ہم طاقت کی دیوی پر ایمان لا چکے!


ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں طاقت کو اصل اہمیت حاصل ہے۔ اس کے سامنے کوئی قانون کوئی ضابطہ نہیں ٹھہرتا۔ اپنی تاریخ میں چار دفعہ تو ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ملک کا آئین بھی طاقتور کے سامنے نہ ٹھہر سکا۔ جس معاشرے میں آئین کو تقدس حاصل نہ ہو وہاں پھر رفتہ رفتہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا فلسفہ ہی پروان چڑھتا ہے۔ ہماری سیاسی اور سماجی بنت دراصل طاقت کے مزاج پر ہے، یہاں سچائی طاقت نہیں بلکہ طاقت سچائی ہے۔ دل کے ہسپتال پر وکلا کے حملے کا جو واقعہ حالیہ دنوں میں ہوا ہے ،اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا اس سے زیادہ پستی میں کوئی گرسکتا ہے؟ جہاں جھتوں کی حکمرانی ہو اور ہر روز ریاست کی رٹ کو نامعلوم اور معلوم چیلنج کر رہے ہوں وہاں رہنا عذاب سے کم نہیں۔

پی آئی سی پر حملے کے بنیادی طور پر چار فریق ہیں۔

  1. ریاست
  2. سماج
  3. وکلا
  4. ڈاکٹر

پہلے بات کرتے ہیں ریاست کی، جس کے بارے میں ’بطل حریت‘ چوہدری اعتزاز احسن وکلاء تحریک میں نعرہ لگایا کرتے تھے کہ ریاست ہو گی ماں کے جیسی! پر افسوس ریاست ماں تو کیا، سوتیلی ماں بھی نہیں بن سکی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی کمزوری عیاں ہورہی ہے۔ گلی محلے کے غنڈے ہوں، مذہب کے نام پر گلے کاٹنے والے یا اپنے نام نہاد حقوق کے لیے احتجاج کرتے گروہ۔ ریاست اسی وقت حرکت میں آتی ہے جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہوتا ہے۔

کارڈیالوجی ہسپتال کے واقعہ کے بعد پنجاب حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ 12 کروڑ کے صوبے کو کیا کسی وسیم اکرم پلس یا شیر شاہ سوری پر چھوڑا جا سکتا ہے؟ اس وقعے کے دوران حکومت اور اس کے ادارے کہاں تھے؟ پولیس نے بروقت کارروائی کیوں نہیں کی؟ جب کہ ایک رات پہلے لاہور شہر کے تمام ایس ایچ اوز اور اوپر کے افسروں کو پتا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ اس سب کے باوجود بزدار سرکار کہاں دبکی ہوئی تھی یہ ’نیا پاکستان‘ میں سوچنے کی بات ہے۔

 اپنے سماج کی بات کریں تو یہاں ہم صرف زبانی کلامی طاقتور کو برا کہتے ہیں۔ حقیقت میں ہم سب زیادہ سے زیادہ طاقت کے متلاشی ہیں۔ تشدد کو ہم روا جانتے ہیں اور ہر وقت خونی انقلاب کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ہم نے اپنے مسائل کا حل چار پانچ سو لوگوں کو لٹکانے میں ڈھونڈ رکھا ہے۔ ماورائے عدالت قتل کو بھی ہم جائز سمجھتے ہیں۔ اس صورت حال میں کسی گروہ کا تشدد پر اترنا اچنبھے کی بات نہیں ہے۔

وکلاء تحریک نے اس قوم کو متکبر جج اور پرتشدد وکیل عطا کیے ہیں جو دھونس اور بدمعاشی کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ نومبر کے آخری ہفتے میں اسپتال میں وکلا پر ہونے والا تشدد ایک غیر قانونی اور قابل مذمت عمل تھا لیکن یہ اسپتال پر حملے کا جواز نہیں تھا۔ اسپتال کو تو جنگوں کے دوران بھی محفوظ تصور کیا جاتا ہے اور ہم کیسی قوم ہیں کہ یہ جائے اماں بھی محفوظ نہیں رہی ۔ پرائیوٹ کالجز سے پڑھے یہ نوجوان وکیل علم اور کردار کے بجائے معاشرے میں بزور طاقت اپنی جگہ بنانا چاہتے ہیں اور اس راہ میں رکاوٹ بننے والی ہر چیز کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ ان کےخلاف کوئی کارروائی ہو گی کیونکہ بار اور بینچ کے باہم تعلق کی طاقت کے قصے ججوں اور وکیلوں کے منہ سے سن سن کر ہمارے کان پک چکے ہیں۔

اب آخر میں اس قضیے کے آخری فریق، ڈاکٹروں کی بات کرلیتے ہیں جو گذشتہ کئی برسوں سے سفید کوٹ والا مافیا بن گیا ہے ان کا جب دل چاہتا ہے ہڑتال کرتے ہیں، ایمرجنسیاں بند کرتے ہیں اور مریضوں کو خوار کرتے ہیں۔ یہ بڑی بڑی دوا ساز کمپنیوں کی مہنگی ادویات فروخت کرانے کے لیے مریضوں کو غیر ضروری ادویات تجویز کرتے ہیں۔ ان کی جانب سے پنجاب کارڈیالوجی میں وکلا کو مارنا ایک سراسر غلط عمل تھا جس کی ہمیں ہر حال میں مذمت کرنی ہو گی۔ تشدد کو معاشرے کے کسی بھی طبقے کے لیے جائز قرار نہیں دیا جا سکتا ورنہ یہ دائرے کے سفر کی طرح لوٹ کر سماج کو ہی شکار کرنا شروع کر دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).