آئین شکنی غداری نہیں ‌تو کیا ہے؟


آئین کیا ہوتا ہے؟ کسی بھی ملک کے انتظام و انصرام کے لیے طے اور عوامی نمائندوں کی جانب سے منظور کردہ محکم اصول وضوابط آئین کہلاتے ہیں جن سے روگردانی ملک مخالف عمل شمار کیا جاتا ہے، یوں ہر وہ شخص یا ادارہ جو ایسے کسی فعل کا مرتکب ہوگا وہ غدار وطن قرار پائے گا۔ مالی بدعنوانی کرنا کسی بھی آئین میں درج نہیں ہوا کرتا۔ ے یہ انتظامی بدنیتی پر محمول جرم ہے جس کو زیر تعزیر لائے جانے کی خاطر قوانین ہوتے ہیں۔

قانون شکنی آئین شکنی کے مترادف نہیں ہوا کرتی، اگر کوئی ایسا سوچتا ہے تو اس کے مطابق تو مرغی چرانا، جنسی بدفعلی کا مرتکب ہونا بھی کسی کو غدار قرار دیے جانے کے لیے کافی ہوگا جس کی سزا، اب تک بہت سے ملکوں بشمول پاکستان کے موت ہے، یوں جیلوں کی ضرورت ہی نہ رہتی، ہر مجرم کو چاہے وہ کسی بھی نوع کا جرم کرتا پھانسی دے دی جاتی۔

قوانین کا احترام کرنے والے مہذب و متمدن جمہوری ملکوں میں جہاں قوانین شکنی جرم ٹھہرتی ہے وہاں ام الجرائم ”آئین شکنی“ کا تصور محال ہے۔ اس کے برعکس برما، چلی، انگولا اور پاکستان جیسے ملکوں میں آئین کو بوٹوں تلے مسلنے کی ریت رہی ہے۔ ماضی میں ایک آمر تھے جو آئین کو ایک کتابچہ کہتے رہے، جسے وہ پھاڑ کر پھینک دینے کی بات کرتے تھے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ گیت گانے اور کتے بغل میں داب کر سگار پینے کو روشن خیالی کے طور پر پیش کرنے والے، موبائل فون ہینڈ سیٹس اور موٹر سائیکلوں کی بڑھتی تعداد کو ملک کی معاشی خوشحالی کا پیمانہ سمجھنے والے ایک اور آمر آئین کو چند صفحات قرار دیتے رہے جسے ان کے خیال میں ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جانا چاہیے۔ اس پر طرح یہ کہ ایسا کہنے والے یہ دونوں حضرات ملک پر قریب قریب دس دس برس حکومت بھی کرتے رہے۔

اب جب پہلی بار کسی کو آئین شکنی کی پاداش میں غداری کے جرم میں سزا ہوئی ہے تو اس پر فوج کی جانب سے باقاعدہ غم و غصے اور اضطراب کا اظہار کیا جانا بہر صورت نہ صرف یہ کہ مناسب نہیں بلکہ یہ عدلیہ کے فرائض میں مداخلت کے مترادف بھی ہے۔ عدلیہ جنرل پرویز مشرف کے جبر کا ستم سہہ چکی ہے اور وکلاء، سیاستدانوں و سیاسی کارکنوں کی مشترکہ جدوجہد سے عہدوں سے اتارے گئے ججوں کی بحالی بھی کسی کو نہیں بھولی۔

کچھ لوگ سابق آمر جنرل ریٹائرڈ پرویزمشرف کو خصوصی ٹریبیونل کی طرف سے پھانسی کی سزا سنائے جانے کو ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت سے بھی مماثل قرار دینے کی بچگانہ حرکت کر رہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو پر آئین شکنی کا مرتکب ہو کر ملک سے غداری کرنے کا الزام نہیں تھا بلکہ ایک شخص کو اوروں کے ہاتھوں قتل کیے جانے کا حکم دیے جانے کا الزام تھا یعنی ایک عام جرم۔ پھر یہ کہ اس میں فل ٹریبیونل تھا جس میں سزائے موت کے خلاف شروع میں چار اور اس فیصلے سے اختلاف کرنے والے تین جج تھے۔

جسٹس صفدر علی شاہ کو آمر کی جانب سے راستے سے ہٹائے جانے کی دھمکیاں دی گئیں تو وہ شریف انسان گدھے پہ سوار ہو کر افغانستان کے راستے ملک سے فرار ہوئے جن کی جگہ لائے جانے والے جج نے سزائے موت کے حق میں دستخط کرکے تعداد کی ترتیب بدل ڈالی تھی یعنی چار نے سزائے موت دی اور تین نے مخالفت کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو تو ”بدترین مثال“ بنائے جانے کی دھمکی ہنری کیسنجر دے چکے تھے اور آمر جنرل ضیاءالحق انہیں دار پر چڑھائے جانے پر تلا بیٹھا تھا۔

اس کے برعکس ایک آمر کے خلاف آئین شکنی کے جرم میں غداری کا مقدمہ ایک سول حکومت نے شروع کیا۔ اب اول تو وہ حکومت نہیں رہی، دوم اس حکومت کے وزیراعظم میاں نواز شریف بذات خود ایک عجیب و غریب الزام میں سزایافتہ ہیں اور بیماری کے باعث ملک سے باہر بھی۔ ان کے اکثر ساتھی معتوب ہیں۔ تیسرے یہ کہ اس فیصلے کی آمد کا ذکر نواز شریف کے باہر جانے کو عدالت کے سر مڑھے جانے کی نفی کرتے ہوئے ایک تقریب میں خطاب کے دوران تقریر کرتے ہوئے، چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے دونوں مکے بلند کرتے ہوئے کیا تھا۔ چوتھے یہ کہ اس میں ججز کا تناسب دو اور ایک کا ہے یعنی دو حق میں اور ایک مخالف۔ فل کورٹ کی صورت میں یہ چار دو ہوتا اگر ساتواں جج بھی مخالفت کرتا تو بھی تناسب چار تین کا ہی ہوتا بصورت دیگر پانچ دو کا۔

یہ تاویل بے حد بودی ہے کہ ملک کا صدر رہنے والا اور جنگیں لڑنے والا غدار نہیں ہو سکتا۔ اس نوع کی غداری کی مثالیں تاریخ میں کئی ملتی ہیں اور بقول ہمارے ایک دوست کے، کوئی جنرل چاہے مارشل ہی کیوں نہ ہو، چار جنگیں بھی کیوں نہ لڑ چکا ہو، دولاکھ انسانوں کی جانیں کیوں نہ بچا چکا ہو اگر آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حکومت پر قبضہ کرتا ہے تب بھی وہ غدار ہی شمار ہوگا۔ جنرل کرامویل کی مثال تو ہماری عدلیہ خود دے چکی ہے جو برطانیہ کا نام نہاد محب وطن سپاہی تھا۔

ظاپر ہے پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سامنے آنے والا یہ منفرد فیصلہ قابل عمل نہیں ہوگا کیونکہ ابھی ریٹائرڈ جرنیل پرویز مشرف کے خلاف کئی اور طرح کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔ پھر اپیل کاحق بھی حاصل ہے۔ اپیل نہ کیے جانے یا کیے جانے کے بعد سپریم کورٹ سے مسترد ہو جانے کی صورت میں بھی اگر بفرض محال جنرل مذکور کو انٹرپول کے ذریعے ملک واپس بھی لے آیا جاتا ہے تب بھی باقی مقدمات کی سماعت اور فیصلے آنے سے پہلے ان کو دی گئی سزائے موت پر عمل درآمد نہیں کیا جا سکتا تاہم یہ فیصلہ پاکستان کی تاریخ اور سیاست میں ایک اہم موڑ بہر طور ہے۔

ہم بیچارے سویلین فوج کو مشورہ دینے والے کون ہوتے ہیں مگر وطن کی فوج کو اپنی فوج سمجھتے ہوئے فوج کی اشرافیہ کو تلقین کیے جانے کا حق کسی سے نہیں چھینا جا سکتا اس لیے کہنا مناسب ہوگا کہ فوج عدالتی فیصلے میں مداخلت نہ کرکے اپنا وقار بحال رکھے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).