مشرف کیس: صراط مستقیم کا فیصلہ


دباؤ کو جوتے کی نوک پر رکھنے والے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب وقار احمد سیٹھ اس تین رکنی بینچ کی سربراہی کررہے تھے جن کی عدالت میں تاریخ کا دھارا موڑ دینے والا سنگین غداری کیس زیر سماعت تھا۔

اب کے بار مجرم نہ کوئی عوامی سیاستدان تھا نہ ہی کروڑوں خاک نشینوں میں سے کوئی بے بس پاکستانی بلکہ خلاف معمول سابق فوجی سربراہ اور ڈکٹیٹر پرویز مشرف ہی دلیر منصفوں کے رحم و کرم پر تھا۔

تین نومبر دوہزار سات کو اس کے غیر آئینی اقدام ( ججز نظر بندی اور غیر قانونی ایمرجنسی کا قیام ) کے حوالے سے نواز شریف حکومت نے عدالت سے رجوع کیا اور بیس نومبر دوہزار تیرہ کو خصوصی عدالت کا قیام عمل میں لایا گیا تقریبًا چار ماہ بعد اکتیس مارچ دوہزار چودہ کو پرویز مشرف پر فرد جرم عائد ہوئی لیکن ظاہر ہے اس ڈکٹیٹر کا شجر نسب ایسا تھا جو ہماری تاریخ میں کئی حوالوں سے شجر ممنوعہ کی مانند ہی رہا اس لئے نہ وہ کبھی عدالت کے کٹہرے میں آیا نہ ہی کسی نے اس کے ہاتھ میں ہتھکٹری دیکھی، جیل اور سزا تو دور کی بات ہے۔

تاہم نواز شریف اپنی ”گستاخی“ کی سزا ابھی تک بھگت رہا ہے۔

بہرحال جنرل مشرف کے خلاف دفعہ 6 کے تحت سنگین غداری کا کیس گزشتہ چھ سال سے عدالتوں میں جھولتا رہا اس دوران اس کیس میں ایف آئی اے نے سابق گورنر پنجاب جنرل خالد مقبول سابق سیکرٹری داخلہ، اسٹیبلیشمنٹ اور دوسرے اہم لوگوں کے بیانات بھی قلم بند کیے ( جنرل خالد مقبول نے سارا ملبہ اپنے سابق پاس پرویز مشرف پر ڈال دیا تھا ) اس کیس کو مختلف اوقات میں جسٹس مظہر عالم میانخیل، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس طاہرہ صفدر سمیت سات ججز نے سنا

اس دوران ایک سو پچیس سماعتیں بھی ہوئیں یہ کیس نظروں سے قدرے اوجھل رہا لیکن ایک ماہ پہلے اس مقدمے نے اس وقت اھمیت اختیار کر لی جب تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ کا بیان سامنے آیا کہ اٹھائیس نومبر کو سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنایا جائے گا اس بیان کے ساتھ ہی چاروں جانب ایک تھرتھلی مچ گئی، خصوصًا عمران کی حکومت ایک کی بجائے دو پاکستان کا علمبردار بن کر میدان میں آئی اور فیصلہ رکوانے اور سابق ڈکٹیٹر کو بچانے کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کردی جس پر فیصلہ سنانے سے صرف ایک دن پہلے یعنی ستائیس نومبر کو عدالت نے حکم جاری کیا کہ فی الحال سنگین غداری کیس کے فیصلے کو مؤخر کیا جائے اور یوں عارضی طور پر یہ تاریخی فیصلہ تعطل کا شکار ہوا،

اور پھر بیس دن بعد پاکستان کی بہتر سالہ تاریخ کا دھارا موڑنے والا فیصلہ سامنے آیا جس میں سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کو مجرم ٹھہرا کر پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔

اب اس سے قطع نظر کہ پرویز مشرف کو پھانسی ہوگی یا نہیں، کیونکہ ابھی بہت سے مراحل باقی ہیں قانونی ماہرین کے مطابق سزا کے خلاف تیس دن کے اندر اندر مجرم سپریم کورٹ میں اپیل کرسکتا ہے جبکہ پرویز مشرف کی جسمانی حالت بھی قابل رحم ہے اور وہ شدید بیمار بھی ہیں۔ اس لئے فوری طور پر سزا پر عمل درآمد ناممکن ہے۔

البتہ تین رکنی بینچ کے اکثریتی فیصلے (دوججز ) کو تاریخ نے تھام لیا ہے اور یہی وہ وقت ہے جس نے عدلیہ کو کسی چوکھٹ پر ماتھا رگڑنے اور کسی دھلیز پر سجدہ ریز ہونے کی بجائے ایک باوقار اور قابل احترام سر بلندی عطا کردی اور اس سر بلندی کے مینار سے روشنی کا وہ دھارا پھوٹتا ہے جو ظلم اور تیرگی کو خس وخاشاک کی طرح بہا کر وھاں انصاف اور قانون کی یکساں عملداری کے روشن نظام کا احیاء کرتی ہے جس سے امن، انصاف اور جمہوریت جنم لیتے ہیں اور یہی چیزیں آگے چل کر ایک قوم کو معاشی استحکام پرامن معاشرہ اور شائستہ تہذیب فراہم کرتے ہیں۔

ابھی دو دن پہلے سپریم کورٹ کے معزز چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے برطانوی جج جسٹس کک کے اس لافانی قول کا حوالہ دیا کہ قانون ہر بادشاہ سے بڑا ہوتا ہے تو میں سوچتا رہا کہ کئی سو سال پہلے اگر جسٹس کک جیسے دلیر اور دوراندیش جج طاقتور بادشاہ کے سامنے ڈٹ کر کھڑے نہ ہوتے تو برطانیہ آج بھی کسی ترقی یافتہ اور مہذب معاشرے کی بجائے نیم وحشی لوگوں اور سرکش بادشاھت پر مشتمل ایک جزیرہ ہی ہوتا۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ عدالتی کردار اور فیصلے ہی ہوتے ہیں جس پر قوموں کے مستقبل کا دارومدار ہوتا ہے اور انہی فیصلوں سے بگاڑ اور اٹھان کے راستے نکلتے ہیں اس لئے اگر آج معزز جج صاحبان نے پرویز مشرف کے حوالے سے ایک سخت لیکن مشکل فیصلہ صادر کیا آہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ کسی ادارے کے خلاف فیصلہ ہے کیونکہ جس ادارے سے سابق ڈکٹیٹر کا تعلق تھا اس ادارے کے لئے محبت اور احترام فیصلے کے بعد بھی پہلے کی طرح قائم ودائم ہے البتہ ایک فرد کے ذاتی کردار کو ادارے سے الگ رکھ کر جانچا گیا اور اسے ہی فیصلے کی بنیاد بنایا گیا۔

یہ ان معزز جج صاحبان کی منصف مزاجی اور دور اندیش بصیرت ہی ہے جس نے بدلتے ہوئے زمانے اور اس کے تقاضوں کا بروقت ادراک بھی کیا اور جرات کا مظاہرہ بھی۔

گویا یہ فیصلہ بحیثیت قوم ہمیں اس موڑ پر لے آیا جھاں سے دو کی بجائے ایک ہی راستہ نکلتا ہے جو عدل سے روشن بھی ہے اور کامیابی کی جانب گامزن صراط مستقیم بھی۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).