یونین ٹیرٹری سرینگرسے یونین کونسل مظفر آباد تک؟


ریاست جمو ں وکشمیر کی متنازعہ حثیت کے ختم ہونے بعد ہم نے خوب واویلا کیا، اور جھوٹے سچے منہ کشمیر کی متنازعہ حثیت کی بحالی کے لیے خاطر خواہ اقدامات اٹھانے کی بھی قسمیں کھایں۔ 5 اگست کے بعد پہلے پہل تو کمال سفارتکاری اور لازوال ڈپلومیسی کے ذریعے سے ہم عالمی دنیا کے سامنے کشمیر کا مسئلہ اٹھانے پر شادیانے بجاتے رہے۔ اسی سب کے کرنے میں 31 اکتوبر ہو گیا اور بھارتی مقبوضہ کشمیر کو بھارت کی یونین ٹیرٹری کا حصہ بننے کا قانونی جواز بھی مل گیا۔ اس کے بعد توانائیاں اور ترجیحات میں وہ گرمی نہیں رہی جو پہلے تھی اور امیدیں بھی ختم ہونے لگیں۔ اس سب کے بعد ہمارے یہاں موجود آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا معامکہ باقی رہا جس کی آئینی و قانونی صورتحال سے نبردآزما ہونے کے لیے وفاق میں موجود بڑوں نے سر جوڑ لیے ہیں۔

خبر یہ ہے کہ وفاقی حکومت ملک بھر میں موجود حکومتی جائیدادوں کو فروخت کرنے کا ارادہ کر چکی ہے، اس بیچ وہ جائیدادیں بھی شامل ہیں جو کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا حصہ رہی ہیں یعنی کشمیر کے مہاراجہ نے برطانوی دور حکومت میں ان علاقوں میں خریدیں تھیں جو اس وقت پاکستان کا حصہ ہیں۔ اسی سب رونے پر سونے پر سہاگے کا کام ایک ایسے نوٹیفیکشن نے کیا جو مظفر آباد سے جاری ہوا اس نوٹیفیکیشن کے تحت آزاد کشمیر حکومت اور ذیلی محکمہ جات میں تعیناتیوں اور تقرریوں کے لیے سر کردہ اکردار ادا کرنے والے آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر سروسسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کا نام تبدیل کر دیا گیا اور اس کے نا م سے آزاد حکومت نکال کر اسے جموں و کشمیر ایڈمنسٹریشن سروسسز تک محدود کر دیا گیا ہے۔

اس عمل سے شکوک و شبہات نے مزید جنم لیا دراصل اس سے بھی قبل اسلام آباد سے نشر ہونے والے ایک ٹی وی پروگرام میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی آتئینی حثیت کو تبدیلی کیے جانے پر ایک صحافی نے کسی سابق جنرل سے رائے لی جس کے بعد عوامی حلقوں میں یہ بحث زور پکڑنے لگی کہ آخرکار آزاد کشمیر کی آئینی حثیت کے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے؟

کشمیریوں میں مقبوضۃ کشمیر کی متنازعہ حثیت کے ختم ہونے بعد کچھ مزاحمت یہاں آزاد کشمیر سے اٹھی ضرور تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ ٹھنڈی پڑ چکی ہے۔ ایسے میں اب آزاد کشمیر کی متنازعہ حثیت بھی خطرے میں ہے۔ بعض کے خیال میں اب اس کا متنازعہ اور غیر متنازعہ رہنا ایک سا ہے، کچھ دوسروں کا خیال ہے کہ گلگت بلتستان کا پاکستان میں ضم ہونا بنتا ہے مگر آزاد کشمیر واحد وہ علاقہ ہے جس کو سامنے رکھ کر ہم دنیا کے سامنے مقبوضہ کشمیر کا نوحہ کر سکتے ہیں۔

لیکن ایسا لگ نہیں رہا، آزاد کشمیر میں بسنے والے منقسم ریاست کشمیر کے باشندوں کے دکھ پر مرہم تو نہ ہو سکا اور اس کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات کی بھی کوئی امید نہیں ہے۔ ہاں البتہ ان دکھیاروں کی مستقل دوا کا انتظام کیا جا رہا ہے، نیلم کے دریا کے آر پار جو مسافتیں چند نظروں میں طے ہو جاتی ہیں وہ مسافتیں اب ویسے ہی وہیں گی۔ کبھی جو کسی نیلم کے باسی نے ٹیٹوال کے پل کو اپنے پاوں سے روند کر اس پار آزادانہ جانے کے خواب دیکھے تھے وہ اب پورے ہوتے بھی نظر نہیں آ رہے ہیں۔

اس سب پر اب اواویلا یہ ہے کہ مملکت خداداد میں موجودہ آزاد کشمیر کس نمونے کے تحت ضم ہو گا۔ بعض سیٹیاں بجانے والوں کا کہنا ہے کہ ہم صوبہ بنیں گے وہ یہ نہیں جانتے کہ چالیس لاکھ پر صوبہ نہیں بنا کرتا۔ کچھ لوگوں کی خواہش ہے کہ اگر تقسیم ہو تو وفاق پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ہمیں بھی نمائیندگی مل جائے گی اچھا ہو جائے گا۔ یہ سبھی لوگ اس بات سے بے خبر ہیں کہ انتظامی معاملات کی انجام دہی سمیت اداروں کو چلائے جانے کے لیے اس طرح کا سیٹ اپ تصادم کا شکار ہو جائے گا۔ اول تو یہ وفاق میں ضم ہونے والے بات پر کشمیری رضا مند نہیں ہو سکتے ریاستی و غیر ریاستی جماعتوں کے اراکین خوب واویلا کریں گے۔ لیکن ان کی حثیت کو سمجھنے کے لیے یہ کافی ہے کہ شملہ و تاشقند میں ان کو کہاں شامل رکھا گیا۔

اس سارے رونے کے بعد بس یہ عرض ہے کہ خیرخواہ اگر واقعی میں مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھنا چاہتے تو ایسے میں انہیں آزاد کشمیر کی آئینی صورتحال سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرنا چائیے۔ اس سے نہ صرف ایک خطہ میں تصادم جنم لے گا بلکہ آپ دنیا کے بھی مجرم ہو جائیں گے آ پ پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہیں۔ آپ اقوام متحدہ کی پہلی قرارداد کے آگے بے بس ہیں بھارت نے تو کشمیر کی متنازعہ حثیت تبدیل کر کے آپ کو بھی ایسا ہی کرنے کی ترغیب دے دی۔

مگر اگر آپ بھی ویسا ہی کریں گے تو پھر کیا رہ جائے گا جس پر مسقبل میں فخر کیا جا سکے، یا کم از کم کچھ نہ کرنے کی سکت رکھنے پر اپنی بے بسی کا نوحہ کیا جائے گا۔ یہ جان لیجیے کہ سرینگر یونین ٹیرٹری بن چکا لیکن وہاں اس جابر حکومت کے خلاف اک مزاحمت بہرحال ہے لیکن مظفر آباد جب ضلع ہزارہ کی تحصیل بنے گا تو یہاں سے آمین ہی کیا جائے گا آپ کو مزاحمت برداشت نہیں کرنا پڑے گی، چونکہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے آپ کے شملہ معائدے پر بھی خاص رد عمل نہیں دیا تھا، بہرحال مظفر آباد کو یونین کونسل بنانے سے باز رہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).