شادیوں کو شاد ہی رہنے دیں


آج دفتر میں کل ہونے والی ایک شادی کافی زیرِ بحث رہی۔ ہمارے ایک ساتھی نے دعوتی کارڈ پر لکھے دوپہر ایک بجے کے وقت کو کافی سنجیدہ لے لیا۔ وقت پر پہنچنے کی خواہش کے مدِنظر انہوں نے اپنے گھر کی قریبی مسجد کی بجائے ظہر کی نماز شادی گھر کے راستے میں آنے والی اس مسجد میں پڑھی جہاں ان کے گھر کے قریب مسجد سے پہلے ایک بجے نماز پڑھائی جاتی ہے۔ وہ کسی صورت لیٹ ہونے کا خطرہ مول نہیں چاہتے تھے۔ نماز سے فراغت کے بعد تقریباً ڈیڑھ بجے اپنے حساب سے وہ کارڈ پر دیے گئے وقت کی روشنی میں تیس منٹ لیٹ شادی ہال پہنچے تو وہاں صرف انتظامیہ کے لوگ تھے، میزبان اور مہمان دونوں غائب تھے۔

رابطہ کرنے پر یہ کہہ کر تسلی دی گئی کہ آپ تشریف رکھیں، بس ہم آئے۔ وہ جو بس آرہے تھے، بہت دیر سے آئے اور کھانا تقریباً چار بجے شروع کیا سکا۔ لیٹ ہونے کی متعدد وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی تھی دلہا اور دلہن میک اپ کے لیے اس چھوٹے سے شہر سے چالیس کلو میٹر دور نسبتاً بڑے شہر میں گئے تھے۔ تھوڑی سی بہتر منصوبہ بندی اور ضروری امورکو وقت سے بہت پہلے شروع کرکے مہمانوں کو بہت بڑی کوفت سے بچایا جا سکتا تھا۔

یہ صرف ایک شادی کا معاملہ نہیں ہمارے ہاں ہونے والی اکثر شادیوں میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ بڑے شہروں کے حوالے سے سنا تھا کہ رات گئے ہونے والی تقریبات میں شادی ہال رات دس بجے بند کرنے کی پابندی لگا کر اس مسئلے پر کسی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ دن کی تقریب میں بھی ہال چونکہ ایک مخصوص وقت تک بک ہوتا ہے تو وقت کی پابندی ایک مجبوری بن جاتی ہے۔ اب معلوم نہیں بڑے شہروں میں اس پر عمل ہو رہا یا نہیں، چھوٹے شہروں میں تو اتنی سخت پابندیاں نہیں، اس لیے مہمان اور میزبان دونوں جی بھر کے ان لوگوں کو انتظار کی کوفت میں مبتلا رکھتے ہیں جو وقت پر پہنچ جاتے ہیں۔

گویا ان کو وقت پر پہچنے کی خوب خوب سزا ملتی ہے۔ شادی گھروں کے علاوہ جو فنکشن گھر کے قریب اور سڑکیں بلاک کر کے منعقد کیے جاتے ہیں ان میں تو کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی اور وہاں تو وقت کی پابندی کا کوئی تصور ہی نہیں ہوتا۔ شادی خوشی کا موقع ہوتا ہے، وہاں سب کی خوشیوں کا خیال رکھنا چاہیے، اپنی بھی اور آنے والے مہماں وں کی بھی۔ اکثر شادیاں چھٹی والے دن رکھی جاتی ہیں، ہو سکتا ہے انہوں نے چھٹی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور بھی بہت سے کام نمٹانے ہوں۔ شادیوں کے رش کے موسم میں بعض اوقات ایک ہی دن میں ایک سے زیادہ فنکشن بھی اٹینڈ کرنے پڑجاتے ہیں۔ اس لیے وقت کی پابندی کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔

پابندی کے باوجود شادی بیاہ کے موقع پر ہونے والی آتش بازی اور فائرنگ ایک ایسا عذاب ہے جو بھگتنے والے ہی بتا سکتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ رات کے دس، گیارہ اور بعض اوقات بارہ بجے اچانک محلے میں آتش بازی اور پٹاخے چلنے کی آوازیں شروع ہو جاتی ہیں۔ شکایت پر پولیس کبھی کبھی ایکشن میں بھی آجاتی ہے، گرفتاریاں بھی ہوتی ہیں، فائرنگ کی زد میں آکر کئی بار مہمانوں، میزبانوں یا کوئی راہگیروں میں سے کوئی بد قسمت اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، لیکن ہم باز پھر بھی نہیں آتے۔ خوشی کا یہ موقع کیا دوسروں کو تکلیف دینے یا کسی کی جان لینے کے لیے ہوتا ہے؟

شادی بیاہ پر ہونے والے بے پناہ اخراجات بھی خوشی کے اس موقع پر رنگ میں بھنگ ڈالنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ صرف مہندی پر ہونے والے اخراجات سے چھوٹی موٹی شادی بھی بھگتائی جا سکتی ہے۔ لڑکی والوں سے بھاری بھرکم جیہز لینا کیا بہت ضروری ہے؟ ہوسکتا ہے کوئی مجبوراً اور معاشرے میں اپنی ناک کٹوانے کے ڈر سے مہندی اور دوسری غیر ضروری رسومات پر خرچ کر رہا ہو اور جہیز دینے کی سکت بھی اس میں نہ ہو۔ ہم سب مل کر اس معاملے میں ”اجتہاد“ کر سکتے ہیں۔ حکومت نے ون ڈش کی پابندی اسی مقصد کے لیے لگائی تھی۔ کچھ عرصہ اس پر عمل درآمد ہوا، پھر سختی کم ہوئی اور لوگ پھر پرانی روٹین پر واپس آگئے اور اپنی دولت کا سہارا لے کر غریبوں کی محبت کا مذاق اڑانے لگے۔

شادی خوشی کا موقع ہوتا ہے، اس موقع کو شاد ہی رہنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).