدلتے وقت کے تقاضوں کے مطابق ان میں حسب ضرورت ترمیم و تحریف کی جا سکے اور ان کے مقابل جدید افکار کو بھی بلا تعصب سمجھا، پرکھا اور تسلیم کیا جائے۔ تو اس معاشرتی ترتیب میں اگر یہ نظریات و افکار معاشرتی قبولیت نہ حاصل کر سکے تو خود بخود ختم ہو جائیں گے اور کسی بگاڑ کا باعث نہیں بنیں گے۔

لیکن اگر بزور بازو ان کو روکا جائے گا اور ان کو منطقی انجام تک نہ پہنچنے دیا جائے گا۔ تو اس کے منفی اثرات کسی نہ کسی طور پر معاشرے مرتب ہوں گے۔ اور ہو رہے ہیں۔ جو کبھی معاشرتی پاگل پن کی صورت میں گل سما کی جان لیتے ہیں اور کبھی اجتماعی انارکی کی شکل میں پنجاب انسٹیوٹ آف کارڈیولوجی میں مریض ان کا شکار بنتے ہیں تو کبھی مذہبی جنونیت کے سامنے اسسٹنٹ کمشنر اٹک کو اپنے ایمان کی گواہی دینا پڑتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).