دل جو گلے پڑ گیا !


\"rizwan-asad-khan\"

جون ایلیا نے جب کہا تھا،

سینہ دہک رہا ہو تو کیا چُپ رہے کوئی
کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی

تو شاید اس کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہ ہو گی کہ ”گلا چھل جانا“ بذات خود ”سینے کے دہک جانے“ کا سبب بن سکتا ہے۔

چھوڑیں بچارے جون ایلیا کو؛ یہ اس کی نہیں میری کہانی ہے:

اماں کہتی ہیں کہ چین سے تو کبھی میں ان کے پیٹ میں بھی نہیں لیٹی تھی تو بعد میں کہاں نچلی بیٹھتی۔ آخری وقت تک میرا اس ظالم دنیا میں آنے کا کوئی موڈ نہیں تھا پر اماں نے زبردستی دھکیل دیا تو میں منہ بسور کے پڑ رہی۔ کہتے ہیں کہ دائی کو خوب پٹائی کر کے رلانا پڑا تھا۔

پر میں نے بھی سوچ لیا کہ بدلہ لوں گی اور سب کو تنگ کر کے رکھوں گی۔ اور پھر واقعی میں نے اپنا عہد سچ کر دکھایا !

میں پانچ سال کی تھی اور آٹھ بہن بھائیوں میں پانچویں نمبر پر جب پانچ ماہ کے اندر میرا گلا پانچویں بار خراب ہوا۔ املی، چٹنی، پاپڑ، گولے، گول گپے مرغوب غذائیں تھیں اور ”چھٹتی نہ تھیں منہ سے یہ کافر لگی ہوئیں“۔

لہٰذا پہلے تو ابا نے اپنے شاہی کھسے سے علاج کیا اور پھر گلی کے نکڑ پر حکیم صاحب کے پاس لے گئے۔ انہوں نے حسب معمول چند پڑیاں دیں اور ساتھ ہی فری میں دم بھی کر دیا۔ تیسرے دن بخار ٹوٹ گیا اور میں پھر سے دوڑنے بھاگنے لگی۔

گلا تو اکثر ہی خراب رہتا تھا پر یہ والا اس لئے یاد ہے کہ ٹھیک دو ہفتے بعد میرا دایاں گھٹنا سوج کر بالکل اس گول گپے جیسا ہو گیا جو میں نے پچھلے دن ہی چھپ کے کھایا تھا۔ اور ساتھ ہی اتنا شدید درد کہ کپڑا بھی ساتھ لگتا تو ٹیس سے چیخ نکل جاتی۔ بخار نے بھی پھر سے گھیر لیا حالانکہ اس بار تو گلا بھی ٹھیک تھا۔ درد اور بخار سے دل یوں دھڑک رہا تھا کہ گویا سینا پھاڑ کے باہر آ جائے گا۔ اس بار ابا محلے کے سیانے ڈسپنسر کے پاس لے گئے۔ اس نے دو ٹیکے لگائے، ڈھیر ساری دوائیں دیں اور تین چار دن آرام کا مشورہ دے کر چلتا کیا۔

اس بار میں ڈر گئی تھی اور خود ہی پرہیز بھی شروع کر دیا۔ گھٹنا تو شام تک ہی ٹھیک ہو گیا تھا پر ساتھ ہی بایاں ٹخنہ سوج گیا جو کہ اگلے دن ٹھیک ہوا، ایک ٹیکہ مزید ”ٹھکوانے“ کے بعد۔ پر دل کی اتھل پتھل دھڑکنیں تو کہیں ہفتے بعد جا کر سنبھلیں۔

ماہ و سال یونہی گزرتے رہے پر میں نے محسوس کیا کہ میں اپنی سہیلیوں جیسی نہیں رہی تھی۔ کمزور ہو گئی تھی، قد بھی کوئی خاص نہ نکلا حالانکہ اماں تو یہ اونچی لمبی تھی۔ پھر جب بھی سیڑھیاں چڑھتی یا تھوڑا سا بھاگتی تو سانس چڑھ جاتا اور سینے میں گھٹن سی ہوتی۔ خیر میں نے اپنا دل پڑھائی میں لگا لیا اور شرارتیں کرنا، سہیلیوں سے کھیلنا، بھاگنا دوڑنا بالکل چھوڑ دیا۔ عینک بھی لگ گئی اور گھر والے مجھے ”ماشٹرنی“ کہنے لگ گئے۔ جس دن میٹرک میں ٹاپ کیا، اسی دن اماں، ابا نے چاچے کے بیٹے سے منگنی کر دی۔ اور پھر آگے پڑھنے کی منتوں کے باوجود اگلے سال ہی بیاہ کر رخصت بھی کر دیا۔

میں نے بھی حالات سے سمجھوتہ کر لیا اور گھر میں ہی فارغ وقت میں ایف اے کی تیاری شروع کر دی۔ اس کے علاوہ شاعری اور ناولوں کا بھی بڑا شوق تھا۔ شرارتی ذہن نے تعلیم میں بھی کام دکھایا اور اگلے دو سال میں پرائیویٹ ایف اے بہترین نمبروں سے پاس کر لیا۔ خوشی خوشی گھر والوں کو بتایا تو چاچی کا تو الٹا منہ ہی بن گیا، ”ہونہہ، بچہ کوئی ہن تک جمیا نئیں، تے چلی اے ماشٹرانی بنن۔“

گود تو ہری نہ ہوتی پر ان طعنوں سے زخم ضرور ہرے ہو جاتے۔ پھر ایک دن صفائی کرتے سینے میں اچانک درد اٹھا اور میں گر کر بے ہوش ہو گئی۔ آنکھ کھلی تو ہسپتال کے بستر پر تھی۔ سامنے شوہر کھڑے مسکرا رہے تھے۔ پہلے تو میں جل ہی گئی کہ دیکھو میری بیماری پہ کیسے خوش ہو رہے ہیں پر قریب ہی کھڑی میری اماں نے مجھے گلے لگایا اور ”خوشخبری“ سنائی۔ خوشی سے میری آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔

ساتھ ہی بڑی ڈاکٹر صاحبہ آ گئیں اور سب کو باہر بھیج کر میرا حال چال پوچھا، پوری ہسٹری لی اور تفصیلی معائنہ شروع کیا۔ جب میری نبض دیکھی تو ان کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ پھر ”ٹوٹیاں“ لگا کر میری چھاتی پر جو رکھیں تو گویا اٹھانا ہی بھول گئیں۔ انہیں پریشان دیکھ کر میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگیں کہ ابھی ٹھہرو، میں تو گائناکالوجسٹ ہوں، تمہیں میڈیکل سپیشلسٹ دیکھ لیں پھر بتاتے ہیں۔ میں بھی پریشان ہو گئی کہ نجانے کیا معاملہ ہے۔ ”ڈاکٹر صاحبہ میرا بچہ تو ٹھیک ہے ناں۔“ میں نے دھڑکتے دل سے پوچھا، جو شاید کچھ زیادہ ہی دھڑک رہا تھا !

”ہاں ہاں، اس کا کوئی مسئلہ نہیں۔ آٹھ ہفتے کا حمل ہے، تمہیں پتہ کیوں نہ چلا؟“ ڈاکٹر صاحبہ نے ڈانٹا۔
”وہ، وہ۔ وہ پہلے بھی ماہواری کبھی روٹین سے نہیں آتی تھی، اسلئیے دھیان نہ دیا۔“ میں شرما کر بولی۔
ڈاکٹر صاحبہ نے اپنی فائل میں کچھ لکھا اور نرس سے کہا کہ ڈاکٹر زبیر کو بلوا لائے۔

کچھ ہی دیر بعد سفید کوٹ پہنے ایک لمبے چوڑے ڈاکٹر صاحب گلے میں سٹیتھوسکوپ (بڑی مشکل سے یاد کیا تھا یہ نام بعد میں) لٹکائے نرس کے ساتھ داخل ہوئے اور سلام کر کے میرا معائنہ شروع کر دیا۔ کبھی سیدھا لٹا کر، کبھی کروٹ کے بل، کبھی آگے جھکا کے، کبھی سانس رکوا کے اپنی ”ٹوٹیوں“ سے نجانے کیا ٹٹولتے رہے۔ پھر جب سوالات شروع کئیے تو لگا کہ وہ ڈاکٹر نہیں، نجومی ہیں:
”بچپن میں گلا کتنی بار خراب ہوا؟ اس کے پندرہ دن بعد کوئی جوڑ تو نہیں سوجا تھا؟ بخار بھی تھا؟ باقی جوڑوں میں درد تھا، دل کی دھڑکن تیز رہتی ہے؟ اور کیا دل زور سے دھڑکتا محسوس ہوتا ہے؟ سینے میں درد ہوتا ہے؟ سیڑھیاں چڑھنے یا بھاری کام سے سانس پھولتا ہے؟ کبھی ہسپتال دکھایا یا کوئی ٹیسٹ کروایا؟ نہیں؟ کیوں؟“

پوری تسلی کر کے انہوں نے میرے شوہر کو بھی اندر بلوا لیا اور بولا،

”دیکھیں مجھے افسوس ہے کہ یہ بری خبر مجھے آپ کو سنانا پڑ رہی ہے، حالانکہ اس بیماری کی تشخیص بچپن میں ہی ہو جانی چاہیئے تھی۔“
“ہیں جی؟ تو کیا یہ بچپن سے بیمار ہے؟“ میرے شوہر نے حیرت سے پوچھا۔

ڈاکٹر زبیر اپنی عینک کو ناک پر درست کرتے ہوئے بولے،
”جی ہاں۔“ اور پھر مجھ سے مخاطب ہوئے، ”بات یہ ہے کہ آپکے دل کے چار میں سے ایک والو خراب ہو چکا ہے۔ والو کا کام یہ ہوتا ہے کہ خون کے بہاؤ کو ایک سمت میں رکھے اور واپس نہ آنے دے۔ اس خراب والو کی وجہ سے دل میں خون کا دباؤ بہت بڑھ گیا ہے جسکی وقت پر تشخیص اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے دل پھیل چکا ہے۔ اب اگر دل کے ٹیسٹ ایکوکارڈیوگرافی پر یہ سب کچھ کنفرم ہو جاتا ہے تو اس کا حل صرف یہی ہے کہ آپریشن کے ذریعے اس والو کو بدل کر اس کی جگہ ایک مصنوعی والو لگا دیا جائے۔“

میں نے بے چینی سے پوچھا،
”ڈاکٹر صاحب، میں ایف اے پاس ہوں، مجھے تفصیل سے بتائیں کہ ایسا کیوں ہوا؟“

اس نے ایک گہرا سانس لیا اور بتایا،
”دیکھیں گلا خراب کرنے والے کچھ مخصوص جراثیم جنہیں ہم \’سٹریپٹو کاکَس\’ کہتے ہیں، ان کی بیرونی ساخت انسانی دل کے خلیوں اور جوڑوں کی جھلی کے خلیوں سے بہت ملتی جلتی ہے۔ جب وہ گلے پر حملہ کرتے ہیں تو جسم کا مدافعتی نظام ان کے خلاف اپنے خاص حفاظتی خلیے اور کیمیکل تیار کرتا ہے۔ اسے آپ جسم کی فوج سمجھ لیں جو حملہ آور دشمن کو گھیرنے کیلئے میدان میں اترتی ہے۔ پر ہوتا یہ ہے کہ کچھ فوجی دل یا جوڑ کے خلیوں کو مماثلت کی وجہ سے دشمن جراثیم سمجھ کر ان پہ حملہ کر دیتے ہیں۔ اور دل میں یہ خلیے چونکہ والو کے ارد گرد زیادہ ہوتے ہیں، لہٰذا وہ ان کا شکار بن جاتے ہیں اور والو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس بیماری کو ہم \’ریومیٹک فیور\’ کہتے ہیں۔ اور بعد میں جب والو مستقل خراب ہو جائے تو اسے \’ریومیٹک ہارٹ ڈزیز\’ کہا جاتا ہے، جو کہ آپکو ہے۔ جوڑوں میں البتہ، خوش قسمتی سے، مستقل بیماری نہیں ہوتی۔“

میں نے بی چینی سے پوچھا،
”ڈاکٹر صاحب آپ نے کہا تھا کہ اس سے بچاؤ ممکن ہے۔ وہ کیسے؟“

”بی بی، دراصل بچاؤ ہی اس کا اصل علاج ہے۔ بہت سے لوگ گلے کے انفیکشن کو معمولی سمجھتے ہیں اور کئی ڈاکٹر بھی تشخیص کے باوجود اینٹی بائیوٹک کا کورس پورے 10 دن کا نہیں کرواتے، تو انفیکشن کو مکمل کنٹرول نہ کرنا اور محض دبا دینا اس کی پہلی وجہ بنتا ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے تو خون کے ٹیسٹ سے پتہ چلایا جاتا ہے کہ انفیکشن اسی خطرناک جراثیم کی وجہ سے ہے یا کوئی اور جراثیم یا وائرس ہے۔ پھر یہ کہ اگر اس بات کا ایکوکارڈیوگرافی کے ذریعے پتہ چل جائے کہ دل میں سوزش ہو گئی ہے، یا جوڑ اس مخصوص طرز پر باری باری سوجنا شروع کر دیں جیسے آپکے ساتھ بچپن میں ہوا تھا تو \’پینسلین\’ کا ایک مدافعتی ٹیکہ ہر تیسرے ہفتے لگوا کر دل کے والو کی مستقل خرابی سے بچا جا سکتا ہے۔ پر بدقسمتی سے یہ سب نہ ہونے کی وجہ سے اس خطرناک بیماری کا تناسب ہمارے ملک میں خوفناک حد تک بڑھ چکا ہے !“

”کیا اس کا اثر میرے حمل پر بھی ہو گا؟“
میں نے تشویش سے پوچھا۔
اس بار لیڈی ڈاکٹر، جو اب تک اندر آ چکی تھی، بولیں،
”ہمیں بہت احتیاط کرنی پڑے گی اور تمہیں باقاعدگی سے دوا لینی ہو گی۔ کچھ دن ہم تمہیں داخل رکھیں گے اور اس کے بعد بھی باقاعدہ چیک اپ ہوں گے۔“

میں نے پوری دل جمعی سے علاج شروع کر دیا اور باقاعدگی سے، جب بھی ڈاکٹر صاحبہ بلاتیں، انہیں چیک کروانے چلی جاتی۔ اکثر وہ ڈاکٹر زبیر کو بھی ریفر کرتیں۔

اور پھر یوں ہوا کہ ایک روز میں جیسے ہی غسل خانے سے نہا کر نکلی تو زمین پر کچھ گیلا پن محسوس ہوا۔ نیچے دیکھا تو میری چیخ نکل گئی۔
خون ہی خون۔
میرا خون؟
نہیں، میرے بچے کا خون؟
نہیں، میرے ارمانوں کا خون !

”ڈی این سی“ کے بعد سسرال والوں نے دھوکہ دہی کا الزام لگا کر ہسپتال سے ہی سیدھا میکے بھجوا دیا جہاں پر اب ایک بیمار والو والے خونیں دل کے ساتھ یہ ڈائری لکھ رہی ہوں۔
جی ہاں وہی دل جو گلے ہی پڑ گیا ہے !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments