ایک فیصلہ ہی باوقار بنا دیتا ہے


بارہ جون انیس سو پچھتر کو ہندوستان کے ایک شہری راج نارائن نے آلہ آباد ہائی کورٹ میں راج نارائن بنام ریاست اتر پردیش کے نام سے ایک رٹ دائر کردی اور اپنی رٹ میں اندرا گاندھی کی انتخابی جیت پر اعتراض اُٹھایا کہ یہ انتخابی کامیابی دھاندلی کے ذریعے وجود میں آئی ہے اس لئے ماضی قریب میں ہوئے الیکشن کو کالعدم قرار دیا جائے۔

آلہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس جگموھن لال سنہا نے اس کیس کو سنا اور فیصلے میں وزیراعظم اندرا گاندھی کو مجرم ٹھرا کر چھ سال تک اس پر سرکاری عہدہ لینے اور الیکشن لڑنے کی پابندی لگا دی، اندراگاندھی حکومت نے فورًا اس حکم کے خلاف ایپکس کورٹ میں سٹے لے لیا اور سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل بھی کردی لیکن کانگرس اور اندراگاندھی دونوں کو در پیش مشکلات کا اندازہ ہو چکا تھا۔

اس لئے چند دن بعد وزیراعظم اندراگاندھی نے آئین کے آرٹیکل 352 کے شق 1 کے تحت ہندوستان کے صدر جمہوریہ فخرالدین علی احمد کے ذریعے ستائیس جون اُنیس سو پچھتر کو پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی اور بہانہ یہ بنایا کہ 1971 میں پاکستان کے ساتھ جنگ اور 72 میں قحط کی صورتحال کی وجہ بسے ملکی معیشت خراب ہو چکی ہے اور اسے صحیح سمت پر ڈالنے کے لئے ایمرجنسی کا نفاذ اور بنیادی حقوق کی معطلی ضروری ہے لیکن در اصل اس کی آڑ میں مخالف جماعتوں اور اپوزیشن لیڈروں پر کریک ڈاؤن شروع ہوگیا اور بنیادی حقوق کی معطلی کی وجہ سے بغیرکسی ٹرائل کے واجپائی، مرار جی ڈیسائی جے پرکاش نارائن اور ایل کے ایڈوانی جیسے اہم سیاسی لیڈروں سمیت ہزاروں مخالف سیاسی کارکن جیلوں میں ٹھونس دیے گئے۔

اندراگاندھی کے اس سیاسی جبر کے خلاف قیدیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بنیادی حقوق کے حصول کے لئے مختلف عدالتوں میں پیٹیشنز دائر کیے جس پر کئی عدالتوں نے قیدیوں کے حق میں فیصلے دینے شروع کئیے تو حکومت نے اس کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کردی۔

اس کیس کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جبل پور بنام شفکان شکلا کے نام سے شہرت ملی۔

اس تاریخی مقدمے کو پانچ ججز نے سننا شروع کیا تو نہ صرف ہندوستان بلکہ عالمی میڈیا کی نگاہیں بھی اس اھم ترین کیس پر جم گئیں کیونکہ بنیادی حقوق کی معطلی اور ایمرجنسی کے نفاذ کی وجہ سے پورا ملک خوف اور دہشت کی لپیٹ میں تھا اور عدالتوں میں بیٹھے منصفوں کے اعصاب بھی جواب دے گئے تھے اس لئے حالات کے نبض شناسوں کو وہی توقع تھی جو ہمارے ہاں ثاقب نثار کے دور میں ثاقب نثاروں سے ہوا کرتی تھیں۔

اس لئے جب کچھ عرصہ بعد ہندستانی تاریخ کے اس مشہور مقدمے کا فیصلہ آیا تو پانچ میں سے چار ججز ثاقب نثار جیسے ثابت ہوئے اور بنیادی حقوق کی معطلی اور ایمرجنسی کو جائز ٹھرایا لیکن ایک جج وقار احمد سیٹھ ثابت ہوا اور ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف انتہائی سخت لیکن دلیر اختلافی فیصلہ لکھا اس جج کا نام جسٹس ہنس راج کھنّہ تھا اس نے اپنے فیصلے میں یہاں تک لکھا کہ ایمرجنسی قانون کا نفاذ کرنے والا نہ صرف فاتر ا لعقل بلکہ انسانیت سے بھی عاری ہے کیونکہ یہ حق اسے کون دیتا ہے کہ وہ انسانوں کے بنیادی حقوق کو معطل کرتا پھرے اور اگر وہ ایسا کرے تو وہ ایک حیوان سے بھی بدتر ہے۔

اس فیصلے میں باقی تمام ججز اس کے خلاف تھے اس لئے وہ اپنے ضمیر کی آواز کو قانون تو نہ بنا سکا لیکن اس کے کردار نے مستقبل کے عدالتی تاریخ پر انتہائی مثبت اثرات ڈالے۔ اور پھر وہ دن اور آج کا دن نہ کبھی ایمرجنسی کا قانون لاگو ہوا نہ ہی ریاست آئین کے راستے کی دیوار بنا۔

جسٹس ہنس راج کھنّہ جب تک منصف کی کرسی پر بیٹھے رہے اس وقت تک کوئی جابر اور طاقتور آرام کی نیند نہ سوسکا اس لئے جب وہ چیف جسٹس بننے کے لئے سب سے سینئر جج کی حیثیت سے سامنے آئے تو غیر متوقع طور پر اچانک اس سے جونیئر جج جسٹس ایم ایچ بیگ کو اس پر فوقیت دے کر چیف جسٹس بنا دیا گیا تو صرف پندرہ منٹ بعد اس انتہائی اصول پسند جج جسٹس ہنس راج کھنہ نے اپنا استعفٰی اپنے ٹیبل پر چھوڑا اور خاموشی کے ساتھ گھر چلے گئے۔

وکلاء کو خبر ہوئی تو اسی دن پورے ہندوستان میں بار کونسلز نے سخت احتجاج شروع کیا لیکن ریاست کسی طور دوبارہ جسٹس کھنہ کا سامنا کرنے کو تیار نہ تھی تاہم اس احتجاج نے اس عظیم جج کو ایک دیوتائی عقیدت فراہم کر دی۔

اس لئے جب سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن نے اُنیس سو اٹہتر میں جسٹس ہنس راج کھنہ کا مجسمہ نصب کرنے کے لئے دس ہزار روپے چندے کی اپیل کی تو صرف بیس منٹ میں اس سے کئی گنا زیادہ رقم جمع ہوئی یہاں تک کہ بار ایسوسی ایشن کے صدر کو چندہ روکنے کی اپیل کرنا پڑی۔

انہی دنوں نیو یارک ٹائمز نے لکھا کہ ہندوستان جب اپنے ہیروز کو خراج تحسین پیش کرنے کا سلیقہ سیکھ لے گا تو ہر گلی میں جسٹس ہنس راج کھنہ کا مجسمہ نظر آئے گا۔

مشہور لکھاری نانے پھلکے والا نے اپنی کتاب ”سیلوٹ ٹو کھنہ“ میں لکھا کہ جہاں خوف مکمل طور پر مفقود ہو اور انصاف کی فراوانی ہو تو سمجھ لیں کہ جسٹس ہنس راج کھنہ کہیں آس پاس ہیں۔

ریاست کی سرکش طاقت پر ہمیشہ ہاتھ ڈالنے اور اسے اپنا دشمن بنانے والے جسٹس کھنہ کے سامنے آخر کار وہی ریاست بھی جھکی اور انیس سو ننانوے میں اسے پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا۔

طاقت کے سامنے ڈرنے اور جھکنے سے ایک جج اگر ارشاد حسن خان اور ثاقب نثار جیسا بہروپیا بن کر اپنی آئندہ نسلوں کے لئے ایک طعنہ بن سکتا ہے تو حق و انصاف کے لئے ڈٹ کر جسٹس کک، جسٹس رستم کیانی، جسٹس اے آر کار نیلئس، جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس ہنس راج کھنہ کی طرح تاریخ کا قابل فخر حوالہ بھی بن سکتے ہیں۔

اس تابندہ تاریخ اور شاندار روایت کو لے کر آج کل جسٹس وقار احمد سیٹھ نے اس وادی پرخار کا رخ کیا جس سمت قدم اُٹھانے کے لئے بھی ایک جگرا چاہیے تبھی تو اپنے ایک فیصلے کے ذریعے انھوں نے فارسی مقولے کے مصداق آسمانوں کے اس گنبد تلے ایک غلغلہ برپا کر دیا ہے۔ اللہ ان کا حامی و ناصر ہو

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).