احمد نواز کے لئے سال کا ہر دن سولہ دسمبر ہے
جب سے پشاور آرمی پبلک سکول کا دہشت گرد حملہ ہوا ہے تب سے صبح خیزی کے عادی محمد نواز ہر سال سولہ دسمبر کو دوپہر تک سونے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ رنج و غم کی شدت کم از کم آدھے دن تک گھٹ کر رہ جائے۔
محمد نواز سولہ دسمبر 2014 سے ایک دن پہلے اپنے سسرال میں فوتگی کی وجہ سے اپنی بیوی کے ہمراہ سوات گئے تھے۔ وہ اپنے تینوں بیٹوں کو پشاور میں گھر پر چھوڑ چکے تھے۔ محمد نواز کو بچوں کی فکر تھی اور رات کو ہی پشاور واپس روانہ ہوئے۔ جوں ہی نیم شب کو گھر پہنچے تو دیکھا کہ ان کا تیرہ سالہ بیٹا حارث ٹی وی پر کرکٹ کی جھلکیاں دیکھ رہا ہے۔ محمد نواز نے اسے ڈانٹ کر سونے کا کہا۔
محمد نواز ہر صبح بچوں کو نماز پڑھنے کے لئے جگایا کرتے تھے لیکن آج ان کے بیٹے احمد نواز نے انہیں جگا کر شکایت کی کہ حارث جاگنا نہیں چاہ رہا ہے۔ باپ نے بیٹے کو پہلے پیار سے جگانے کی کوشش کی لیکن وہاں سے آج سکول نہ جانے کی آواز آئی تو محمد نواز نے ڈانٹ کر اس سے زبردستی جگایا۔
آنکھوں میں نیند لئے حارث جبب سر پر تولیا باندھ کر واش روم کی طرف روانہ ہوئے تو اس نے باپ کو شاکی نگاہوں سے دیکھا اور باپ نے بھی اسے غضبناک نظروں سے گھورا۔
یہ باپ اور بیٹے کی آخری ملاقات تھی۔
محمد نواز گاڑی ٹھیک کروانے کے کیے ورکشاپ میں تھے کہ انہیں آرمی پبلک سکول پر حملے کی خبر ہوئی۔ لیکن تیرہ سالہ حارث نواز کی موت کی خبر انہیں اس وقت فون پر دی گئی جب وہ اسی حملے میں زخمی ہونے والے اپنے دوسرے بیٹے احمد نواز کے ساتھ ہسپتال میں تھے۔
احمد نواز کو دو ہفتے بعد بتایا گیا کہ حارث حملے میں ہلاک ہوچکا ہے۔ اس کے دوستوں نے بتایا کہ حارث حملے کے دوران زندہ سلامت آڈیٹوریم سے نکل چکے تھے لیکن وہ نجانے کیوں دوبارہ بھاگ کر واپس آڈیٹوریم گئے۔
حارث کے بڑا بھائی چودہ سالہ احمد نواز آڈیٹوریم میں بیٹھے تھے کہ انہوں نے فائرنگ کی آوازیں سنیں۔ کچھ ہی دیر میں مسلح شدت پسند ان کے سامنے تھے مگر وہ نے چھلانگ لگا کر میز کے نیچے چھپ گئے۔ لیکن ایک شدت پسند نے ان کو ہاتھ پر گولی چلائی اور جب وہ اٹھے تو ہاتھ تقریباً تن سے جدا ہو چکا تھا۔ احمد خود کو سنبھال ہی رہے تھے کہ ان کے پہلو میں ان کے دوست کے سر میں گولی ماری گئی اور خون کے چھینٹے احمد کے چہرے پر آکر لگ گئے۔
احمد اپنا بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ میں اٹھا کر چھپنے کے لئے دوسرے کمرے کی طرف ایسی حالت میں دوڑے کہ ہر طرف زخموں سے چور بچوں کی کراہنے کی آوازیں گونج رہی تھیں، تن سے جدا سر، پیر اور ہاتھ بکھرے پڑے تھے۔
وہ جوں ہی دوسرے کمرے میں گئے تو انہوں نے وہاں پر بھی بچوں کو زخمی حالت میں دیکھا۔ ان کا ایک دوست شدید زخمی حالت میں کراہ رہا تھا اور احمد اس کو دلاسا دیتے رہے۔ اس دوران مسلح شدت پسند اندر داخل ہوئے اور کمرے میں پناہ لئے ہوئے ان کی استانی پر کیمیکل کا چھڑکاؤ کیا اور ان کو آگ لگا دی۔ ادھر ان کی استانی آگ کی لپیٹ میں تھیں ادھر احمد نے خود کو مردہ ظاہر کرنے کے لئے سانس روک لی تاکہ شدت پسندوں کو ان کے زندہ ہونے کا احساس نہ ہوجائے۔
کچھ دیر بعد فوجی آئے اور احمد نواز کو ایک پک اپ گاڑی میں ہسپتال لے گئے۔ ان کو ہسپتال میں گاڑی سے مردہ سمجھ کر پھینک دیا گیا لیکن زمین سے ٹکرانے کے بعد جب احمد نے آنکھیں کھولیں تو وہاں ایک شخص نے آواز لگائی کہ یہ تو زندہ ہے۔
بعد میں احمد نواز کو علاج کی خاطر برمنگھم لے جایا گیا۔ آج کل وہ بعض اوقات سوشل میڈیا اور میڈیا پر خبروں کی شہ سرخیوں میں رہتے ہیں۔ انہوں نے 2015 سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف کمپین شروع کر رکھی ہے۔
انہوں ایک ایسے وقت کمپین شروع کی کی جب شام اور عراق میں پہلے ہی سے داعش کا ظہور ہو چکا تھا اور برطانیہ سے بھی نوجوان شام اور عراق چلے گئے تھے۔ احمد کی اپنی کہانی اتنی توانا تھی کہ وہ برطانیہ کی حکومت کے لئے ایک لحاظ سے سود مند ثابت ہورہی تھی۔
ان کے موثر رول کو برطانیہ کی وزیراعظم ٹیریزا مے نے ملاقات کرکے سراہا۔ احمد نواز کو 2019 کے لگیسی ایوارڈ سے نوازا گیا اور پرنس ولیم نے بھی ان سے ملاقات کی۔
میڈیا، سول سوسائٹی اور سیاسی پارٹیوں کو ان کی اور آرمی پبلک سکول کے حملے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے بچوں کی یاد سال میں صرف ایک دفعہ یعنی سولہ دسمبر کو آتی ہے۔ لیکن بقول احمد نواز کے ان کے لئے سال کا ہر دن سولہ دسمبر ہے۔
فوٹو کریڈٹ: محمد نواز صاحب۔
( عبدالحئی کاکڑ مشال ریڈیو سے منسلک ہیں اور یہ تحریر مشال ریڈیو کی ویب سائٹ میں پشتو زبان میں چھپ چکی ہے۔ )
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).