چھوٹی خوشیوں کے بڑے پہرے دار


عجب تماشا ہے ہم تیسری دنیا کے معاشروں کا۔ اگر آپ ریاست کے قوانین اور اخلاقی اصول کے مطابق زندگی بسر کرنے پر مُصر ہیں۔ تو سوچ لیں کہ آپ اس معاشرے کے بڑے ”فسادی“ قرار پا چکے۔ ہم کو ایسے القابات سجائے زندگی بسر کرتے مدت ہوچکی۔ بلکہ اب تو عادی مجرم ٹھہرائے جاچکے۔

یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سر رہ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سر بزم یار چلے گئے

وائے قسمت یا با امر مجبوری کبھی دوستوں کا ساتھ بن جائے۔ تو بے چارے دوستوں کا زیادہ وقت نصیحت آموز باتوں کے ساتھ ہمیں سمجھانے میں صرف ہوتا رہتا تھا۔ جبکہ ایسا خطاب اکثر ہماری طرف سے کسی ایسے شعر پر موقوف ہوتا۔

حضرت ناصح گر آویں دیدہ و دل فرش راہ

کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھاویں گے کیا

ہمارا شکوہ اکثر اداروں کی ناقص کارکردگی اور اصول و قوانین کو بالائے طاق رکھنے سے شروع ہو کر اکثر عوام کی لاپرواہی، بے حسی اور بے بسی پر منتج ہوتا۔

آپ کسی عوامی جگہ پر جاکر دیکھ لیں ہر تفریحی یا رش کے مقام پر کہیں کسی ادارے کے اہلکار یا کسی کنٹریکٹر کے نمائیندے اپنی ریاست بنائے اور اپنے خود ساختہ قوانین کے ساتھ براجمان نظر آئیں گے۔ لیکن ایک بات شُد ہے کہ ریاست میں باقی اداروں کا اجارہ مخصوص جگہاؤں پر نظر آئے گا۔ جبکہ پولیس کی دسترس میں ریاست اور ریاستی قوانین، پولیس کی منشاء پر ہی منحصر ہوتے ہیں۔ بڑے معاملات اور بڑے کیسز نمٹانے میں تفتیش اور قانون کا عمل علامتی صرف دکھاوے کی حد تک ہوتا ہے۔ ویسے تو چھوٹے معاملات کا طریقہ کار کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ سوائے چند کے۔

مطلوبہ کارکردگی کے سوال پر انتظامیہ کا موقف اکثر اوقات سہولیات کا فقدان بتایا جاتا ہے دوسرا نفری کی کمی اور ذمہ داری کے اوقات میں توازن کا نہ ہونا۔ مذید جدید خطوط پر نچلی سطع کے ملازمین کی تربیت کا نہ ہونا بتایا جاتا رہا ہے۔ انتظامی ادارے کی نیک نامی ہر دور میں بڑا سوالیہ نشان اور ہر حکومت کے لئے چیلنج رہا ہے۔ سہولیات کے فقدان، ڈیوٹی کے اوقات کی حقیقت بارے تو کوئی شبہ نہیں

حال ہی میں سڑک پر ناکہ لگائے گئے پولیس والوں سے پوچھا کہ آپ نے بیرئیر تھانہ ریل بازار کے لگا رکھے ہیں جبکہ علاقہ سول لائن و غلام محمد آباد کی آخری حد ہے تو کانسٹیبل نے بتایا کہ ہم تھانہ ریل بازار کے اہلکار ہی ہیں۔ جب یہ بات ڈیوٹی پر موجود انسپکٹرنے سنی تو بتایا گیا کہ صرف بیرئیر دوسرے تھانے کا ہے جبکہ نفری سول لائن تھانہ کی ہے۔

اداروں کے اہلکار اپنے فرائض انجام دیتے کب آپ کی ذاتی زندگی میں دخل کے مرتکب ہو جاتے ہیں شاید انہیں اندازہ نہیں ہو پاتا یا ایسی ان کی تربیت ہی نہیں کی جاتی؟ شہر کے معروف پارک میں ایک مخصوص گراؤنڈ میں ایک اہلکار بے چارہ یہ فرائض ادا کرتا نظر آتا ہے کہ جناب فیملی کے ساتھ اس گراؤنڈ میں نہ بیٹھیں چونکہ سب سے خوبصورت گراؤنڈ یہی ہے اور لڑکے اسی گراؤنڈ میں آکر تصاویر بناتے ہیں۔ اب ایسے خدائی مدد گاروں کو کیا کہا جائے؟

اب زندگی کی اس نہج پر اصول اصول کی لت چھڑوانے کے لئے جو مُہرے متحرک رہتے ہیں۔ خدا کے عطا کردہ پہرے دار جو ہمہ وقت چوکس میرے ارد گرد چال ڈھال، زبان دانی کے زیروبم سے لے کر ہر عمل پر مسلسل نہ صرف نظر رکھے رہتے ہیں۔ بلکہ اپنی کی گئی ہر نصیحت پر عمل کروانا بھی جانتے ہیں۔ یہ خدا کا عطا کردہ بے مثل تحفہ میری دو بیٹیاں ہیں۔ بڑی بیٹی گیارہ سالہ اور چھوٹی آٹھ سالہ۔ اب زندگی کے قواعد، اصول و ضوابط بھی انہی کے طے کردہ ہیں۔ ان کا موقف جو اکثر ہمارے چھوٹے پہرے دار کا ہوتا ہے ہمیں سمجھانے بجھانے کے معاملے میں۔ مثلاً گاڑی چلاتے مخالف سمت سے کوئی کتنا بھی غلط آرہا ہو ہمیں یہی حکم صادر ہوتا ہے۔ کہ آپ پیچھے ہٹیں اور دوسرے کو راستہ دیں چاہے اس کے لئے پیچھے آنے والے لوگوں کو بھی اپنی سواری پیچھے ہٹانے کی ہدایت ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ اب ہم ٹھہرے مجبور۔

اب تو بہت حد تک احباب بھی ہماری خاصیت کے عادی ہوچکے اور ہمارے ساتھ شہر گردی یا کہیں بھی ساتھ جانے سے حتیٰ الوسع گریز کی پالیسی پر سختی سے عمل پیرا ہیں۔

نہ جانے میرے ساتھ ہی ایسے معاملات کیوں پیش آتے ہیں۔ کہ روزمرہ کے معمولات میں بھی بحث و تمحیص کی راہ نکل آتی ہے۔ بچوں کے لئے مختص پارک لائلپور پارک میں جانا ہوا تو بچوں کے لئے لگائے گئے جھولے تالے لگا کر قید کر رکھے تھے۔ عملہ سے وجہ معلوم کی تو معلوم ہوا کہ بڑے صاحب کے حکم پر جھولے شام چار بجے تک قید بھگتیں گے۔ تو عرض گزاری کہ حضور آج کل تو سورج ڈھلنے اور موسم کی شدت کو خاطر میں لاکر کچھ بچوں پر رحم کیا جانا چاہیے تو بڑے صاحب کا فون نمبر بتا دیا گیا۔

بڑے صاحب سے فون پر جھولوں کو قید میں رکھنے کی وجہ معلوم کی۔ تو عجیب بے تکا اور منطق سے خالی جواب ملا کہ بچے سکول جانے کی بجائے یہاں جھولوں پر آکر وقت گزارتے ہیں۔ تو عرض گزاری کہ حضور اوّل تو یہ بات آپ اپنے دائرہ اختیار سے باہر کی کررہے ہیں دوسرا آپ کیا چاہتے ہیں کہ بچے اگر سکول سے نکلیں تو وقت گزاری کسی پارک کی بجائے کسی شیشہ کلب میں یا کسی اور بُری جگہ گزاریں۔ جواب ندارد

تو ہمارے چھوٹے محافظ بھی اپنے حق کے لئے خم ٹھونک کر میدان میں آگئے۔ کہ ہم بچے تو تعلیم لینے کے بعد تفریح گاہ میں آئیں ہیں۔ ہم پر پابندی کیوں؟

اب چھوٹے محافظ سے سوال جواب کی آج ہماری باری ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).