امراض قلب کی سنگینی جاننے والی ایک شہری کا احتجاج
انسان کبھی سوچ بھی نہیں سکتا کہ اسے اپنی زندگی میں کیسے کیسے مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔ یا یوں کہیں کہ کوئی واقعہ ایسا بھی ہوجاتاہے کہ عقل انسانی بہت دیر تک ورطہ حیرت میں مبتلا ہو جاتی ہے۔
جیسے ہمارے کالے کوٹ والے پڑھے لکھے ڈگری یافتہ وکیل برادری نے گزشتہ دنوں جو کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔ بس ایسے ہی کارنامے ہوتے ہیں جو زمانہ صدیوں یاد رکھتا ہے۔ بلکہ تاریخ کی انگوٹھی میں نگینے کی طرح جوڑ دیے جاتے ہیں یہ انمٹ نقوش۔
ویسے تو وکلا برادری کی یہ دھینگا مشتیاں دیکھنے کی عادت پاکستان کے عوام کو افتخار چودھری کے زمانے سے ہے اور اکثر و بیشتر کسی نہ کسی طریقے سے یہ وکیل بابو میڈیا پر انٹری جاری ہی رکھتے ہیں۔ مگر اب تو لگتا ہے آتش جوان ہو گیا ہے۔ وہ بھی ایسا منہ زور کہ آپے سے باہر ابلتا ہوا شباب جو تہس نہس کر دے اپنی اداؤں سے بڑے بڑے طوفانوں کو ایسا جوش ایسا ولولہ کہ خلق خدا سر پکڑے بیٹھی ہے اب تک۔
یوں تو ڈاکٹرز کے خلاف جو غصہ وکیلوں کو تھا اس کا اظہار سارے پاکستان کے ساتھ ساتھ ساری دنیا نے دیکھا مگر ہمیں صرف اس امر پر اعتراض ہے کہ بھیا گدھے پر بس نہیں چلا تو گدھی کے کان مروڑنا کہاں کا انصاف ہے۔ یعنی بندر کی بلا طویلے کے سر۔
ان سارے واقعات میں جس منظر پر آنکھ اب تک حیران ہے۔ پہلے اس منظر کی حیرانی کا پس منظر بتا دیں تو شاید قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے۔ بات اتنی خاص نہیں ہمارے لیے مگر اہمیت کی حامل ہے۔ دراصل عارضہ قلب ہماری خاندانی بیماری ہے یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ دل کو لاحق ہونے والے تقریباً تمام امراض پر ہماری خاندانی اجارہ داری سی ہے۔
تقریباً خاندان کی اسی فیصد اموات کا سبب عارضہ قلب ہی رہا ہے۔ موروثی مسائل ہیں اس لیے ہمیں امراض قلب کے متعلق ضرورت سے زیادہ آگاہی حاصل ہو گئی اور داروخانہ امراض قلب جانے کا اتفاق بھی بہت ہوا۔ اس لیے دل کے ہسپتالوں کی حساسیت کا اندازہ بھی بہت زیادہ ہے۔
شاید اسی بنا پر جب وکلا مافیا (مافیا سے مراد وہ وکلا ہیں جو اس حملے میں شامل تھے شرفا اس اصطلاح سے مستثنیٰ ہیں ) کے ہسپتال پر حملے کی وڈیوز دیکھیں تو دماغ بھک سے اڑ گیا اور پہلا خیال ذہن میں یہی آیا یا اللہ یہ کون سی مخلوق ہے۔ آئی سی یو، سی سی یو، او ٹی، او پی ڈی، ایمرجنسی ہر جگہ تہس نہس۔
دوائیں، انجکشنز، سلنڈرز، آکسجن ماسک، وینٹی لیٹر ہر انسٹرومنٹ تباہ شد، یہ کون سا احتجاج ہے؟
مگر یہ مناظر یہیں ختم نہیں ہوئے، اصل فلم تو ابھی باقی ہے۔ یا یوں کہیں فلم کا کلائمکس سین وہ جب مریض کے منہ سے لگا آکسجن ماسک کھینچا جا رہا ہے۔ ”
ہماری آنکھوں میں سالوں پہلے کا وہ منظر گھوم گیا جب فروری کی انتہائی سرد رات کے آخری پہر ہمارے والد کو ہسپتال لے جایا گیا تھا یونہی معمولی سی بے چینی تھی دراصل وہ ذیابطیس کے مریض تھے۔ دل کا دورہ پڑا تھا مگر درد نہیں تھا ڈاکٹرز اور اب تو زیادہ تر عام لوگ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ شوگر کے مریض کے لیے دل کی تکلیف خاموش موت ہوتی ہے۔ اپنے پیروں سے چل کر گاڑی پر سوار ہوئے اور ہسپتال کی ایمرجنسی میں جا کر بستر پر لیٹنے کے بجائے کرسی پر بیٹھے۔ ڈاکٹر نے آکسجن ماسک لگایا شاید کچھ پل اور بس کرسی پر بیٹھے بیٹھے عالم بالاکے سفر پر روانہ ہوگئے اتنی خاموشی اتنا سناٹا منہ پر لگا ماسک روح نکلنے کے بعد اترا۔
مریض کے منہ سے ماسک کھینچ لینے والے احتجاجیو! تم نہیں جانتے پیروں سے چل کر جانے والے میت بن کر ایمبولینس میں واپس گھر آ ئیں تو زندہ رہنے والوں پر کیسی قیامت گزرتی ہے۔
اس منظر کی تکلیف ابھی جاری تھی کہ گزرے برس کا وہ منظر آنکھوں میں گھومنے لگا جب اپنے تین ماہ کے بھتیجے کو جو پیدائشی عارضہ قلب میں مبتلا تھا۔ اس کے لیے ڈاکٹرز سے ہونے والے مکالمے ذہن میں تازہ ہوگئے۔ ہم نے اس کے ہارٹ سرجن سے صرف ایک سوال کیا تھا
ڈاکٹر صاحب کتنے فیصد چانس ہے آپریشن کی کامیابی کا۔ اور جواب میں ان کے الفاظ صرف پچیس فیصد میں آپ کو جھوٹی آس نہیں دے سکتا۔ اب جو آپ کا فیصلہ
ہم نے بڑے اعتماد سے کہا ڈاکٹر صاحب آپ ایک فیصد بھی کہتے تو میرا جواب ہاں ہوتا کیونکہ زندگی کا کوئی نعم البدل نہیں۔ آپریشن کا دن اور وقت طے کر کے بہت دیر تک وینٹی لیٹر پر سانس لیتے بچے کے سرہانے تسبیح کا ورد کرتے سوچا نہیں تھا کہ اسے آخری بار دیکھ رہی ہوں اسے ماسک لگے زندہ چھوڑ کر آئی اور اور اپنی زندگی کی سب سے کم عمر میت لے کر گھر واپس آ ئی۔
تمہارا کوئی سفر پر گیا تو پوچھیں گے
کہ ریل دیکھ کہ ہم ہاتھ کیوں ہلاتے ہیں
میرے عزیز وکلا آپ کی لڑائی ڈاکٹروں سے تھی تو ظلم مجھ پر کیوں میں تو عام پاکستانی ہوں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے۔ انصاف بیچنے والو! کہ جھگڑا کسی اور سے ہو اور نقصان میرا کیا جائے۔ کس نے یہ حق دیا ہے کسی بھی طبقے کو کہ وہ احتجاج کے نام پر پاکستان کے عوام کی املاک ان کی جان ان کے مال پر ڈاکہ ڈالے۔ آخر کب تک استحصال عوام کو بھگتنا پڑے گا۔ کب تک پاکستان چند لوگوں کے مفادات کے لیے لہو لہان ہوتا رہے گا۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ مریض کے منہ سے آکسیجن ماسک کھینچا جائے۔ یہ احتجاج نہیں بد معاشی ہے۔
ہمیں کسی ابن مریم سے سروکار نہیں۔ کوئی اہمیت نہیں اس بات کی کسی بھی عام پاکستانی کے لیے کہ آپ کون ہیں؟ آپ کا نام، نسب، خاندان، وابستگیاں، وفاداریاں، کیا ہیں۔ آپ کا پروفیشن کیا ہے۔ ہوتے رہیں ابن مریم آپ۔ میرے دکھ کی دوا کرے کوئی۔ یہ قوم پہلے ہی اندرونی بیرونی سازشوں، معاشی، معاشرتی، سماجی اخلاقی مسائل کا شکار ہے۔ اپنے احتجاج کریں مگر ہمیں نقصان نہ پہنچائیں ہمارے دکھ میں کمی نہیں کر سکتے تو اضافہ بھی نہیں کریں۔ اس ملک پر رحم کریں
- جناح کا پاکستان - 22/09/2021
- انفرادی بے اعتدالیاں اجتماعی نقصانات - 02/08/2021
- نظام کے ساتھ سوچ کی تبدیلی - 03/07/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).