اسلام اور سیکولرزم میں کوئی تضاد نہیں


اسلام اور جمہوریت کے بعد ’سیکولرزم‘ وہ لفظ ہے جس کا اس ملک میں نہایت غلط استعمال کیا گیا اور کیا جاتا رہا ہے۔ ان دو لفظوں کے مقابلے میں سیکولرزم کو سمجھنا آسان کام ہے لیکن ملک میں موجود بعض ہر فنِ مولا مُلاؤں کی وجہ سے یہ لفظ غلط مفاہیم کے ساتھ جوڑا گیا۔ اس طاقتور طبقے نے اپنے دل و دماغ اور طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے لفظوں کو مختلف زاویوں سے معانی کے بکھیڑوں میں الجھایا ہے۔ سیکولرازم اور اس کے معنی طے کرنا اس طبقے کی میراث نہیں اور یہی وہ بنیادی نقطہ ہے جس کی وجہ سے سیکولرز کا اس طاقتور طبقے سے اختلاف ہے۔

سب سے پہلے اس لفظ کا استعمال برطانوی لکھاری ’جارج جیکب ہولی اوئکے‘ نے 1851 میں ایک میگزین ’دی ریزنر‘ میں کیا۔ ان کے مطابق سیکولرز کا مقصد ایک ایسے سوشل آرڈر کو ترتیب دینا ہے جو کہ مذہب اور سیاست کو الگ الگ زاویۂ نگاہ سے دیکھے۔ اس کا مقصد مذہب پر تنقید اور اس کے وجود سے انکار بالکل نہیں۔

اسلامک سکالر ’عبداللہ احمد اَن نائم‘ کے مطابق سیکولر ریاست کی بنیاد آئین پرستی، بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری اور تمام شہری حقوق کے احترام پر قائم ہوتی ہے جو کہ اسلام ہی کے ریاستی اقدار سے مطابقت ہے۔ وہ اپنی کتاب ”اسلام اور سیکولر ریاست“ میں واضح طور پر بتاتے ہیں کہ اسلام ایک سیکولر مذہب ہے اور سیکولرزم کو دسویں سن ہجری سے باقاعدہ پریکٹس کیا گیا۔

سیاسی لحاظ سے سیکولرزم کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کا شہریوں کے مذہبی اختلاف سے کوئی تعلق نہیں اور اسے تمام شہریوں کو بنیادی انسانی حقوق مذہبی اختلاف کو بالائے طاق رکھ کے دینا ہیں۔ ریاست کا اپنے معاملات طے کرتے وقت کسی ایک فرقے یا مذہب کی طرف جھکاؤ نہیں ہونا چاہیے۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کا مطلب مذہب کے وجود سے انکار نہیں بلکہ ایک معاشرہ جہاں شدت پسندی زیادہ ہو، لوگوں کے احساسات اور خیالات کے ساتھ کھیلنا آسان ہو وہاں مذہب کے نام پر لوگوں کا استحصال آسان ہو جاتا ہے۔

معاشرے میں کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کہ شدت پسندی کو ایک طرف رکھ کے معتدل راستہ اپناتے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ قدامت پسند اسلام اور سیکولرزم کو آمنے سامنے لا کھڑا کر دیتے ہیں۔ یہی لوگ عوام کے اذہان کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں اختلاف اور نفرت کی بھینٹ چڑھاتے ہیں۔ انہیں اسلام اور لبرزم کی من پسند تعریفیں بتائی جاتی ہیں حالانکہ لبرزم کا سب سے اعلی درس اسلام ہی سے ملتا ہے۔

ایک مقالے میں یاسر لطیف ہمدانی صاحب لکھتے ہیں کہ اسلام کا جدید جمہوریت (سیکولر ریاست) کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں جب تک یہ اسلام کا راستہ نہ روکے۔

نہ تو سیکولرزم اسلام کے خلاف ہے اور نہ اسلام اس کے۔ سیکولرزم کی بنیادی اساس معاشرے میں دوسروں کے عقائد کی عزت و احترام کرنا ہے جب تک وہ آپ کو نقصان نہ پہنچائیں۔ اسی طرح کی بات قائد اعظم نے قانون ساز اسمبلی میں کہی تھی۔

ملاؤں کا سیکولرزم سے اختلاف قابل فہم بات ہے لیکن کچھ خود ساختہ سیکولرسٹ لوگوں کا مذہب کے خلاف اپنا عناد چھپانے کے لیے سیکولرزم کا لبادہ اوڑھنا افسوس ناک امر ہے۔

وجود میں آنے کے بعد پاکستان کی تاریخ پر کاری ضرب قرار داد مقاصد کی صورت میں ہوئی جس نے مسلمانوں کو اکثریت اور غیر مسلموں کو اقلیت قرار دیا۔ اس قرار داد کا مقصد سیاسی تھا، مذہب کا اس سے کوئی سروکار نہیں تھا لیکن یہ کئی بھیانک نتائج کی ضامن بنی۔

قرانِ کریم نے سیکولرزم کے حق میں راہنمائی دی ہے۔ حکم صادر ہوا کہ ”مذہب میں کوئی زبردستی نہیں“ اور ”آپ کے لیے آپ کا مذہب اور میرے لیے میرا مذہب“۔ اس سے یہ مسئلہ کافی آسان اور یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام اپنے اندر تنوع اور برداشت کا مادہ سموئے ہوئے ہے۔

اسلام میں انصاف کے نظام (فقہ) کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ ”اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ ابھارے کہ انصاف نہ کرو“۔ حضور (ص) نے دنیا کی پہلی مسلم ریاست کی بنیاد اجتماعیت اور اشتمالیت پر رکھی۔ میثاقِ مدینہ ( ریاست کے قانون) کے مطابق یہودیوں اور باقی غیر مسلموں کا مسلم امہ کا حصہ گردانا گیا۔ یہ مذہبی لحاظ سے نہیں بلکہ سیاسی لحاظ سے کیا گیا۔ یہودیوں کو بھی اقلیت نہیں سمجھا گیا اور انہیں تمام بنیادی حقوق دیے گئے۔

حضرت عمرِ فاروق (رض) نے یروشلم کے چرچ میں نماز پڑھنے سے اس لیے انکار کیا تاکہ مستقبل میں مسلمان اسے اپنی وراثت نہ سمجھنے لگیں۔ یہی اسلام کی روح اور سیکولرزم کی بنیادی اساس ہے۔ یہی بات 11 اگست 1947 کو قائد اعظم نے بھی پہلی قانون اسمبلی میں کہی کہ ریاست کا لوگوں کے رنگ و نسل اور عقائد سے کوئی لینا دینا نہیں۔ قائد نے جب بھی دینِ اسلام کی بات کی، آپ نے تقاریر میں اسلام کو وہ مذہب قرار دیا جو کہ سیکولرز اور جدید جمہوریت سے ہم آہنگ اور موافق ہے۔ لیکن دائیں بازو کے چند قدامت پسندوں نے جناح کے ان حوالوں کو سیکولرزم کے خلاف پروپیگینڈے کے طور پر پھیلایا حالانکہ جناح کے لیے سیکولرز اور اسلام ایک ہی تصویر کے دو رخ تھے۔

آج کے پاکستان میں ہم دیکھ اور محسوس کر رہے ہیں کہ جو امتیازی نکات قانون میں ہیں اس کی جڑیں قرار دادِ مقاصد سے ملتی ہیں۔ اس ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے کہا تھا کہ غیر مسلم بھی اس کا سربراہ بن سکتا ہے۔ اس قرار داد کے چند اچھے نکات بھی تھے پر ان کو پسِ پردہ رکھ کے بھلایا گیا اور تفریق کے نکات کو ہوا دی گئی اور اس کی بنیاد پر فیصلے لیے گیے۔

اسلام اور سیکولرزم کے مابین کوئی اختلاف نہیں۔ اسلام تمام مسلمانوں کو سیکولرزم کی تعلیم دیتا ہے۔ اگر مسلمان حکمرانی کریں تو ان پر یہ لازم ہے کہ وہ انصاف، برابری اور شہریوں کے عزتِ نفس ممکن بنانے کی اقدار اپنائیں اور تفریق کے مادے کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکیں۔ سیکولرز کا اسلام کے ساتھ فطری اتحاد ہے کیونکہ یہ دونوں تمام انسانی حقوق و ضروریات کو اپنے احاطے میں لیے ہوئے ہیں۔

اسلام کا بنیادی نقطہ یہی ہے کہ اس کی تعلیم پر سب سے پہلے خود عمل کیا جائے۔ تبلیغ و اشاعت ہر مذہب کے پیروکاروں کا بنیادی حق ہے لیکن کسی پر اپنے عقائد و نظریات زورِ بازو سے ٹھونسنے کا حق کسی کو نہیں ہونا چاہیے۔ ریاستِ مدینہ میں حضور نبی کریم (ص) نے یہودیوں کے معاملات توریت اور بائبل کے احکامات کی روشنی میں طے کیے۔

یہ دور جمہوریت کا دور ہے۔ ریاستیں عوامی نمائندوں کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق چلتی ہیں۔ یہ وہ تمام باتیں قبول کرتیں ہیں جو کہ اس معاشرے میں زیرِ عمل ہیں اور زیادہ لوگوں کے لیے قابلِ قبول ہیں۔ جو قابلِ قبول نہیں ہیں وہ مسترد کر دی جاتی ہیں۔ جہاں پہ مذہبی طبقے کی اکثریت ہے وہاں قانون میں ان کا کردار ہے لیکن پھر بھی یہ سیکولرزم کا حصہ ہے۔ مثال کے طور پر بھارت میں گائے کا مقدس گردانا جاتا ہے تو اس کی قربانی پر پابندی سیکولرزم کے خلاف قطعاً نہیں ہے لیکن ”گائے رکشک“ کے نام پر لوگوں کا قتل اور ان پر ظلم سیکولرزم کے خلاف ہے اور انسانیت کی توہین ہے۔ بالکل اسی طرح پاکستان میں بھی اسلامی تعلیمات اور جمہوری اقدار کے خلاف قدم نہیں اٹھایا جاسکتا کیونکہ یہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ لیکن یہاں اکثریت کا اقلیت پرکسی قسم کا ظلم و جبر تمام بنیادی انسانی حقوق، جمہوریت، اسلام اور سیکولرزم کے خلاف ہے اور ایسا سمجھنا بھی چاہیے۔

اسلام اور سیکولرزم کا آپس میں اشتراک ہے اور اسے سمجھنا ضروری ہے۔ دونوں اطراف سے قدامت پسندوں کے اسلام اور سیکولرزم کے خلاف نعروں سے اسلام اور سیکولرزم کا کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ نعرے صرف ایک لبادہ ہیں تاکہ اپنی قدامت پسندی چھپائی جا سکے۔ اسلام اور سیکولرزم محبت اور آشتی سے جڑے ہوئے ہیں اور تعصب سے انہیں نفرت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).