وزیرقانون یا اٹارنی جنرل عدالتی فیصلے پر اپنا فیصلہ نہیں دے سکتے: حامد خان


سینئر قانون دان حامد خان نے کہا ہے کہ وزیرقانون یا اٹارنی جنرل عدالتی فیصلے پر اپنا فیصلہ نہیں دے سکتے۔ جج کا کچھ جملے لکھنا اس کی ذہنی فٹنس یا مس کنڈکٹ کے ذمر ے میں نہیں آتا۔ اپیل سے پہلے جسٹس وقار احمد سیٹھ کے خلاف ریفرنس آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہو گی۔ انہوں نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ ایک شخص کے خلاف ہے۔

سارے معاملات قانون کے مطابق ہونے چاہئیں، یہ اداروں کے درمیان تصادم والی کوئی بات نہیں۔ اس بات پر 209 کے تحت کاروائی نہیں ہوسکتی کہ جج نے کوئی غلط فیصلہ دیا ہے۔ حکومت جسٹس وقار احمد سیٹھ کے خلاف ریفرنس نہیں بھیج سکتی کیونکہ ایسا کرنا آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہوگی۔ اسی طرح حکومتی ٹیم یہ فیصلہ نہیں کرسکتی کہ فیصلے کے کس حصے کے خلاف ریفرنس دائر کیا جائے؟ یہ سارا معاملہ اپیل میں جائے گا، اگر وہاں ایپلٹ کورٹ کوئی فیصلہ دیتی ہے، پھر ریفرنس دائر کرنے کو دیکھا جا سکتا ہے۔

یہ فیصلہ اس وقت تک موجود ہے جب تک اپیل میں نہیں جاتا اور اپیل میں بھی جب تک سپریم کورٹ اس حوالے سے فیصلہ نہیں دیتی تب تک آئین کی شق 209 سے رجوع نہیں کیا جا سکتا۔ 209 کے تحت کسی جج کے خلاف ذہنی مریض یا مس کنڈکٹ کے زمرے میں کاروائی ہوسکتی ہے۔ لہذا جس پیراگراف کی طرف حکومت نے اشارہ کیا ہے یہ نہ تو ذہنی فٹنس سے تعلق رکھتا ہے اور نہ ہی اس کو لکھنا مس کنڈکٹ کے ذمر ے میں آتا ہے۔

یہ دونوں معاملات ایپلٹ کورٹ کے دائرہ اختیار میں ہیں، حکومتی ٹیم کے تو اختیار میں ہی نہیں ہے۔ آپ ایک فیصلے کے اوپر فیصلہ نہیں دے سکتے۔ وزیرقانون یا اٹارنی جنرل عدالتی فیصلے پر اپنا فیصلہ صادر نہیں کرسکتے۔ اٹارنی جنرل کا پریس کانفرنس کرنا ہی غیرآئینی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف سابق آرمی چیف کے ساتھ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ بھی ہیں، اس لیے وہ آئیں اور اپیل دائر کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).