کیا ”گلے ملنا“ قانون سے زیادہ طاقتور ہے؟


اس حالیہ تصادم نے جہاں ہمارے معاشرتی اور اخلاقی زوال کی ایک دفعہ پھر توثیق کی ہے۔ وہاں ہمارے شیرشاہ سوری ثانی بزدار صاحب کی کارگردگی کا پول بھی کھول کر رکھ دیا ہے۔ نظام حکومت سے ان کی ”سردردی“ بس دوسروں کے احکامات پر دستخط کرنے تک ہی محدود ہے۔ اگر تھوڑی سی مہلت مل بھی جائے تو باقی کی صلاحیتیں اپنے حلقہ احباب کے تقرر و تبدلوں پر صرف کرتے ہیں۔ جانے کیوں پہلے صرف گمان ہوتا ہے کہ پنجاب حکومت ایک ناکام و ناتجربہ کار حکومت ہے پر فیاض الحسن جیسے رتنوں کی پریس کانفرسوں کے بعد توگمان بھی یقین میں تبدیل میں ہوجاتا ہے کہ اس حکومت کے بس میں تو کچھ بھی نہیں۔

اگر حکومت سمجھتی ہے کہ وکلا کے خلاف کی جانے والی ہلکی پھلکی گرفتاریوں سے مستقبل کے جتھوں کو قانون کی پٹی پڑھا سکیں گے تو ان کی نیت کا اندازا دو روز سے پولیس اور خان صاحب کے وکیل بھانجے کے درمیان کھیلے جانے والے بلی چوہے کے کھیل سے ہی پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ پر خوش آٰیند یہ ہے کہ اس لاقانونیت پر اعتراز احسن جیسی کم آوازیں ہی سہی پر کچھ آوازیں اٹھی ضرور ہیں۔ ورنہ رضا ربانی، علی احمد کرد، حامد خان اور لطیف کھوسہ جیسے سرکردہ رہنما کا زیادہ زور ”جیسٹیفیکیشن“ کی تلاش پرہی رہا ہے۔

بار تو اپنے وکیل بھائیوں کے پیچھے بغیر پیشمانی و ندامت کے ثابت قدمی سے کھڑے ہیں اور جہاں جہاں موقع مل رہا ہے وہاں جنگ و جدل کی بھڑکی لگانے سے بھی گریز نہیں کررہے ہیں۔ پر بینچ کا لہجہ ابھی تک تو کافی سخت ہے اور چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے غم و غصے کا اظہار بھی کیا ہے پر شاید کچھ دنوں تک لاہور ہائی کورٹ کے جج مظاہر علی نقوی کے اس مشورے کو مان لیا جائے کہ وکلا ڈاکڑوں سے گلے مل کر معاملہ ختم کر دیں۔ جانی نقصان تو عوام کا ہوا ہے، ہو رہا ہے اور آگے بھی ہوتا رہے گا۔ مالی نقصان کا ازالہ حکومت کو کرنا ہے جس کو وہ بخوشی کرنے میں راضی ہیں۔ اللہ اللہ خیر سلا۔

پر پھر بھی نا جانے کیوں اس ساری دھینگا مشتی میں مجھے ہمارے معزز چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کچھ ہفتوں قبل کیا جانے والا تاریخی خطاب یاد آتا ہے جس میں انہوں نے انداز دہل فرمایا تھا کہ طاقتوروں کا طعنہ ہمیں مت دیا جائے، ہمارے سامنے طاقتور صرف قانون ہے۔ شاید اب وقت آگیا ہے کہ معزز چیف جسٹس ثابت کریں کہ قانون کے پلے ابھی بھی اتنا کچھ ہے کہ ایسا معاملہ جہاں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہو، کروڑوں کی املاک کا نقصان ہوا ہو وہاں قانون، گلے لگ کر معاملہ ختم کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ بصورت دیگر انہیں ان عوام کی آنکھوں کا علاج کا حکم صادر کرنا پڑے گا جو دیکھتے ہیں کہ طاقتور قانون نہیں صرف ”قانوندان“ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).