فرقوں سے گروہوں میں بٹتی قوم


پاکستان بننے کے بعد بابائے قوم کا ارشاد اور خواہش تھی کہ اب بطور پاکستانی آگے بڑھا جائے۔ اُس وقت بات مذاہب کی تھی، مسلم اکثریتی ملک میں مسیحی اور ہندو مذاہب کی شکل میں قابل ذکراقلیت میں تھے۔ قائد کی گیارہ اگست کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ مذہب آپ کا ذاتی کاروبار ہے، ریاست کو آپ کے مذہب سے سروکار نہیں۔ یہ بات بھی اب کلیشے بن چکی کہ اس وقت کی دستور ساز اسمبلی کے اراکین کا تقرر خالصتاً ان کی قابلیت کے بل بوتے پر تھا نہ کہ مذہب اور عقیدے پر جس کی بنا تھی۔

آگے چلے تواسلامی مملکت کی سمجھ ہمیں جناح صاحب سے بھی زیادہ آنے لگی ہم نے یہ تصور باندھ لیا کہ مسلمان یہاں انسان تصور کیے جائیں گے اور دوسرے مذاہب فقط شودر۔ تحریروں اور تقریروں میں، درسی کتابوں میں، ایوانوں میں دوسرے مذاہب کا احترام سکھانے کی بجائے انہیں دوسرے درجے کا شہری بنا کر رکھ دیا گیا۔

تھوڑا اور آگے چلے تو اسلام کی تعریف ازسرنو کرنے پر غور شروع ہوگیا۔ مسلمان وہی جو میرا ہم مسلک ہو، بات شیعہ سنی کی تفریق سے آگے بڑھ گئی۔ احمدیوں کو ”قانونی طور“ پر دائرہ اسلام سے خارج کیا گیا۔ پھر بریلوی کافر، اہلحدیث کافر، وہابی کافر، شیعہ کافر، دیوبندی کافر۔ کے صدیوں سے لگے فتوے اور شدت کے ساتھ سامنے آئے۔ فتوے نفرت میں، نفرت قتل وغارت میں اور قتل وغارت دہشت گردی میں تبدیل ہوتی گئی۔ بات یہاں تک پہنچی کہ مساجد کے ماتھے اور دکانوں کے شو کیسوں پر دوسرے فرقوں کے لوگوں کے داخلے پر پابندی کے اشتہار آویزاں ہوگئے۔

اس بیچ لسانی اور صوبائی بنیادوں پر بھی نفرت کا پرچار شروع ہوا۔ قوم پہلے بنگالی اور غیر بنگالی میں تقسیم ہوئی اور ملک کے دو ٹکڑے کرا بیٹھی پھر سندھی، مہاجر، پٹھان، سرائیکی، پنجابی، بلوچی گروہوں میں منقسم بلکہ تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرتی رہی۔ حساس لکھنے والوں اورشاعروں کو تنبیہ اور پھر ہاتھ جوڑنے پڑے کہ

کوئی غنچہ ہو کہ گل ہو کوئی شاخ ہو شجر ہو

وہ ہوائے گلستاں ہے کہ سبھی بکھر رہے ہیں

کوئی اور تو نہیں ہے پس خنجر آزمائی

ہمیں قتل ہو رہے ہیں ہمیں قتل کر رہے ہیں

سیاست میں تقسیم شروع ہوئی توفلاں غدار، فلاں ہندوستانی ایجنٹ، فلاں یہودی ایجنٹ، فلاں سیکورٹی رسک، فلاں استعمار کا نمائندہ، فلاں بیرونی ایجنڈے پہ کام کرنے والا۔ پتہ ہی نہ چلا کہ پاکستان کا کون سا وزیراعظم محب وطن تھا اور کون غدار۔ کس پر فوج اعتماد کرے اور کس پر عوام۔ کس سربراہ حکومت کو کتنے راز بتائے جائیں کہ وہ دشمن کو نہ بیچ دے اور کس کو سلامتی میں کتنا حصہ دار بنایا جائے کہ سلامت تا قیامت رہا جا سکے۔

طلبہ تنظیمیں بھی انہی ناموں، نظریوں اور نفرتوں کے سہارے سامنے آتی رہیں۔ اعلی درسگاہوں میں انہی تنظیموں کے سہارے مذموم ایجنڈے پورے ہوتے رہے، خون بہے، کبھی یہ سیاسی پارٹیوں کے بدمعاشی گروپوں میں تبدیل ہوئیں تو کبھی ان پر پابندیاں لگیں۔ استاد سے لے کر وائس چانسلرز تک ان کا تختہ مشق بنے۔ ماؤں کے لاڈلے تعلیمی ڈگری کی بجائے ڈیتھ سرٹیفیکٹ لئے گھر واپس آئے نتیجہ یہ کہ بہتر سال بعد بھی بحث جاری ہے کہ تنظیمیں بحال کی جائیں اور دو دن پہلے دارالحکومت کی اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی میں تشدد اور قتل کے بعد انتظام رینجرز کے حوالے کرنا پڑ گیا ہے۔

مذاہب، فرقوں، صوبوں، زبانوں، طلبہ اور سیاستدانوں سے ہوتا یہ سفر اب پیشہ ور گروپوں کی تقسیم کے مراحل میں داخل ہوا چاہتا ہے۔ یہاں فی الحال ڈاکٹر اور وکیل آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ ایک دوسرے کو سبق سکھانے کی باتیں ہیں، کرسی تک نہ دینے کے اعلان ہیں، ملک گیرہڑتالوں کے اشتہار ہیں، بار کا زعم ہے، ینگ ڈاکٹرز سے پالا ہے، کچہریوں پر تالہ ہے۔ پبلک پراپرٹی کا کروڑوں کا نقصان، جانی نقصان اوراخلاقی گراوٹ۔ کیا دکانوں اور مساجد کی طرح کچہری اور کلینک پر بھی سٹکرز لگنے کا وقت ہوا چاہتا ہے کہ یہاں ڈاکٹر کا داخلہ منع ہے اور وکیل پہلے کالا کوٹ اتارے پھر اس کا علاج ہوگا؟ یہ سفر کہیں رکنے کا ہے یا نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).