کریڈٹ ریٹنگ کیا ہوتی ہے؟


پچھلے دنوں سننے میں آیا کہ بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے پاکستان کا آوٹ لُک ”سٹیبل“ کر دیا ہے۔ اس خبر کو نہ صرف حکومتی حلقوں کی جانب سے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا، بلکہ ہمارے ذرائع ابلاغ نے بڑھ چڑھ کے اس پر ”مثبت رپورٹنگ“ کی اور پاکستان سٹاک ایکسچینج پر بھی اس کے بعد تیزی دیکھنے میں آئی۔ سوشل میڈیا پر کچھ صارفین نے جوش خطابت میں یہ تک کہہ دیا کہ موڈیز نے پچھلے ماہ انڈیا کا آوٹ لُک منفی کر دیا تھا، اس لیے پاکستان اب عالمی سرمایہ کاروں کے لیے انڈیا سے زیادہ پرکشش ملک بن گیا ہے۔

سابق وزیر خزانہ اسد عمر صاحب نے اسے معیشت کا استحکام قرار دے کر سابقہ حکومت پر تنقید بھی کر ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ ”نون لیگ کے 5 سالہ اقتدار کے بعد، تحریک انصاف کی حکومت سے 2 ماہ قبل 20 جون 2018 کو موڈیز نے پاکستانی معیشت سے“ مستحکم ”ہٹا کر“ منفی ”کا لیبل چسپاں کر دیا۔ ہماری حکومت کے 15 ماہ بعد موڈیز نے اسے“ منفی ”سے نکال کر“ مستحکم ”کے درجے میں شامل کر لیا۔ فیصلہ آپ کا! کس نے معیشت تباہ کی اورکون تعمیر کر رہا ہے۔ “

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی یہی ہوا جو کہا جا رہا ہے یا ”یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا کہ یوں ہو جائے“؟ ایک پاکستانی ہونے کے ناتے یہ دعا ہے کہ کاش حالات اس سے بھی بہتر ہوتے جتنے اچھے ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔ کریڈٹ ریٹنگ کے ایک طالب علم کے نقطہ نظر سے حقیقت مگر تھوڑی مختلف ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سچ کیا ہے۔ یہ جاننے کے لئے ہمیں سمجھنا پڑے گا کہ کریڈٹ ریٹنگ کیا ہوتی ہے، اس کی آوٹ لُک سے کیا مراد ہے، کریڈٹ ریٹنگ کسے درکار ہوتی ہے، کون کرتا ہے اور پیمائش کا پیمانہ کیا ہے، وغیرہ۔

کریڈٹ ریٹنگ کیا ہوتی ہے؟

کریڈٹ ریٹنگ آپ کی اپنے قرضے واپس کرنے کی صلاحیت اور نیت کا پیمانہ ہوتا ہے۔ اگر قرض دینے والوں کو لگتا ہے کہ آپ قرض کی قسطوں اور سود کی ادائیگی وقت پر کر سکتے ہیں تو ان کی نظر میں آپ کی کریڈٹ ریٹنگ اچھی ہو گی۔ اس سے یہ بات تو واضح ہو گئی کہ کریڈٹ ریٹنگ کسی ملک کی معیشت پر رائے نہیں ہوتی، اگرچہ معیشت کا حجم اور ترقی کی رفتار کسی ملک کی کریڈیٹ ریٹنگ میں ایک اہم فیکٹر ہوتا ہے۔

کریڈٹ ریٹنگ کسے درکار ہوتی ہے اور کون کرتا ہے؟

آپ کی کریڈٹ ریٹنگ انہیں چاہیے ہوتی ہے جن سے آپ قرضہ لینا چاہتے ہیں۔ اگر آپ کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر ہو گی تو قرض دینے والے اپنے سرمائے کے حوالے سے مطمئن ہوں گے اور آپ سے کم سود کا تقاضا کریں گے۔ اگر ریٹنگ بری ہے تو آپ کو قرض دینے میں کریڈٹ رِسک زیادہ ہے، اس لئے نسبتاً زیادہ سود کا تقاضا کیا جائے گا۔ ایک عام بینکنگ صارف کے معاملے میں بینک خود کریڈٹ ریٹنگ کر کے اس کے مطابق سود چارج کرتا ہے۔ لیکن ایک کمپنی یا ملک یا بڑی رقم کے قرض کی صورت میں یہ تقاضا کیا جاتا ہے کہ ریٹنگ کسی مستند کریڈٹ ریٹنگ کمپنی سے کرائی جائے جن کی رائے قرض دینے والے اور لینے والے دونوں سے بے نیاز اور غیر جانبدار ہو۔ اس سلسلے میں دنیا بھر میں مقامی اور بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں موجود ہیں جو فیس لے کر آپ کو کریڈٹ ریٹنگ کی خدمات فراہم کرتی ہیں۔ ان میں سٹینڈرڈ اینڈ پوورز، موڈیز انویسٹرز سروس اور فِچ سر فہرست ہیں۔

کریڈٹ ریٹنگ کا پیمانہ (ریٹنگ سکیل) کیا ہے؟

چونکہ مختلف ریٹنگ ایجنسیوں کے ہاں کریڈٹ ریٹنگ کا پیمانہ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ایک جیسا ہی ہوتا ہے، اس لئے ہم مثال کے طور پر موڈیز کے ریٹنگ سکیل کو سمجھ لیتے ہیں۔ موڈیز کے ریٹنگ سکیل پر اکیس درجے ہیں۔ سب سے اوپر والا درجہ AAA سب سے بہترین کریڈٹ ریٹنگ کو ظاہر کرتا ہے۔ جن ملکوں کی کریڈٹ ریٹنگ AAA ہوتی ہے ان کے لئے آسان ترین شرائط پر قرضہ لینا آسان ہوتا ہے۔ سب سے نچلا یعنی اکیسواں درجہ C یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ اپنے موجودہ قرض پر ڈیفالٹ کر چکے ہیں اور ریکوری کے امکانات بہت کم ہیں، آپ کو مزید قرض دینا اپنے پیسے ڈبونے کے مترادف ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان اس وقت اس سکیل میں سولہویں درجے B 3 پر ہے۔ پچھلے دس سال سے ہم کم و بیش اسی ریٹنگ کے حامل رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سابقہ دور میں مزید دو درجے کی تنزلی ہوئی مگر مسلم لیگ نواز کی حکومت میں ریٹنگ واپس B 3 پر آ گئی اور اب بھی وہیں موجود ہے۔ انڈیا اس سکیل میں نویں درجے پر ہے اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان کی کریڈٹ ریٹنگ ہم سے بہت بہتر ہے۔ B 3 کریڈٹ ریٹنگ کے حامل ہمارے ساتھی ملکوں میں انگولا، منگولیا، بوسنیا، جمیکا، بیلاروس اور اکواڈور وغیرہ شامل ہیں۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہماری کریڈٹ ریٹنگ وہیں کی وہیں ہے تو پھر اتنا شور کس بات پر تھا؟ یہ شور دراصل آؤٹ لُک کے تبدیل ہونے پر اٹھا ہے۔ آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کریڈٹ ریٹنگ کی آؤٹ لُک کیا ہوتی ہے۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ ہر کریڈٹ ریٹنگ کے ساتھ ساتھ ریٹنگ ایجنسی یہ بھی بتاتی ہے کہ اگر آپ کے حالات کی سمت یہی رہی تو مستقبل میں آپ کی کریڈٹ ریٹنگ ابھی سے کم ہو سکتی ہے، بہتر ہو سکتی ہے یا یہی رہنے کا امکان ہے۔

اسے بالترتیب نیگیٹو، پازیٹیو یا سٹیبل آؤٹ لُک کا نام دیا جاتا ہے۔ یہاں دو باتیں سمجھنا بہت ضروری ہے اور جن کی وجہ سے پچھلے دنوں ضرورت سے زیادہ مثبت رپورٹنگ ہو گئی۔ ایک یہ کہ یہاں آوٹ لُک سے مراد کریڈٹ ریٹنگ کی آوٹ لُک ہے، یہ آپ کی معیشت کی آؤٹ لُک نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ سٹیبل آوٹ لُک سے مراد آپ کی معیشت کا استحکام نہیں ہے۔ سٹیبل آوٹ لُک سے مراد، جیسا کہ پہلے عرض کیا، یہ ہے کہ حالات جس طرف جا رہے ہیں، اس میں آپ کی کریڈٹ ریٹنگ آگے بھی وہی رہنے کا امکان ہے جتنی ابھی ہے۔ لفظ سٹیبل یہاں استحکام سے زیادہ جمود کے معنوں میں مستعمل ہے۔

موڈیز کی جاری کردہ ہماری حالیہ کریڈٹ ریٹنگ کا صرف آوٹ لُک تبدیل کر کے نیگیٹو سے سٹیبل کیا گیا ہے۔ جون 2018 میں یہ آؤٹ لُک زر مبادلہ کے خطرناک حد تک گرتے ہوئے ذخائر کی وجہ سے نیگیٹو ہوا تھا جو حالات نسبتاً بہتر ہونے کی وجہ سے واپس سٹیبل پر آ گیا ہے اور کریڈٹ ریٹنگ B 3 سے مزید نیچے گرنے سے بچا لی گئی ہے۔ ویسے تو موڈیز کی پوری پریس ریلیز پڑھنے لائق ہے، لیکن اختصار کے پیش نظر درج ذیل دو پیراگراف توجہ کے طالب ہیں :

” 1۔ آؤٹ لُک کو (نیگیٹو سے ) سٹیبل میں تبدیل کر دیا گیا ہے کیونکہ موڈیز کو امید ہے کہ ادائیگیوں کا توازن مزید بہتر ہو گا اور اسے معاشی پالیسیوں میں بہتری اور کرنسی (کے اتار چڑھاؤ میں ) لچک سے مدد ملے گی۔ ایسی صورت حال میں بیرونی قرضوں کے مقابلے میں محدود زرمبادلہ سے پیدا ہونے والے خطرات کمزور پڑتے ہیں، اگرچہ زر مبادلہ کے ذخائر ابھی بھی کم ہیں اور انہیں مناسب سطح پر لانے کے لئے مزید وقت درکار ہے۔ علاوہ ازیں، اگرچہ کرنسی کی قدر میں کمی کی وجہ سے بڑھ جانے والے قرضوں سے معاشی حالات کمزور پڑے ہیں، تاہم حالیہ معاشی اصلاحات سے، جن میں آئی ایم ایف پروگرام کے ذریعے کی جانے والی اصلاحات بھی شامل ہیں، قرضوں کا بوجھ برداشت کرنے اور حکومتی اخراجات چلانے کی صلاحیت بہتر ہو گی۔

2۔ کریڈٹ ریٹنگ کو اس لئے B 3 پر رکھا گیا ہے (اور تبدیل نہیں کیا گیا) کیونکہ پاکستان کی معیشت (باقی B 3 ریٹنگ والے ممالک کی نسبت) بڑے حجم کی حامل ہے اور اس میں عرصہ دراز میں ترقی کرنے کا پوٹینشل موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آج کل چل رہی ادارہ جاتی اصلاحات سے پالیسیوں کی قدر اور افادیت میں اضافہ ہوگا، اگرچہ یہ سب ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ کریڈٹ ریٹنگ کو بہتر کرنے والے مندرجہ بالا عوامل کا اثر ان حقائق سے زائل ہو جاتا ہے کہ پاکستان کی معیشت (میں استحکام) اور بین الاقوامی منڈی میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت کو بنیادی رکاوٹوں کا سامنا ہے، حکومت کی ٹیکس اکٹھا کرنے کی صلاحیت کم ہے جس کی وجہ سے قرضوں کا بوجھ اٹھانا مشکل ہو جاتا ہے، معاشی حالات بظاہر کمزور ہی رہنے کا امکان ہے اور مزید یہ کہ ملک کو درپیش سیاسی مشکلات سے نمٹنے اور بیرونی قرضوں کو واپس کرنے کی صلاحیت ابھی بھی کمزور ہے۔ ”

امید ہے کہ اس بحث سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو سمجھنے میں مدد ملی ہو گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ موڈیز کی جاری کردہ ریٹنگ رپورٹ سے نئے قرضوں پر سود میں کچھ کمی آئے گی یا ہمارے قرض خواہ اسے خاطر خواہ اہمیت نہیں دیتے۔ بہرحال اچھے کی امید ہی رکھنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).