فوج کے سیاسی کردار سے بیزاری بڑھ رہی ہے


آج تک ایک مرتبہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ فوج کے سماجی و سیاسی کردار سے جڑے ہوئے معاملات پر بات کی ہو تو کسی دوست نے بھلے مذاقا ”ویگو ڈالے“ والا جملہ نہ کسا ہو۔ جب ایسے اظہارئیے، عام معاشرت میں در آئیں، تو معاشرے بھلے مہذب نہ بھی ہوں، مگر مہذب ادارے اور ان کے فیصلہ ساز بہرحال سرجوڑ بیٹھتے ہیں کہ کرنا کیا ہے۔ ادارے، بھلے وہ بلدیہ ملکوال کا محکمہ صفائی ہو، یا جی ایچ کیو ہو، انہیں اپنے اپنے حجم اور مینڈیٹ کے مطابق، اپنی مقامی یا قومی معاشرت میں ہی زندہ رہنا ہوتا ہے۔ بہتر یہی رہتا ہے کہ معاشرت سے عزت اور وقار وصول کرتے ہوئے ہی زندہ رہا جائے۔

میرے اپنے حلقہ اثر میں جو دو چار فوجی دوست موجود ہیں، ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو اپنے ادارے کی تاریخی سماجی یا سیاسی مداخلتوں پر کوئی سنجیدہ غور کرتا ہو۔ بلکہ وہ ہر بار جواز ڈھونڈ لاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اپنے ان رشتہ داروں اور دوستوں کے گھر بھی جانا ترک کر دیا ہوا ہے کہ جن کا کوئی پیارا فوج میں ملازم پیشہ ہے کہ لامحالہ سیاسی گفتگو ہوتی ہے اور پھر وہی، بقول علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال صاحب، یئیں یئیں شروع ہو جاتی ہے۔ لطف کی بات تو یہ ہے کہ یہ سارے کے سارے جناب عمران نیازی صاحب کے سپورٹرز بھی ہیں ؛ ویسے کیا یہ محض اتفاق ہے؟

سکندر مرزا، ایوب خان، یحی خان، ضیاءالحق، مشرف اور اب باجوہ صاحب کے علاوہ، ان کے درمیان آنے اور رہنے والے درجنوں دیگر اعلیٰ فوجی اہلکاروں کے حوالے سے پاکستان کے سماج، معاشرت اور سیاست میں درجنوں کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ پاکستان، اپنی سماجی بنت میں بھلے اک قدامت پسند معاشرہ ہو، مگر اس میں اب فوج کے سیاست میں حصہ لینے کے حوالے سے مخالفت کا اک خاص رویہ، میرے خیال میں، بنتا چلا جا رہا ہے اور اس رویے کا اظہار سامنے آ کر سیدھی بات کرنے سے نہیں، بلکہ طنز، مزاح اور ہاسے مخول کے آرگیومنٹس میں کر دیا جاتا ہے۔ خیال ہے کہ اگر سیاست اور معاشرت کے حوالے سے ”ہم بمقابلہ تم“ والا اک امیج اور رویے کی اصلاح نہ ہوئی تو ہاسے مخول میں اظہار سے بات آگے غصے پر بھی جا سکتی ہے۔

مجھے یاد ہے کہ جنرل مشرف کی ایمرجنسی پلس کے دنوں میں، چکوال کے وکلاء نے اسلام آباد کی شاہراہ دستور میں اک بینر اٹھا رکھا تھا جس پر درج تھا: اے وطن کے سجیلو جنرلو، سارے رقبے تمھارے لیے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ عوامی مقام شاید اب وہی 2007 والا محسوس ہوتا ہے۔ تب میں 35 برس کا تھا، اور ساری عمر ایسا پڑھنے کا نہ تو اتفاق تھا، اور نہ ہی کبھی کوئی امید تھی۔ مگر یہ ہوا۔

اب صورتحال یہ ہے کہ جناب جنرل مشرف صاحب کی حمایت میں فوج کا بطور اک ادارہ کھل کر سامنے آجانا، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اک بھدا واقعہ کہلوائے گا۔

جمع تفریق تو یہ ہے کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے علاوہ، بلوچ ووٹرز جناب مشرف صاحب کو کسی طور بھی اپنا ہیرو تصور نہیں کرتے اور ملا جلا کر اور رو پیٹ کر یہ تعداد کوئی سوا دوکروڑ ووٹرز کی تو بن جاتی ہے۔ ان سوا دوکروڑ ووٹرز کے علاوہ بھی بہت سارے، کم از کم اربن اور ٹاؤن سنٹرز میں رہنے والے پاکستانیوں کی اک مناسب تعداد تو ایسی ہے جو فوج کے اس طرح سیاسی عمل میں ”تُخنے“ دینے کی روایت سے اب شاید برگشتہ اور بددل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

اور میرے خیال میں پاکستان کی پیادہ فوج کے ارباب اختیار کو اس پر اپنا رویہ اور امیج بہرحال درست کرنے کی ضرورت ہے۔ درستی کی سمت میں کوشش اور اس سے انکار پر، بہرحال نقصان پاکستان اور اس کے شہریوں کا ہی ہے۔ ارباب اختیار تو بہرحال پنشن پر اور کچھ تو ملک سے ہمیشہ کے لیے باہر چلے جاتے ہیں، شہریوں کی اونرشپ، اور مجبوری، دونوں وہیں کی وہیں قائم رہتی ہیں۔

میرے اس سٹانس پر اعتراض بھلے کیجیے، مگر اسی سانس میں ذرا ائیر چیف اور نیول چیف کے علاوہ، اپنے صوبائی انسپیکٹر جنرل پولیس کا نام تو بتا دیجیے؟ ان احباب کی بھی وطن و معاشرت کے لیے بہت خدمات ہوتی ہیں۔

ممکن ہے کہ میرا یہ سارا تحریر کردہ صرف میرے تخیل کی ہی پرواز ہو، مگر اک شخص جس نے 1977 کے مارشل لاء سے پرسوں تک کی پریس ریلیز کے مناظر دیکھ چکے ہوں، اس کے مشاہدات کا شاید کچھ تو وزن ہو گا۔

بحثیت اک پاکستان، یہ میری ذات کا درد دل ہے۔ وطن، اس کے لوگوں اور اداروں سے محبت ہے تو کچھ درد شئیر کیے ہیں۔ اور بس۔

پس تحریر: میں چونکہ اک بزدل اور خوفزدہ شخص ہوں تو اگر ان گزارشات اور یہ مضمون پڑھنے والے کسی بھی این سی او، جے سی او، سی او اور ادارے سے جڑے کسی بھی محکمہ کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں ان سے ہاتھ جوڑ کر دل کی گہرائیوں سے گڑگڑا کر معافی مانگتا ہوں۔ اور واللہ کہ واقعتا معافی مانگتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments