ایک عفریت جو زراعت اور کسانوں کو نگلنے کو تیار ہے


ہزاروں سالوں سے انسان فصلوں کے بیج محفوظ کرتا آ رہا ہے۔ تاکہ اگلی فصل کاشت کر سکے لیکن جب 1983 میں مونسے نٹونے (GMO) بیج بنائے جنہیں ہمارے ملک میں ہائبر ڈ بیج بھی کہا جاتا ہے جو اس کی اپنی بنائی ہوئی جڑی بوٹی مار دوا گلائفو سیٹ (راؤنڈ اپ) کے خلاف قوت مدافعت رکھتے تھے۔ اور یہ سب کچھ لئے اس لیے ہواکہ 1980 میں امریکہ کی سپریم کورٹ کچھ شرائط پر (GMO) بنانے کی مشروط اجازت دے چکی تھی اور یہ وہ بنیاد تھی جس پر بڑی بڑی کمپنیوں نے دنیا کی خوراک کنٹرول کرنے کے لئے اجارہ داری حاصل کی۔

میں چونکہ خود ایک کاشتکار گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں اس لئے مجھے بخوبی علم ہے کہ پاکستان اور دنیا کے کسان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے (GMO) بیج کو ہم مکئی اور کپاس کی فصل اور دوسری سبزیوں کی فصلوں کے لئے اگا رہے ہیں  دراصل ہماری زمین ہماری صحت اور ہمارے ماحول کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ تقریبا کوئی پچھلے 15 سالوں میں پانچ بڑی کمپنیاں ہیں جنہوں نے دوسری 200 چھوٹی کمپنیوں کو خریدا تاکہ دنیا میں بیج پر اجارہ داری حاصل کر سکیں۔

پاکستان میں تو شاید لیکن کافی سارے ممالک میں معاہدہ پر دستخط کرنے ہوتے ہیں کہ آپ نہ تو یہ بیج فروخت کر سکتے ہیں اور نہ ہی اگلی دفعہ کاشت کر سکتے ہیں۔ اور عمومی دیکھا گیا ہے کہ دوبارہ کاشت کرنے سے وہ نتائج نہیں ملتے آپ کو بار بار بیج خریدنا پڑتے ہیں دنیا کی پانچ بڑی کمپنیاں مافیا کی طرح کام کر تی ہیں کسانوں ڈیلروں کو ہراساں کرنے کے علاوہ حکومتوں تک بھی اثر انداز ہیں جہاں ان کے مفادات کو خطرہ ہو ان کے لوگ مقامی کاشتکاروں تک رسائی رکھتے ہیں اور کاشتکاری سے متعلق عوامل پر بھی باہر کے ممالک میں یہ لوگ سے ڈ پولیس گسٹاپو اور مافیا کارندوں کے طور پر بھی جا نے جاتے ہیں کاشتکار چاہے وہ دنیا کے کسی ملک سے بھی تعلق رکھتا ہو ان سب میں پھنس کر رہ گیا ہے۔

فصلیں کاشت کرنا ایک مہنگا عمل بن چکا ہے۔ (GMO) بیج کاشتکاری میں پیداوار کے اضافے اور خوراک کی قلت کے حل کے طور پر متعارف کرائے گئے، کاشتکار وں کو یہ خواب دیکھایا گیا ہے کہ ان کے استعمال سے کیڑے مار اور جڑی بوٹیاں کش ادویات کا استعمال کم ہو گا اور زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکے گی۔ زیادہ صحت مند اورسستی خوراک کا حصول ہوگا لیکن حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں (GMO) فصلوں کا ماحول پر اثربہت خطر ناک ہے جڑی بوٹی مار زہروں کا ہائبرڈ اور (GMO) فصلوں پر مسلسل استعمال سے جڑی بوٹیوں میں اس حد تک قوت مدافعت پیدا ہو چکی ہے کہ اب وہ گلائفو سیٹ تک سے بھی کنٹرول نہیں ہو رہی۔

(GMO) فصلوں کی کاشت سے شروع کے چند سالوں میں کیڑے مار ادویات کا استعمال کم رہا لیکن اب بڑھتے بڑھتے کاشتکار کے اخراجات کا ایک بڑا حصہ کیڑے مار ادویات پر خرچ ہو رہا ہے اور یہی مافیا جو دنیا کی خوارک اور بیج کو کنٹرول کر رہا ہے۔ اپنے 24 گھنٹے چلنے والے کارخانوں سے کیڑے مار ادویات اور دوسری زرعی ادویات بنا رہے ہیں یورپ میں چند ایک قسم کی (GMO) بیج ہائبرڈ پر پابندی نہیں ہے۔ روس نے تو تقریبا تمام (GMO) بیج پر پابندی لگا رکھی ہے۔

ہم چونکہ تیسری دنیا کے ممالک سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے کوئی آواز نہیں اٹھ رہی یہی حال بھارت کا بھی ہے۔ جہاں 2002 میں بی ٹی کپاس متعارف ہوئی اور اس کے بعد کسانوں کی خودکشی کی شرح میں اضافہ ہو گیا۔ بین الاقوامی جریدے کے مطابق صرف 2009 میں 17638 بھارتی کسانوں نے خود کشی کی، یعنی ہر آدھ گھنٹہ میں ایک کسان نے خود کشی کی اور یہ اس وجہ سے ہو اکہ (GMO) ہائبرڈ اقسام کی مہنگی فصلیں کاشت کرتے ہوئے مقروض ہو گے۔ (GMO) ہائبرڈ بیج بہت مہنگے ہیں اور ہر فصل کے لئے خریدنے پڑتے ہیں۔

ان کو زیادہ پانی اور زیادہ کھاد چاہیے 1960 اور 1970 کے نام نہاد سبز انقلاب نے کسانوں اور کاشتکاروں کی بجائے مڈل مین اور کمپنیوں کو دولت مند کیا ہے اب بھی وقت ہے۔ پاکستان کی حکومتوں کو اس پر بھی سوچنا ہوگا روس اور یورپ کی طرز پر قانون سازی کر کے اس عفریت کو روکنا ہوگا۔ جو زراعت کے ساتھ ساتھ کسانوں کو نگلنے کے لئے تیار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).