جتھہ بردار وں کی سیاست


پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی سمیت شدت پسندی کے خاتمہ میں ایک بڑی رکاوٹ ملک میں موجود سیاسی، سماجی او رمذہبی بنیاد پر قائم جتھہ برداروں کی حکمرانی ہے۔ یہ جتھہ بردار کسی بھی وقت مختلف طبقات او راپنی قیادت کی حمایت کے بعد جتھہ برداروں کی صورت میں ریاست، حکومت یا اداروں کی حکمرانی یا ان کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں۔ ان کا یہ عمل پرتشدد سیاست او راس کے مزاج کو طاقت دینے یا اس کی حمایت کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ہم کیسے بطور معاشرہ یا ریاست وحکومت ان جتھہ برداروں سے نمٹیں تاکہ وہ لوگ نہ تو مختلف منفی اور شدت پسندی پر مبنی سرگرمیوں کی مدد سے ریاست کی رٹ کو چیلنج کرسکیں او رنہ ہی ایسے لوگوں یا گروہ کی کسی بھی سطح پر پزیرائی کی جائے۔ کیونکہ شدت پسندی کا علاج جہاں لوگوں کی فکری بنیادوں پر تربیت سے جڑا ہے وہیں ہمیں ریاستی و حکومتی رٹ کو بھی اس انداز سے مضبوط او رمربوط بنانا ہوگا۔

یہ سمجھنا ہوگا کہ ریاست او رحکومت کی رٹ کو کمزو رکرنا یا اسے مفلوج بنا کر سمجھوتوں یا ڈر او رخوف کی طرف مائل کرنا ایک کمزور ریاست عملی طور پر عکاسی کرتا ہے۔ جہاں ریاست او رحکومت کا حکمرانی کا نظام کمزور ہوگا یا وہ سیاسی، انتظامی اور قانونی بنیادوں پر سمجھوتے کریں گے تو اس کا عملی نتیجہ جتھہ برداروں کی طاقت کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ یہ جتھہ بردار کسی سیاسی تنہائی میں پیدا نہیں ہوتے بلکہ ان کے پیچھے ان کی اصل طاقت ہماری سیاسی و مذہبی جماعتیں اور ان کی قیادت سمیت معاشرے کے دیگر تنظیموں یا گروہ کی قیادت ہوتی ہے جو ”تشدد یا طاقت کے استعمال“ کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں یا تنظیموں میں ہمیں مسلح گروہ، انتہا پسند عناصر یا طاقت کا استعمال کرنے والے افراد بالادست نظر آتے ہیں۔

جتھہ برداروں کی سیاست کو طاقت پہنچانے میں ایک بڑی وجہ ریاست او رحکومت کی اپنی کمزوری یا سمجھوتوں کی سیاست ہے۔ کیونکہ قانون کسی بھی سطح پر کسی بھی جماعت، تنظیم یا گروہ کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنے اندر اس طرز کے گروہ پیدا کریں جو طاقت او راسلحہ کی بنیاد پر تشدد کے کلچر کو فروغ دیں یا ریاستی و حکومتی رٹ کو چیلنج کریں۔ اس میں دو سنگین نوعیت کے مسائل ہیں۔ اول ریاست ان طاقت ور یا مسلح تشدد پر مبنی گروہ سے خوف زدہ ہے او رخود کو کمزور محسوس کرتی ہے۔ دوئم خود ریاست او رحکومت کی سطح پر اپنے ذاتی یا سیاسی مفادات کے حصول کے لیے وہ خود ان جتھہ برداروں کی پس پردہ یا کھل کر حمایت کرتی ہے۔ اس تضاد کو ختم کرکے ہی ہم پرامن سیاست کو فروغ دے سکتے ہیں۔

کوئی بھی مہذب معاشرہ یا ذمہ دار ریاست کسی بھی شکل میں کسی بھی فرد یا تنظیم کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتی اور ان افراد کے خلاف قانون کی حکمرانی یا ریاستی و حکومتی رٹ کو بغیر کس سمجھوتے کے مضبوط بنا کر ان افراد کو کیفر کردار تک پہنچانا ہوگا۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ان جتھہ برداروں کی طاقت کی وجہ ان کے سرپرستوں کے ساتھ ساتھ ریاست ا ور حکومت کی اپنے داخلی مسائل بھی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ایسے افراد، تنظیموں یا جماعتوں جو جتھہ برداروں کی حمایت کرتی ہیں یا ان کی سرپرستی کرکے ان کے ہونے کا کوئی بھی جواز پیش کرتی ہیں ان پر پابندی لگانی ہوگی۔ مسئلہ محض مذہبی تنظیموں کا نہیں یہاں سیاسی، لسانی، علاقائی اور مختلف طبقات کی پروفیشنل تنظیموں میں بھی ایسے گروہ موجود ہیں جو ملک میں امن وآمان سے سمیت انتہا پسندی کے رجحانات کو فروغ دینے کا سبب بنتے ہیں۔

کسی بھی سیاسی، مذہبی اور سماجی یا پروفیشنل گروہ کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ چند سو لوگوں کو اکٹھا کرکے حملہ آور ہوجائیں یا کسی کی سیاست، مذہب، فرقہ، برادری، گروہ کی حیثیت کو چیلنج کریں یا ان پر ملک دشمنی، اسلام دشمن، ان کی مذہبی حیثیت پر سوالات اٹھا کر ان کو متنازعہ بنا کر پیش کیا جائے۔ وکلا، ڈاکٹرز، مزدور، کسان، طلبہ، نرسز، اساتذہ، کلرک سمیت تمام تنظیموں یا سیاسی جماعتوں کو سیاست کرنے یا اپنی تنظیموں کے مسائل پر بات کرنے اور عملی کام کرنے کی اجاذت آئینی اور سیاسی سطح پر ان کا بنیادی حق ہے او راس حق سے کوئی انکار بھی نہیں کرسکتا۔ لیکن یہ حق ان کو نہیں کہ وہ اپنی سیاست یا اپنے حق کے حصول کے لیے جتھہ کی صور ت میں طاقت کا استعمال کریں یا ریاست یا حکومت کی رٹ کو چیلنج کریں۔

ان جتھہ برداروں کی سیاست کو ختم کرنے یا کمزور کرنے کے لیے ہمیں چار سطحوں پر اپنی پالیسی کو سخت اور واضع بنا کر اس پر عملدرآمد کے عمل کو یقینی بنانا ہوگا۔ ریاست، حکومت او راداروں کی جانب سے کسی بھی صورت یا جواز میں ایسے گروہ کی حمایت نہ کرنا او ران کو قانونی شکنجے میں لانا اور ان کی کڑی نگرانی کرنا، دوئم سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی یا پروفیشنل تنظیموں کی جانب سے اپنا داخلی احتساب کرنا او رخود سے اپنے اندر سے ایسے لوگوں کو باہر نکالنا او رحمایت نہ کرنا، سوئم میڈیا کی سطح پر ایسے جتھہ برادروں کی کھل کر مخالفت کرنا اور ان سرپرستوں کو بے نقاب کرنا جو کسی بھی جواز کے ساتھ ان جتھہ برداروں کی حمایت کرتے ہیں، چہارم اجتجاج کی صورت میں تمام فریقین کی مشاورت سے اجتجاج کے لیے ایک ایسے قوائد و ضوابط یا کوڈ آف کنڈکٹ کو بنانا جو سب پر سختی سے لاگو کیا جائے۔ پنجم اہل دانش کی سطح پر ان جتھہ برداروں کی حمایت کرنے والے افراد یا اداروں کا کڑا احتساب اور خود کو ایک محدود سوچ اور خوف سے باہر نکل کر ایک نئی سوچ او رفکر کو آگے بڑھانا ہوگا، جو تشددکے خلاف ہو۔

بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں او رپروفیشنل تنظیمیں اپنے سیاسی کارکنوں یا تنظیمی افراد کی کوئی تربیت کا انتظام نہیں کرتیں اور نہ ان کو یہ آگاہی یا شعور دیتی ہیں کہ سیاسی و جمہوری حق کیا ہے او راس کے حصول کے لیے پرامن سیاسی و قانونی دائرہ کار کیا ہوتا ہے۔ ان میں عدم خود احتسابی کا نظام خود ایک بڑی رکاوٹ ہے جو جتھہ برداروں کی سیاست کو کمزو رکرسکے۔ یہ جوپرتشدد سیاست پر جواز پیدا کرنے کا رویہ ہے اس کی کسی بھی سطح پر حمایت نہیں کی جانی چاہیے۔ قانون کو بلاتفریق اپنا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور ثابت کرنا ہوگا کہ قانون ان جتھہ برداروں کے سامنے کمزور نہیں بلکہ اپنی طاقت رکھتا ہے۔ یہ جو ہمیں جتھہ برداروں کے سامنے لوگوں کی بے بسی یا خوف نظر آتا ہے اس کی وجہ بھی قومی سطح پر قانون کی حکمرانی کے فقدان کی ہے۔

اسی طرح اب وقت آگیا ہے کہ ہم سیاسی وجمہوری طور پر لوگوں کو اجتجاج کا حق دینے کے لیے ایک جگہ شہر میں مختص کریں اور لوگ اس دائرہ کار سے باہر نہ نکلیں او رنہ ہی اس کی اجازت ہونی چاہیے۔ جو لوگ اس دائرہ کار کو قبول کرنے سے انکاری ہوں ان کو اجتجاج کا حق بھی نہیں دینا چاہیے۔ سڑکیں بلاک کرنا، ٹائر جلانا، سرکاری وغیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا، ریاستی افراد کو یرغمال بنانا، تشدد کا استعمال، اسلحہ کی نمائش او راستعمال، خوف وہراس کا ماحول پیدا کرنا، لوگوں کو تشدد او بغاوت پر اکسانا، ریاست کو چیلنج کرنا اس کی کسی بھی سطح پر حوصلہ افزائی کرنا یا اس کی اجازت دینا کی کسی بھی سطح پر حمایت نہیں ہونی چاہیے۔ جو لوگ یہ کام کرتے ہیں ان کو اور ان کے سرپرستوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات بننے چاہیے۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم خود اپنے طرز عمل یا ایکشن سے جمہوریت، حق اور قانون کے نام پر اپنے لیے بھی او ر ملک کے لیے بھی ملک کے اندر سمیت عالمی دنیا میں بھی رسوائی پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔

نیشنل ایکشن پلان میں ہم نے بطور ریاست یہ طے کیا تھا کہ کسی بھی سطح پر کسی بھی جماعت، گروہ یا تنظیم کو جتھہ بردار یا تشدد پر مبنی سیاست کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس پر عملدرآمد کا نظام بہت کمزور اور کئی طرح کی سیاسی مصلحتیں موجود ہیں۔ ریاست او رحکومت کی کمزوریوں نے عملی طور پر ریاست او رمعاشرہ کو ان جتھہ برداروں کے ہاتھوں خود کو بھی او رمعاشرے کو بھی یرغمال بنادیا ہے۔ اب وقت ہے کہ قومی سطح پر تمام سیاسی، قانونی او رانتظامی بنیادوں پر کسی بھی طرز کے جتھہ برادروں کے خلاف نہ صرف علمی وفکری بنیادوں پر بلکہ انتظامی او رقانونی محاذ پر بھی سخت مزاحمت درکار ہے او ریہ عمل ایک پرامن معاشرے کی عکاسی کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).