ایک واہیات شخص سے ملاقات


کل شام گھر کے قریبی کیفے میں ایک دہریہ ٹائپ پاکستانی ٹکر گیا۔ میری شامت آئی تھی جو میں نے اسے چھیڑنے کو پوچھ لیا کہ قُربِ قیامت قریب ہے، تم نے آخرت کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے۔

کہنے لگا کہ یہ سچ ہے کہ دنیا میں حرص، استحصال اور تصادم بڑھ رہا ہے اور یہ سب تمھارے نزدیک قُربِ قیامت کی نشانیاں ہیں جبکہ میرا خیال ہے کہ تم اور تم جیسے لوگ خود اس گراوٹ کے ذمہ دار ہو۔

میں نے کہا کہ مجھ پر الزام تو لگا دیا، ثابت کر کے بھی دکھاؤ۔

تو اس نے کہا کہ دنیا بھر کے کارپوریٹ سیکڑرز اور حکومتی و ریاستی مشینریوں کے کرتا دھرتا لوگوں کی بے تحاشا لالچ، دولت و طاقت اور اثر و رسوخ کی ہوس کے باعث بڑھتی ہوئی ابتری سے انکار نہیں۔ لیکن تم جیسوں کی طرف سے یہ کیسا قیامت اور بے برکتی کا ذِکر ہورہا ہے۔ کہنے لگا کہ فرضی آخرت کے لیے جہنم ہوتی دنیا میں بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہوا مذاہب اور نظریات کا ٹکراؤ ابتری نہیں لائے گا تو اور کیا لائے گا۔

محدود وسائل میں سخت مقابلے کی فضا اور دن بدن گھٹتے معاشی مواقع کے باعث انسانوں کی گروہ بندی، غنڈہ گردی اور چھینا جھپٹی ایسی ہی بدصورت صورتحال کو جنم دے کر زندگی کو کٹھن تر بنا دیتی ہے۔ کہنے لگا کہ تم جیسوں کے پسندیدہ مذاہب کے الجھاؤ اس پیچیدگی کو ایکسپوز نہیں ہونے دیتے ہیں ورنہ شاید اب تک بہتری کی کوئی سبیل ہو جاتی۔

میں نے کہا کہ ذرا کھل کر بات کرو۔ یہ امریکہ ہے یہاں میں نے تمھارا کیا بگاڑ لینا ہے۔

کہنے لگا کہ چلو پھر سنتے جاؤ۔

کہیں بدمعاش جرنیل شاہی، کہیں اندھی ہندوتوا، کہیں مُلا گردی، کہیں بریگزٹ جیسی تنگ نظری، کہیں ٹرمپ گردی، کہیں صیہونیت، کہیں فاشزم، کہیں انتہائی سفاک کمیونزم، کہیں بے رحم کیپیٹلزم، کہیں مطلق العنانیت، کہیں دہشت سے جڑی خلافت و بادشاہت، کہیں مذاہب کے بیچ کشمکش، کہیں جہاد کے نام پر فساد، کہیں فرسودہ شریعت کا نفاز تو کہیں دنیا کا چوہدری بن کہ اپنی ناک اونچی کرنے کے لیے مسلسل جنگ و فساد۔ ان سب عوامل نے مل کر دنیا کے ہر انسان کو متائثر کیا ہے۔

میں نے کہا کہ بطورِ صحافی میرا بھی کچھ نہ کچھ مشاہدہ ہے، تم یہ بتاؤ کہ ان سب قباحتوں کا مذہب سے کیا لینا دینا۔

اسنے جواب دیا کہ ہومو سیپین یا انسان ایک میننگ سیکنگ (meaning seeking) میمل ہے جسے شعوری ارتقاء کے بعد ہزاروں سال سے اپنی بقاء کے لیے گروہوں میں سمٹ کر رہنا پڑا ہے اور اسے اپنے وجود اور اپنے آس پاس موجود کے قیام کی وجوہات کو سمجھنے کے لیے کسی گروہ، قومیت، توہم یا عقیدے کی ضرورت رہی ہے۔

ایسے میں سامی مذاہب زیادہ پرانی ایجاد نہیں ہیں۔ سب سے پہلے بنی اسرائیل نے یہودی مذہب ایحاد کیا جس میں سے رومنوں نے عیسائیت کا نیا سوانگ نکالا۔ جو متشدد اور جابرانہ چھب کے ساتھ زیادہ دیر نہیں چل پایا اور کچھ نہ کچھ لبرل اور پروٹیسٹینٹ ہو گیا۔ اسے نفرتوں کی امین کچھ شرپسند قوتوں کی جانب سے جابر و متشدد کرنے کی دوبارہ سے کوشش تو کی جا رہی ہے لیکن یہودی مذہب اور اسلام جیسی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل رہی ہے۔

پھر اس کے اندر کا دہریہ مکمل سامنے آگیا۔ وہ کہنے لگا کہ عربوں نے اپنے آمرانہ اور عیارانہ مزاج کے عین مطابق ایسے سارے اجزاء ملا دیے جن سے ایک عرب ایمپائر اور اس کی توسیع میں بنا کسی سخت مزاحمت کے مدد ملتی رہے۔

ایسے اجزاء جن سے ان کی عرب ریاست کو بنا کسی روک ٹوک کے تا ابد دوام اور ریوینیو ملتا رہے۔ عربوں کی تیزی زیادہ دیر نہیں چل سکی کیونکہ اپنے چکروں میں عربوں نے رحمت و سلامتی کی بجائے شدید جبر، وحشت اور تشدد کا ایسا زہر بھرا ہے جو رومی و سعدی یا ان جیسا کوئی امن پسند بُھلے شاہ کبھی نہ نکال پایا اور آج بیشتر دنیا عربوں کی ایجاد میں شامل جبر وحشت اور تشدد کے باعث ان سے خائف ہے۔

اس نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ سامی مذاہب آج کے انسان کو درکار معونیت یا مطالب کو واحد سپریم طاقت یا خدائے واحد سے جوڑ کر زیادہ بہتر ایڈریس کر پاتے ہیں لیکن سادہ لوگ اس کانسپٹ کے ساتھ جڑے انسانی تفرقے، ریاستی توسیع پسندی عزائم اور پیداگیری کے پیکج کو نہیں سمجھ پاتے۔

کہنے لگا کہ یوں تو آج کل ہندو بھگت بھی مودی، امِت شاہ اور ہندوتوا کے گیروی جھنڈے تلے پاگل ہوئے پھر رہے ہیں اور سخت مذہبی جلاب لے رہے ہیں لیکن جتنی گھڑمس دنیا میں سامی مذاہب کے نام پر مچائی گئی ہے اتنی بربادی کا ان مذاہب کے بغیر تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

مجھے اس کی بیکار باتیں شیطان کا پھندہ لگیں جبھی میں نے اس کی مزید بکواس نہ سننے کا ارادہ کر کے لاحول پڑھی اور اس پہ لعنت بھیج کر اپنے گھر کی راہ لی۔ آپ کو بھی کبھی ایسا واہیات شخص ٹکرائے تو یہی کیجیے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).