پچھتاوا


ڈوبتے سورج کی اداسی اپنے دل میں اتارنا میرا معمول بن چکا تھا۔ اس وقت سورج کو دلاسا دینے کا من کرتا ہے۔ حسب معمول میں کھڑکی سے لمحہ لمحہ سورج کو ڈوبتا دیکھ رہا تھا۔ آج کی شام میں ایک عجیب سی وحشت تھی۔ کاش میں سورج کی اداسی اپنے اندر سمو لیتا۔ اس کا دکھ بانٹ لیتا۔ اسے بتا سکتا کہ رات جلد ختم ہو جائے گی۔ نئی صبح اپنا وجود تمہارے حوالے کرے گی پھر تم پوری آب و تاب سے چمک سکو گے۔ تم دنیا کو بتا سکو گے کہ کالی رات تمہاری حدت کم نہیں کر سکی۔ تم جس شان و شوکت سے دور کہیں پہاڑیوں کی اوٹ میں ڈوبو گے نئی صبح اسی شان سے طلوع ہو گے۔

کافی کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ لیتے ہوئے میں سوچوں میں گم تھا کہ یہ دلاسا میں روز سورج کو دیتا ہوں یا خود کو ٹوٹنے سے بچاتا ہوں۔ کب تک میں اپنے آپ کو دھوکہ دیتا رہوں گا۔ میں مان کیوں نہیں لیتا کہ میں ہار چکا ہوں۔ میں کافی کے آخری گھونٹ کے ساتھ سوچوں کی تلخیاں بھی پی گیا۔ اندھیرا سورج پہ غالب آ چکا تھا۔ میں نے جلدی سے آفس کا کام ختم کیا۔ اور گھر آ گیا۔

ہلکی بارش نے خنکی کا احساس بڑھا دیا تھا۔ میں نے جلدی سے کپڑے تبدیل کیے۔ اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی ایک طرف ڈریسنگ ٹیبل تھا جہاں میرے اور سماویہ کے پسندیدہ پرفیوم رکھے تھے۔ دوسری طرف الماری تھی جس پر رکھی کتابیں کمرے کی زینت کو بڑھا رہی تھی۔ سامنے دیوار کے ساتھ پلنگ اور کھڑکی کے پاس دو صوفے تھے۔ جن کے آگے چھوٹا ٹیبل تھا۔ میں اور سماویہ اکثر رات کو یہاں بیٹھے کافی پیتے اور ڈھیروں باتیں کرتے تھے۔ اس کے ہونے سے میری زندگی میں کتنی رونق تھی۔

شادی کے دو سال بعد ماں کو ہمارا آنگن سُونا ہونے کی فکر ستانے لگی۔ ڈاکٹر سے تفصیلی چیک اپ کے بعد پتہ چلا سماویہ ماں نہیں بن سکتی۔ یہ خبر میرے لیے چھوٹی نہ تھی۔ آخر میں بھی اس سماج کا حصہ ہوں جہاں اولاد کا نہ ہونا ایک گالی سمجھا جاتا ہے۔ ماں نے یہ خبر سنتے ہی اپنا فیصلہ سنا دیا کہ اس بانجھ عورت کو طلاق دے کے گھر سے نکال دو۔ میں تمہاری دوسری شادی کروں گی۔ سماویہ آنکھوں میں آنسو لیے میری طرف رحم کی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

اس دن کے بعد میں نے سماویہ سے بات کرنا کم کر دیا تھا۔ آخر ایک دن اماں نے سماویہ کے گھر سے اس کے ابو کو بلایا اور لے جانے کا کہا۔ جب منت سماجت سے بات نہ بنی تو سماویہ کا جانا ٹھہر گیا۔ میں چپ چاپ سارا تماشا دیکھتا رہا۔ کچھ ہی دن بعد سماویہ گلے میں پھندہ ڈال کے اس ظالم معاشرے کے دردناک اصولوں سے آزاد ہو گئی۔

میں صوفے پہ بیٹھ گیا اور سامنے خالی سیٹ کو دیکھنے لگا۔ گھڑی کی ٹک ٹک وقت گزرنے کا اعلان کر رہی تھی۔ سردی محسوس ہونے پر میں نے الماری سے سماویہ کی شال نکالی اور کندھوں پہ لپیٹ لی۔ آج اسے مجھ سے بچھڑے ایک سال ہو گیا۔ میں نے شال میں منہ چھپائے اپنے آنسو پینے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔

کمال خدا کے لیے مجھے نا چھوڑو، میں آپ کے بنا کیسے زندگی گزاروں گی، کمال اگر میں بچہ پیدا نہیں کر سکتی تو اس میں میرا کیا قصور ہے، کمال خدا کا واسطہ اپنی ماں سے کہو مجھے نا نکالے گھر سے، کمال میں مر جاؤں گی۔ سماویہ کے الفاظ میرے ذہن کی دیواروں پہ کاری ضربیں لگا رہے تھے۔ میں پھوٹ پھوٹ کے رو دیا۔ ہاں میں قاتل ہوں تمہارا، میں نے ہی مارا ہے تمہیں۔ میں جانتا ہوں خدا بھی مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔ میری آنکھوں میں اشکوں کا طوفان بپا تھا۔

کاش میں اس دن ماں کو سمجھا سکتا کے سماویہ میری زندگی کی اچھی ساتھی ہے۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ خوش ہیں۔ اگر ہمارے بچے نہ بھی ہوں اس میں اللہ کی رضا شامل ہو گی۔ کاش میں اس وقت سماویہ کا ہاتھ تھام کے زمانے سے بغاوت کر جاتا۔ میرے قدم سماویہ کی طرف کیوں نا بڑھے، کیا میں بھی دقیانوسی سوچ کا مالک بن گیا تھا۔ کاش میں اسے خودکشی کرنے سے روک پاتا۔

اب اس کمرہ نما زندان میں روز اک موت مرنا میرا مقدر ہے۔ اپنی وحشت کو سارا دن پالنا پھر ہر رات اس کا شکار ہونا اب میری قسمت ہے۔ مجھے معاف کر دو سماویہ۔ خدا کے لیے مجھے معاف کر دو۔ میں شال چہرہ چھپائے سماویہ کے اس وجود سے معافی کا طلبگار تھا جسے میں خود مٹا چکا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).