ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے


ملکی حالات روز بروز خرابی کی جانب بڑھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر حکومت نے اس کے حوالے سے ہنگامی طور سے کوئی سوچ بچار نہ کی تو پھر وہ ہاتھ ملتی رہ جائے گی اور تیسری قوت معاملات مملکت دیکھنے کے لیے سامنے آن کھڑی ہو گی لہٰذا حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف دونوں کو تادیر سیاسی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ صورت حال اس قدر تبدیل ہو جائے گی کہ مختلف النوع پابندیاں عائد ہو جائیں گی یعنی ہر طرح کے اظہار پر سخت ترین پابندی ہو گی جو تاریخ کی بدترین گھٹن میں بدل جائے گی لہٰذا بہتر یہ ہے کہ دونوں فریق مل بیٹھ کر در پیش حالات کو دیکھیں اور انہیں بے قابو ہونے سے بچائیں مگر افسوس فریق ثانی کی جانب سے حکومت کو نیچا دکھانے کے لیے تمام تر توانائیاں صرف کی جا رہی ہیں۔

حکومت مخالف سیاسی جماعتیں ہوں یا اُن کے ہمدرد ووٹرز، سپورٹرز، لکھاری اور دانشور اُسے رات دن ایک کر کے گرانے کی حکمت عملی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ یہ حکومت نا اہل ہے غیر سنجیدہ ہے اور انتظامی امور سے ناواقف ہے لہٰذا اسے اقتدار سے الگ ہو جانا چاہیے اور نئے انتخابات ہونے چاہئیں۔ مقصد ان کی پسندیدہ حکومت بنے جو ماضی میں ان کی ہر آرزو کا احترام کرتی رہی ہے انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتی رہی ہے دوسرے لفظوں میں ان کے شکم سیر ہونے کا مناسب بندوبست کرتی رہی ہے۔

کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں موجودہ حکومت سے یہ امید تھی کہ وہ آئے گی تو انہیں کوئی عہدہ دے دے گی۔ خوب دورے سیر سپاٹے کرائے گی اور تھنک ٹینک کا حصہ بنائے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔ اب وہ بھی ہاتھ سر پر رکھ کر دہائی دے رہے ہیں کہ اگر یہ حکومت رہتی ہے تو ملک کا بھٹہ بیٹھ جائے گا عوام کا برا حال ہو جائے گا ملک کنگال ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ۔

وہ ماضی کے حکمرانوں کی پالیسیوں بارے اپنا منہ کیوں نہیں کھولتے کہ جب اندھیر مچا ہوا تھا اداروں کو برباد کرنے کے لیے منصوبے بنائے جاتے رہے۔ مافیاز کو طاقتور بنانے کے لیے انہیں ہر طرح کی سہولتیں فراہم کی جاتی رہیں علاقائی سطح پر اُن کو پورا اختیار دیا گیا کہ وہ کچھ بھی کریں انہیں کوئی نہیں پوچھے گا؟

بہرحال یہ بھی حقیقت ہے کہ اس مشکل ترین دور میں ہر کوئی اپنی بقاء کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے اُسے جہاں کہیں کوئی سامان زیست دکھائی دیتا ہے وہ اس کی طرف لپکتا ہے مگر اس سے معاشرے میں ایک حفاظت خود اختیاری کی دوڑ شروع ہو چکی ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ ریاستی ادارے اور حکومت کسی بھی وجہ سے ناکام ہو چکے ہیں، اُن کے بس میں نہیں رہا کہ وہ صورت حال کو قابو میں کر سکیں۔ وکلا کے مظاہرے کو دیکھ لیجیے کہ انتظامیہ انہیں دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے سکون سے دیکھتی رہی۔

ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اُن میں سے زیادہ تر کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے تھا مگر دیکھنا ہو گا کہ یہ نوبت کیوں پیش آئی وکلاء کو بھی سوچنا ہو گا کہ وہ مہذب لوگ ہوتے ہوئے بھی تشدد کی راہ پر کیوں گامزن ہو گئے کہ جس کے نتیجے میں مالی و جانی نقصان ہوا۔ صرف وکلاء ہی نہیں معاشرے کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور گروہ مشتعل نظر آتے ہیں۔ انہیں مہنگائی کرنے والوں سے بھی شکوہ ہے۔ سرکاری اداروں، پولیس، محکمہ مال اور عدالتوں سے بھی شکایت ہے کہ وہ انہیں غیر اہم تصور کرتے ہیں لہٰذا ان کے کام میرٹ کی بنیاد پر نہیں کیے جاتے۔ انہیں کوئی سفارش ڈھونڈنا پڑتی ہے یا پھر رشوت دینا پڑتی ہے۔

غریب عوام کے مسائل اور دکھوں سے متعلق ہمارا میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا آٹے میں نمک برابر پروگرام ترتیب دیتا ہے جبکہ ان کا تناسب زیادہ ہونا چاہیے مگر ایسا نہیں ہے سات آٹھ بجے سے لے کر بارہ بجے تک سیاسی یعنی سیاستدانوں کے ”مسائل“ زیر بحث لائے جاتے ہیں۔

حیرانی مگر یہ ہے کہ جو بھی سیاسی جماعتوں کے ترجمان ہوتے ہیں وہ اپنی جماعت کا غیر ضروری دفاع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی کسی غلطی اور کوتاہی جو واضح تر ہوتی ہے اُسے تسلیم نہیں کرتے بلکہ اسے درست منوانے کے لیے دلیلیں پیش کرتے ہیں۔ اینکر حضرات اگرچہ ہنس رہے ہوتے ہیں اور سب جان رہے ہوتے ہیں مگر انہوں نے اپنی دکانداری چلانا ہوتی ہے لہٰذا وہ بات کو آگے بڑھائے جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ عوام کی خدمت کر رہے ہیں انہیں سیاسی شعور دے رہے ہیں جبکہ وہ انہیں نفرت سکھا رہے ہوتے ہیں سیاست سے۔ انہیں چاہیے کہ وہ تجزیہ کاروں کو ہی مدعو کریں وہ اپنی اپنی رائے پیش کریں جو غلط ہو یا صحیح ان میں تہذیب و شائستگی تو ہوتی ہے اور پھر وہ ہاتھا پائی یا اپنے درجہ حرارت کو قابو میں رکھتے ہیں مگر یہ سیاسی نمائندے تو خوامخواہ سینگ اڑائے ہوتے ہیں ایسے مناظر سے ہم عوام کیا تاثر لیں گے؟

عرض کرنے کا مقصد ہم سب مجموعی بگاڑ کے ذمہ دار ہیں جن میں حکمرانوں کو زیادہ ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے کیونکہ وہ افراد کی تعمیر کے بجائے خود کو مضبوط و توانا بنانے میں مصروف رہے ہیں۔ انہوں نے قومی خزانے کو انتہائی بے دردی سے ذاتی تجوریوں میں منتقل کیا۔ اخلاقی اقدار کو یکسر نظر انداز کر کے ایک ایسا کلچر پیدا کیا جس میں دھونس دھاندلی کو اہم سمجھا گیا لہٰذا آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کوئی بھی شخص سیانوں کی باتوں کی طرف نہیں دیکھ رہا اُسے ان کی نصیحتیں معمولی لگتی ہیں بلکہ وہ خود کو دانا و بینا خیال کرتا ہے یہاں تک کہ اُسے دوسرے بونے نظر آتے ہیں۔ یہ حال ہے ہمارے معاشرے کا لہٰذا اس میں موجود بگاڑ گھمبیر صورت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ اس سے عدم برداشت کے مناظر عام دیکھے جا سکتے ہیں بات گھونسا بازی سے آگے جا رہی ہے جان لینا معمول بنتا جا رہا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ ریاست و حکومت خاموشی سے یہ سب دیکھتے رہیں گے؟

انہیں جنگی بنیادوں پر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ احترام، رواداری، تحمل، بردباری اور محبت کا کلچر ابھارنا ہو گا اس کے لیے انہیں بنیادی انسانی حقوق دینا ہوں گے اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بنانا ہو گا۔ نا انصافی کا خاتمہ کر کے انصاف کا علم بلند کرنا ہو گا۔ اس سے ہر شہری کے دل میں اُس کے لیے محبت کے جذبات جنم لیں گے اور وہ یہ سمجھیں گے کہ حکمران و ریاست اُن سے چشم پوشی اختیار نہیں کر رہے اس کے برعکس وہ انہیں آسائشیں فراہم کرنے سے متعلق غور و فکر کر رہے ہیں مگر یہاں تو عجیب طرح کی حکمرانی ہوتی آئی ہے۔

ہر کسی نے اپنے پاؤں جمانے اور پسارنے ہی کی کوشش کی ہے طرح طرح کی منصوبہ بندی کی گئی عوام کی جیبوں سے ٹیکسوں کی صورت اور مہنگائی کر کے ان کی محنت کی کمائی اینٹھی گئی آج تک اُنہیں کسی بھی حکمران نے سکھ کا سانس نہیں لینے دیا جو آیا ایک سے ایک بڑھ کر آیا اور حیرت یہ ہے کہ اس کے ہر ایک اقدام کو درست ثابت کرنے کے لیے مفکرین نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ اس وقت بھی یہی کچھ ہو رہا ہے ماضی و حال کو عوام دوست کے طور سے ثابت کرنے کے لیے ارسطوؤں کی ایک کثیر تعداد میدان عمل میں موجود ہے مگر زمینی حقائق مختلف ہیں جو کبھی تشدد کی شکل میں نظر آتے ہیں اور کبھی لا تعلقی و مایوسی کی صورت میں۔

اس صورت حال سے نجات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انصاف کو یقینی بنایا جائے۔ مکالمے کا آغاز کیا جائے جن ذہنوں میں وسوسے گھر کر گئے اور نفرتیں پیدا ہو چکی ہیں انہیں آگے بڑھ کر گلے لگایا جائے اور یہ بتایا جائے کہ وہ اہم ہیں ان کو اپنا قومی کردار ادا کرنا ہے لہٰذا وہ دیکھیں گے کہ یکسر اندیشوں کے منڈلاتے بادل چھٹ گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).