ڈاکٹر خالد سہیل کی کتاب سچ اپنا اپنا (دوسرا اور آخری حصہ)۔


ڈاکٹر خالد سہیل (عورتوں سے رشتے ) والے باب میں ایک معصوم تعلق جوکہ زمانے کی تما م کدورتوں، قباحتوں اور برائے نام سماجی اصول و ضوابط سے بے نیاز ہوتاہے۔ بچپن کی ابتدائی عمر والے تعلقات اور رشتے جو بچے اپنے ہم جولیوں کے ساتھ بناتے ہیں ان رشتوں میں بہت ساری معصومیت، تعلق اور پیار کا ایک الگ ہی انداز پنہاں ہوتاہے۔ ڈاکٹر سہیل اس باب میں اپنی زندگی کے اس موڑپر حاصل ہونے والے ایک خوبصورت رشتے سے متعارف کرواتے ہیں جو اس کی عظیم یادوں میں سے ایک حسیں یاد ہے اور وہ یاد ان کی ابتدائی دوست اور پہلی سہیلی ”سودہ“ کے بارے میں ہے۔ ڈاکٹر سہیل اس حسیں رشتے کے بارے میں یو ں لکھتے ہیں

”ہم مل کر اپنی گلی میں گھومتے اور کھیلتے تھے، مسکراتے تھے، قہقہے لگاتے تھے۔ اب میں بچپن کے بارے میں سوچتا ہوں تو احساس ہوتاہے کہ وہ پہلی غیر لڑکی تھی جس نے میرا اپنائیت اور چاہت سے تعارف کروایا تھا۔ ایسی چاہت جس میں معصومیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی“

اگلا باب جس کا عنوان ہے (محبت کا پہلا خط) اس باب میں ڈاکٹر صاحب اپنے میڈیکل کالج کا احوال لکھتے ہیں۔ یہ عمر کا وہ حصہ ہوتا ہے کہ جس میں ہر چمکنے والی چیز سونا محسوس ہوتی ہے۔ زندگی کے اس پڑاؤپر طلبا ء وطالبات ایک دوسرے کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں متاثر کرنے کی کوئی بھی صورت ہو سکتی ہے مثلاً کلاس میں زیادہ سے زیادہ مارکس لینے کی خواہش، بیت بازی یا تقاریر وغیرہ میں حصہ لینا شامل ہیں۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ یہ ایک فطر ی عمل ہوتا ہے مگر ہمارے اس بند سماج میں لڑکوں اور لڑکیوں کے رشتوں کے درمیان ایک اجنبیت کی دیوار قائم کرکے ان کی تعلیمی ذہنی نشوونما کی جاتی ہے اور اس تعلق کو معیوب بنا کر معاشرے میں پیش کیا جاتاہے۔ ڈاکٹر صاحب اس باب میں اپنے پہلے محبت نامہ سے متعارف کرواتے ہیں۔ مشرقی روایات کی ماری ہوئی ایک لڑکی ڈاکٹر سہیل کو محبت نامہ لکھتی ہے مگر اپنے نام کو ظاہر کیے بغیر۔ ڈاکٹر سہیل اس خط کے بارے میں یوں لکھتے ہیں

”میں نے وہ خط ایک بار پڑھا، دوبار پڑھا، پھر تیسری بار پڑھا۔ اس لڑکی نے لکھا تھا کہ وہ میری شاعری اور شخصیت سے بہت متاثر ہے اور مجھ سے دوستی کرنا چاہتی ہے لیکن۔ مشرقی حیاء آڑے آئی ہے۔ اس لیے اس نے خط کے آخر میں اپنا نام بھی نہیں لکھا تھا۔ وہ بس مجھے بتانا چاہتی تھی کہ وہ میرے بارے میں سوچتی رہتی تھی“

یہ باب مشرقی روایات پر چوٹ کرتا ہے کہ یہاں کھلم کھلا نفرت توکی جاسکتی ہے مگر ایک لڑکے اور لڑکی کے کھلم کھلا پیار کے اظہار سے ہماری مشرقی روایات پامال ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اگلے باب میں ڈاکٹر صاحب ہمارا تعارف اپنی بہت ہی پیاری سہیلی (بے ٹی ڈیوس) سے کرواتے ہیں۔ بے ٹی جوکہ ان کی ایک بہترین دوست، رفیق کار اور محبوبہ بھی ہے۔ ایک بہترین تعلق میں ایک ساتھ اتنی خوبیوں کا جمع ہوجانا کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا۔ بے ٹی جس کا تعلق بھی نفسیات کے شعبے سے ہے اور دماغی پر اسراریت کو جاننے کے دونوں ہی رسیاہیں ڈاکٹرسہیل بے ٹی کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات کے تاثر کو کچھ یوں دیکھتے ہیں

”پہلی ملاقات میں ہی بے ٹی ڈیوس کی خوش مزاجی اس کے اخلاص، اس کی ذہانت، اس کی خوبصورتی اور اس کی اپنائیت نے میرا دل جیت لیا تھا“

ڈاکٹر صاحب اس مثالی تعلق کو فطرتی تنا طر سے دیکھتے ہیں اور عورت مرد کے اپنائیت اور انسیت والے رشتے کو حقیقی انداز میں سمجھنے اور سمجھانے کی سعی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سہیل بے ٹی کو پیار سے چم چم کہتے ہیں اور اسی مثالی تعلق کی بدولت دونوں نے مل کر کچھ ادبی کتابیں بھی لکھیں جو کہ ان کا انسانیت کے لیے ایک تحفہ ہیں۔ اگلے ابواب میں ڈاکٹر سہیل اپنے پیارے چچا عارف عبدالمنین سے ملواتے ہیں۔ ان کے ابتدائی ادبی سفر کے حوالہ سے جوکہ بائیں بازو کے دانشوروں کے زیر اثر پروان چڑ ہا جوکہ بہت ہی فعال اور سرگرم قسم کا سفر تھا اور اس کے بعد ان کی زندگی میں ایک بحران پیدا ہوا اس بحران کو ڈاکٹر سہیل کچھ یوں لکھتے ہیں

”اس کے بعد وہ کسی شناخت کے بحران کا شکار ہوگئے۔ وہ اپنی تلاش میں زیر زمین چلے گئے۔ اپنے قلب کے نہاں خانوں میں کھو گئے، اپنی روح کی گہرائیوں میں ڈوب گئے۔ اس عرصے میں نجانے کتنے سورج غروب ہوگئے، کتنے چاند گہناگئے، کتنے موسم سرما گرما بدل گئے، کتنے موسم بہار موسم خزاں میں ڈھل گئے۔ انہوں نے نجانے کتنی راتیں جاگتے گزاردیں“

شناخت کا یہ سفر بھی کتنا بھیا نک ہوتا ہے۔ خاص طور پر ایسے معاشروں میں جہاں چوائس اور فکری رنگارنگی کا بحران ہوتا ہے۔ جہاں صرف کچھ روایتی باتوں اور ایک ہی طرح کے ضابطہ حیات کی پیروی کرنے پہ مجبور کیا جاتا ہے۔ روایتی طور پر جبری معاشروں میں کسی بڑے اعلیٰ دماغ کا نروس بریک ڈاون ہونا کوئی اچنیے کی بات نہیں ہوتی بلکہ یہ روایتی معاشرے کا لازمہ ہوتے ہیں اسی لیے عارف عبدالمئین جیسا دماغ بھی اس شناختی بحران سے خلاصی نہ پاسکا۔ غریبوں اور مزدوروں کے بارے میں پریشان رہنے والا دماغ، فر سودہ روایات کو

تنقیدی نگاہ سے دیکھنے والا دماغ اور جابروں اور ظالموں کوللکارنے والا یہ دماغ جب اپنی ذات کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب کرنئی شناخت کا کنول لے کر ابھرا تو انہوں نے اسلام کا سنجیدگی سے مطالعہ کرنا شروع کردیا اور ایم اے اسلامیات کی ڈگری حاصل کی اور نعتیہ کلام لکھنے کی طرف راغب ہو گئے۔ ڈاکٹر سہیل لکھتے ہیں کہ جب میں نے شہناز عارف سے پوچھا

”چچا جان ایک زمانے میں صحت منداور چست ہو اکرتے تھے لیکن پھر آہستہ آہستہ کمزور ہوتے گئے اس کی کیا وجہ تھی؟ تو وہ کہنے لگیں انہیں اس حالت تک پہنچانے والا کوئی ذہنی صدمہ تھا“

ڈاکٹر صاحب اس باب میں انسانی زندگی کے مدو جزرکو بغیر کسی پراسراریت کے واضح طور بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ باب انسانی شخصیت کی حساسیت اور معاشرتی دباؤ کے دماغ پر پڑنے والے اثرات کو واضح کرتا ہے ڈاکٹر سہیل اپنے چچا عارف عبدالمئین کی شناختی بحران سے نکلنے کے بعد والی گفتگو کو اس انداز میں پیش کرتے ہیں

”میں اس نتیجے پرپہنچاہوں کہ مذہب چیزوں کی حقیقت کو وجدانی سطح پر، سائنس سچائی کو ادراک کی سطح پر اور آرٹ اس حقیقت کو جمالیا تی سطح پر سمجھنے کا نام ہے“

اگلے باب میں ڈاکٹر سہیل ہمیں کشور ناہیدسے متعارف کرواتے ہیں۔ کشور ناہید ان کی نظر میں ایک جر ئات کا استعارہ ہیں۔ کشور اپنے خیالات کا اظہار دبنگ انداز میں کرتی ہے۔ ڈاکٹر سہیل کشور سے ایک

ملاقات اور اپنے ایک پوچھے جانے والے سوال کا تذکر ہ کرتے ہیں ایک بار انہوں نے کشور سے پوچھا کہ عورتوں کی آزادی کا آپ کا کیا تصور ہے ”اگر آپ پاکستان کی عورتوں سے ملیں تو ان میں سے بہت سی سمجھتی ہیں کہ اگر آپ نے انگریزی زبان سیکھ لی، سکرٹ پہن لی اور تعلیم حاصل کرکے ملازمت کرلی تو آپ آزاد ہوگئیں۔ میرے نزدیک یہ سطحی آزادی ہے۔ اصل آزادی ذہنی آزادی ہے جب تک عورتیں یہ سوال نہ پوچھیں گی کہ اگر مرد اور عورتیں برابر ہیں تو عورتیں پیغمبر بن کر کیوں نہیں آئیں ہم ذہنی طور پر آزاد نہیں ہوں گی“

اس طرح کے دبنگ جواب کی توقع صرف کشورناہید سے ہی کی جاسکتی ہے۔ ایک دفعہ کشور نے شہر کے بڑے بڑے مولویوں کو دعوت دی۔ انہیں سٹیج پر بٹھایا ان کے سامنے قرآن اور کئی علماء کی تفاسیر رکھیں۔ سینکڑوں عورتوں کی موجودگی میں کشور نے علما ء سے عورتوں کے سامنے بہت سے سوال پوچھے۔ سوال کچھ اس طرح کے تھے ”قرآن میں کہاں لکھا ہے کہ جنت میں حوانے آدم کو ورغلایا اور گناہ کی ترغیب دی“ مولوی قرآن سے یہ بات ثابت نہیں کرسکے۔

اس طرح کی نشست منعقدکرکے کشور نے اپنے معاشرے کی عورتوں کی حوصلہ افزائی کی۔ اگلے کئی ابواب میں ڈاکٹر سہیل لاہور پاک ٹی ہاؤس میں گزرے کچھ نایاب ادبی لمحوں اور کچھ ادبی دوستوں کے ساتھ ادبی گفتگوکا تذکرہ کرتے ہیں۔ جس میں سرفہرست زاہد ڈار، جاوید شاہین، گوگی اور اصغر ندیم ہیں۔ یہ کتاب ادب سے لگاؤ رکھنے والی ادبی شخصیات کے ساتھ بھرپور مکالماتی جملوں پر مشتمل ہے مثلا ڈاکٹر سہیل زاہد ڈار کے کچھ جملوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ زاہد ڈار نے ٹی ہاؤس کے باہر ایک گھنے درخت کے پتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا

”اس شہر کے پتوں پر ہی نہیں، یوں لگتا ہے چہروں، کپڑوں اور ذہنوں پر بھی گرد جم چکی ہے اور نئے ولولوں نئے جذبوں اور نئے خوابوں کی بارش کی راہ تک رہی ہے انسانوں کے چہرے دھل جائیں تو ان پر نکھار آجاتا ہے اور ذہن دھل جائیں تو تازہ افکار کی خوشبو چاروں طرف پھیل جاتی ہے“

اگلے باب میں ڈاکٹر سہیل ہماری ملاقات منیر نیازی سے کرواتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اس ادبی لیجنڈسے ملاقات کو کچھ اس انداز میں بیان کرتے ہیں

”منیر نیازی نے بڑی محبت سے مجھے گلے لگالیا اور میں نے زندگی میں پہلی دفعہ اردو اور پنجابی شاعری کے ِلونگ لے جنڈ کو اتنے قریب سے دیکھا۔ ان کی آنکھیں سوجی ہوئی بال بکھرے ہوئے، کپڑے میلے اور ہاتھ میں شراب کی بوتل تھی۔ صاف ظاہرتھا کہ باطن کے زلزلوں کے اثرات ظاہر تک آگئے تھے“

ڈاکٹر صاحب چونکہ دل اور دماغ کی کمیسٹری سے بخوبی آگاہ ہیں۔ انہوں نے ان چند جملوں میں منیر نیازی کے ساتھ اس تعارفی ملاقات کو چند ایک جملوں میں پر ودیا۔ دوران گفتگو منیر نیازی کشور ناہید کے حوالہ سے کچھ یوں کہتے ہیں

”یہ کشور ناہید بڑے دھڑلے والی عورت ہے۔ کئی مردوں سے زیادہ دلیر اور زوردار۔ میں اپنی بیوی کو اس سے پردہ کرواتا ہوں“

اگلے باب میں ڈاکٹر سہیل جنیون آرٹسٹ گوگی سراج پال سے ملواتے ہیں یہ ایک ایسی عظیم عورت ہے جو اپنے تخیل کی اندرونی تہوں میں چھپے ہوئے رازوں کو پینٹنگ کی صورت میں نمایاں اور واضح کرنا جانتی ہے۔ ڈاکٹر سہیل کے ساتھ ملاقات کے دوران گوگی نے ایک پینٹنگ دکھائی اس تصویر میں ایک میزتھا اس کی ایک طرف کچھ مر د اور دوسری طرف کچھ عورتیں محو گفتگو تھے اور میز پر ایک عورت لیٹی ہوئی تھی

اس پینٹنگ کے حوالہ سے گوگی کچھ اس طرح بتاتی ہے

”کہ جب مرد اور عورتیں عورتوں کے مسائل پر گفتگوکرتے ہیں تو وہ بہت سطحی باتیں کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں ہندوستان میں ستی کے بارے میں بہت گفتگو ہوئی وہی لوگ جو محفلوں میں ہمدردی جتاتے تھے اگران کی ذاتی زندگی میں جھانک کر دیکھیں تو ہمدردی اور عزت کا نام ونشان نہیں ملتا۔ اس کے علاوہ عورتیں بھی اپنے اعمال کی پوری ذمہ داری نہیں لیتی میر ے نزدیک عورتیں بھی اپنی مرضی سے جلتی ہیں چاہے وہ ستّی میں ہوں یا زندگی بھر گھر کی چار دیواری میں۔ مجھے لگتا ہے کہ عورتوں کے مسائل بس ٹیبل ٹاک بن کر رہ گئے ہیں اور یہی وہ خیال ہے جس نے مجھے ایسی پنٹینگ بنانے پر اُکسایا تھا“

ڈاکٹر سہیل اگلے باب میں ہماری ملاقات جون ایلیا کے شاگرد خاص جنہوں نے جون ایلیا کی شاگردی، چاہت اور دوستی کا حق ادا کیا عرفان ستار سے کرواتے ہیں۔ عرفان ستار ایک ایسا صاحب کرامت شاعر ہے جووصل کی چاشنی سے بھی آگاہ ہے اور عاد ت بننے کے تجربے سے بھی آگاہ ہے۔ وہ اس تکلیف دہ حقیقت سے نجوبی آگاہ ہے کہ جب کوئی تخلیقی یا روحانی کام باربار کیا جائے تو وہ ایک روٹین اور معمول بن جاتا ہے اوراس میں چاشنی ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اس کیفیت کو وہ کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں

مجھے تمہاری تمہیں میری ہم نشینی کی

بس ایک طرح کی عاد ت سی ہے نباہ کیسا

عرفان ستار آگے چل کر اس عاد ت اور بوریت کو کچھ اس رنگ سے بیاں کرتے ہیں

یہاں تکرار ساعت کے سوا کیا رہ گیا ہے

مسلسل ایک حالت کے سواکیا رہ گیاہے

بہت ممکن ہے کچھ دن میں ہم اسے ترک کردیں

تمہارا قرب عاد ت کے سوا کیارہ گیا ہے

اگلے باب میں ڈاکٹر سہیل اشفاق حسین سے اپنی دوستی کا تذکر ہ کرتے ہیں اوراس دوستی کے اتار چڑھاؤبڑے واضح انداز میں بیان کرتے ہیں۔ مزید اس شاہکار کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے آپ کے سامنے ڈاکٹر سہیل اور ظہیر انور کے درمیان خطوط کی صورت میں تبادلہ خیال کا ایک بالکل ہی الگ انداز سامنے آئے گا۔ یہ خطوط ایک ادبی فن پارہ ہیں جس میں دو ادیب دوست ایسے گفتگو کرتے ہیں جیسے وہ صدیوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔ کتاب کے اگلے حصے میں ڈاکٹر سہیل ایک اینگری ینگ مین اور کتاب (پاپ بیتی) کے مصنف ساقی فاروقی سے کرواتے ہیں۔ پاپ بیتی کے حوالہ سے ڈاکٹر سہیل اپنے تاثرات کا کچھ اس طرح سے اظہار کرتے ہیں

”وہ اردو الفاظ کے ساتھ ہم بستری کرتاہے اور اعلیٰ اد ب تخلیق کرتاہے اس نے اپنی پاپ بیتی میں اردو زبان کا تخلیقی استعمال کیا ہے اور اردو ادب کونئے الفاظ اور جملے تحفے کے طور پر

دیے ہیں ”

اس کے بعد ساقی کے بے باک پن کا اندازہ آپ اس شعر سے لگاسکتے ہیں

اسی نے چہرے کو تنویر میرے بخشی ہے

اسی نے چاند میر ی روح میں اتارا ہے

میں اعتماد کا پیکر بنا تو جان گیا

مرے گناہ نے کتنا مجھے سنوارا ہے

اس کتاب کے اختتامی ابواب بڑی دلچسپی کے حامل ہیں۔ یہ ایک ماڈرن درویش یعنی ڈاکٹر سہیل کے سفر ناموں کی روئیدادہے۔ یہ درویش ان سفر ناموں میں کبھی ترکی کی یاتراکرتے ہوئے پایا جاتا ہے تو کبھی یونا ن میں ایتھنز کی دیوی سے مکالمہ کرتے ہوئے پایا جاتا ہے۔ کبھی یوگو سلاویہ میں گھومتا ہوا پایا جاتا ہے تو کبھی اسرائیل اور مسجد اقصیٰ کے قر یب پایا جاتا ہے

اس درویش کی نظر میں اسرائیل جو ایک ملک نہیں بلکہ مشرق وسطٰی کے تضادات کی معراج بھی ہے۔ اس تضاد کو وہ تین سپاہیوں کے روپ میں دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سہیل لکھتے ہیں کہ شہر یروشلم کے تین کونوں میں بیک وقت تین سپاہی بندوقوں سے لیس عباد ت میں مصروف تھے۔ یہودی سپاہی: ”اے موسیٰ کے خدا! میں تیرا شکر گزار ہوں کہ یہو دی پیدا ہوا۔ میر ی زند گی کا مقصد تیر ے فرمان پر عمل کرنا اور تیرے کلام کا بول بالا کرنا ہے۔ اے خدا تو مجھے اتنی ہمت دے کہ میں عیسائی اور مسلمان سپاہیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کروں اور ان کے سر قلم کردوں۔ یہ شہر پانچ ہزار سالوں کی میراث ہے“

عیسائی سپاہی: ”اے عیسیٰ کے خدا! میں تیرا ممنون ہوں کہ تونے ہمیں اپنا بیٹا دے کر نوازا۔ ہم اس پر ایمان لا کر اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرتے ہیں۔ اے خدا مجھے اتنا حوصلہ دے کہ میں یہودی اور مسلمان سپاہیوں کوموت کے گھاٹ اتاردوں“

مسلمان سپاہی: ”اے محمد کے خدا! میں کتنا خوش قسمت ہوں کہ امت محمدیہ میں پید ا ہو ا۔ میرے لئے یہ باعث فخر ہے کہ میں اس جگہ رہتا ہوں جہاں حضر ت محمد شبِ معراج میں تجھ سے ملنے گئے تھے۔ اے خدا مجھے اتنی طاقت دے کہ میں یہود ی اور عیسائی سپاہیوں کو یہاں سے ماربھگاؤں اور نیست ونابود کردوں“

ان تضادات کو ڈاکٹر سہیل مزید واضح انداز میں ایک نظم کی صورت میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں

ابراہیم کا شہر کہ جس کی

بنیادوں کا محکم کرنے

امن نے مٹی، عشق نے گارا

قربانی نے پتھر ڈالے

ابراہیم کا شہر کہ جس کی

دیواروں کو اونچا کرنے

موسٰی، ٰ عیسیٰ اور محمد

اپنی اپنی امت لائے

ابراہیم کا شہر کے جس کے

میناروں کا حسن بڑھانے

فنکاروں نے برسوں مل کر

کیسے کیسے نقش بنائے

آج جو میں اس شہر سے گزرا

ایک عجب ہی منظر دیکھا

بنیادوں کو خون اگلتے

دیواروں کو گریہ کرتے

میناروں کو آہیں بھرتے

ہمسایو ں کو لڑتے دیکھا

انسان کو مرتے دیکھا

درد کی ایک گہری لہر کو ڈاکٹر سہیل نے ان چند لائینوں میں سمودیا۔ یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ کتاب سچ کی تفسیر ہے۔ ڈاکٹر خالد سہیل نے اپنے حصے کے سچ کو بغیر کسی پراسراریت کا جالا بنے، جوانہوں نے سمجھا، جانا اور محسوس کیا بالکل اسی طرح پیش کردیا۔ اس کتاب میں ایسے سچ بھی موجو د ہیں جنھیں ہضم کرنا شاید ہمارے مشرقی معاشرے کے لئے آسان نہ ہو کیونکہ ہمارے معاشرے میں انسان کویا توبھگوان بنا کے پیش کیا جاتا ہے یا شیطان۔ انتہاؤں کو چھوتے اس بے ترتیب معاشرے میں انسان کو انسان کے طور پر سمجھا اور جانا نہیں جاتا۔ اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ پڑھنے والے کو ذہنی دیانتداری برتنے پر اُکساتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).