خان صاحب سندھ کے عوامی مینڈیٹ کی توہین نہ کریں


جولائی کے انتخابات کے نتیجے میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد عمران خان جیسے ہی وزیراعظم بنے تو جہاں وہ آہستہ آہستہ کرکے اپنے دعوؤں اور وعدوں کی نفی کرتے گئے وہیں ملک کے دو چھوٹے صوبوں کے متعلق ان کی ترجیحات بھی تبدیل ہوتی گئیں۔ بلوچستان میں وہ اتحادی حکومت بنانے میں کامیاب تو ہوگئے مگر پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی طرح بلوچستان ان کی اولین ترجیح نہیں تھا جبکہ سندھ میں تو سوائے کراچی کے انہیں شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا جو ایک آدھ سیٹ ملی وہ بھی آر ٹی ایس کی فیل ہونے کی مرہونِ منت ملی تو سندھ پہلے دن سے ان کی ترجیحی فہرست سے نکل گیا، اور اس کا ثبوت آنے والے دنوں میں انہوں نے سندھ اور سندھ حکومت کے خلاف اقدامات اور انتہائی ترش غیرذمہ دارانہِ و غیر سیاسی طرزِ عمل سے فراہم کر دیا۔

وزیراعظم صاحب نے سب سے پہلے سندھ کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت ملنے والے حصے کے اربوں روپے کے فنڈز روک کر پیغام دیا کہ انہیں سندھ کی عوام کا مینڈیٹ قبول نہیں، جبکہ فنڈز روکنے کا جواز یہ فراہم کیا گیا کہ سندھ حکومت سارے فنڈز کرپشن کی نظر کر دیتی ہے جو کہ انتہائی بھونڈا نامناسب جواز تھا۔ دراصل خان صاحب اور ان کے سلیکٹرز کو آئین کی اٹھارویں ترمیم کھٹکتی ہے جس نے این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ وفاق سے زیادہ یعنی ستاون فیصد کردیا اور خود خان صاحب فرما چکے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم نے صوبوں کو مالی طور پر طاقتور جبکہ وفاق کو دیوالیہ بنا دیا ہے۔

خان صاحب نے اقتدار میں آتے ہیں پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام سے سندھ کے چھتیس منصوبے ہی ختم کر دیے، جبکہ این ایف سی ایوارڈ کے اعلان کے بغیر پی ایس ڈی پی تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ خان صاحب نے این ایف سی کے تحت سندھ کے حصے کے ایک سؤ ارب روپے سے زائد کے فنڈز روک کر صوبہ سندھ کو شدید مالی بحران سے بھی دوچار کیا جس سے سندھ میں جاری ترقیاتی فلاحی منصوبے نہ صرف التوا کا شکار ہوگئے بلکہ طوالت کے باعث ان منصوبوں کی لاگت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ان منصوبوں میں سندھ کے مختلف اضلاع میں ایس آئی یو ٹی اور این آئی سی وی ڈی ہسپتالوں کا قیام اور سندھ کے روڈ انفراسٹرکچر کے اہم منصوبے شامل ہیں۔

عمران خان صاحب کی حکومت نے سندھ کے جو چھتیس منصوبے سالانہ ترقیاتی پروگرام سے نکالے ان میں حیدرآباد سکھر موٹروے پہ ابھی ایک انچ بھی کام شروع نہیں کیا گیا، میرپور خاص عمرکوٹ ہائی وے منصوبہ، شہدادکوٹ بائے پاس منصوبہ، حیدرآباد بائے پاس منصوبہ اور اس کے تحت بننے والی برجز کا منصوبہ، نادرن بائی پاس منصوبہ، مھران انجینئرنگ یونیورسٹی میں سینٹرآف ایکسیلینس ان آرٹ اینڈ ڈیزائن کا توسیعی منصوبہ، منچھر جھیل کی صفائی کا توسیعی منصوبہ، کے بی فیڈر کی لائنگ کے منصوبے سمیت انتہائی اھم عوامی نوعیت کے منصوبے شامل ہیں۔

خان صاحب کے دورِ حکومت میں این ایچ اے نے 74 ارب روپے خرچ کیے جن میں سے سندھ پہ صرف 1.2 ارب روپے خرچ کیے گئے، حالانکہ حیدرآباد سے سکھرتک قومی شاہراھ انتہائی بری حالت میں ہے، جبکہ سکھر روہڑی برج منصوبے کے لئے مختص 10 ارب کی رقم کم کرکے ڈھائی ارب روپے کردی گئی جو سندھ سے کھلی نفرت اور غصے کا اظہار ہے۔ خان صاحب بغضِ پیپلز پارٹی میں نفرت اور انتقام میں اس حد تک آگے چلے گئے ہیں کہ وہ کئی ماہ سے سندھ کی منتخب عوامی حکومت کے منتخب وزیرِ اعلیٰ سے ملاقات سے بھی کتراتے ہیں۔

سندھ میں اختیارات کے لئے سندھ حکومت سے تصادم کی راہ پر گامزن ہیں اور اس کارِ خیر میں گورنر سندھ عمران اسماعیل، ان کی پارٹی کے چند ناعاقبت اندیش زعماء، جی ڈی اے میں شامل جماعتوں کے شکست خوردہ عوام کے مسترد کردہ کچھ سیاسی یتیم اور ایم کیو ایم شامل ہیں جو خان صاحب کو غیر آئینی غیر اخلاقی اقدامات پہ نہ صرف اکساتے ہیں بلکہ ان کو سندھ میں گورنر راج لگانے کے تباہ کن مشوروں سے بھی نوازتے ہیں، اس نیک کام میں ایم کیو ایم کے فروغ نسیم پیش پیش رہتے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے پچھلے دنوں سندھ میں اپنے اتحادیوں سے ملاقات کرکے سندھ حکومت کے لئے اپنے غصے اور نفرت کا یہ کہہ کر کھلا اظہار کیا کہ سندھ حکومت مکمل ناکام ہو چکی ہے اور کرپشن میں ڈوبی ہوئی ہے، حالانکہ پنجاب جو اس وقت خان صاحب کی بے جا سیاسی مداخلت اور تجربوں کے باعث بدترین انتظامی تباہی سے دوچار ہے، سانحہ ساہیوال سے لے کر تازہ سانحہ پی آئی سی لاھور پنجاب حکومت کی بدترین نا اہلی اور نالائقی کا ثبوت ہیں، پنجاب اور کے پی کے میں کرپشن اقربا پروری اپنے عروج پر ہے مگر خان صاحب کو اپنی حکومت کی تمامتر نا اہلیت نالائقیت، بدانتظامی و کرپشن سندھ حکومت میں نظر آتی ہے۔

خان صاحب اپنے ان سیاسی یتیم اتحادیوں سے تو ملنا پسند فرماتے ہیں جن کو سندھ کی عوام بار بار ذلت آمیز شکست سے دوچار کرتی ہے، انہیں ترقیاتی کاموں کے لئے فنڈز فراہم کرنے کا لالی پوپ بھی دے دیتے ہیں مگر سندھ کی عوام کے بھرپور مینڈیٹ کے حامل وزیرِ اعلیٰ سے ملاقات کرنے سے مسلسل صرفِ نظر کرتے ہیں جو ان کی سندھ اور سندھ کی عوام سے نفرت غصے اور بے زاری کا واضح ثبوت ہے۔ سندھ میں پولیس آرڈر کے نام پہ اپنی مرضی کا آئی جی تعینات کرکے وزیرِ اعلیٰ کے انتظامی اختیارات کو چیلنج کرتے ہیں تو دوسری طرف ملک کے سب سے بدترین انتظامی بحران سے دوچار صوبے پنجاب میں سولا ماہ میں چار آئی جیز تین چیف سیکریٹریز تبدیل کر دیتے ہیں۔

وزیراعظم کے کچھ صوبائی عہدیداران جن میں سے کچھ کراچی کی اربوں روپے کی سینکڑوں ایکڑ سرکاری زمینوں پر قبضے اور دیگر جرائم و منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں وہ مسلسل سندھ کی عوامی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لئے جی ڈی اے کے سیاسی یتیموں کے ساتھ مل کر سازشوں کے جال بنتے رہتے ہیں جن کو وزیراعظم کی مکمل حمایت اور سرپرستی حاصل ہے اور یہ طرز عمل نہ صرف غیر آئینی، غیر اخلاقی اور غیر سیاسی طرزِ عمل کے زمرے میں آتا بلکہ ان حرکات سے وفاق کی وحدت، سالمیت، استحکام بھی خطرے میں پڑ چکا ہے، جبکہ سندھ کی عوام میں وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کے خلاف بھی شدید نفرت اور باغی رجحانات جنم لے رہے ہیں۔

پاکستان کے آئین، قانون و پارلیمنٹ کو پسِ پشت رکھ کر وزیراعظم عمران خان صاحب مسلسل سندھ کی منتخب عوامی جمہوری حکومت کے خلاف روز روز نئے محاذ کھولتے رہتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں پی ٹی آئی کے نہیں انہیں اپنے منصب اپنے عہدے کی عزت و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے سندھ کی عوام کے مینڈیٹ کو بھی وہی احترام اور اہمیت دینی چاہیے جو وہ اپنے دلوائے گئے مینڈیٹ کی کرتے ہیں۔ خان صاحب کو نفرت اور انتقام کی آگ میں اتنا آگے نہیں جانا چاہیے جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو کیوں کہ اقتدار سدا نہیں رہنا ہمیشہ کے لئے صرف اللہ رب العزت کا نام و اقتدار رہنا ہے باقی سب فانی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).