عدلیہ نے اپنا فرض ادا کیا ہے


حالیہ دنوں میں عدالتوں نے دو مقدمات کے فیصلے سنائے جو ماضی کی غلطیوں کے مداوے کی کوشش کے ساتھ ساتھ ملکی مستقبل کے لیے خوش آئند اور وسیع تر اثرات کے حامل ہو سکتے ہیں۔ پہلے بات کرتے ہیں آئین شکنی و سنگین غداری کے مقدمے کی۔ جس کی سماعت کرتے ہوئے خصوصی عدالت نے ملزم پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کا حکم سنایا۔ اس مقدمے کی بنیاد نومبر دو ہزار سات میں آئین کی معطلی اور ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ تھا اور ملکی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جس میں کسی ملٹری ڈکٹیٹر کو آئین شکنی کے جرم میں سزا سنائی گئی۔

یہ فیصلہ سامنے آنے کے فورا بعد سوشل میڈیا کے ذریعے ایسا تاثر پیدا کرنے کی کوشش شروع کر دی گئی کہ وہ شخص جس کی ”ملک کے لیے طویل خدمات ہیں اور جس نے مادر وطن کے دفاع کے لیے تین جنگیں لڑیں“ اسے فیئر ٹرائل کا حق دیے بغیر کسی ایجنڈے کے تحت سزا سنادی گئی۔ بعدازاں اس فیصلے پر پاک فوج کا ردعمل بھی سامنے آ گیا جس میں کہا گیا کہ خصوصی عدالت کے اس فیصلے پر افواج پاکستان میں سخت غم و غصہ اور اضطراب ہے۔ آئینی و قانونی تقاضے پورے اور جنرل مشرف کو دفاع کا حق فراہم کیے بغیر عدالتی کارروائی شخصی بنیاد پر چلائی گئی اور کیس عجلت میں نمٹا دیا گیا۔ افواج پاکستان توقع کرتی ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کو آئین کے تحت انصاف دیا جائے گا۔

اس بات سے اختلاف نہیں کہ آئین کا آرٹیکل 10 ہر شہری کو منصفانہ ٹرائل کا حق دیتا ہے لہذا پرویز مشرف کو بھی یہ حق ملنا چاہیے۔ تاہم یہ تاثر دینا غلط ہے کہ ملزم پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ درج ہوتے ہی فورا فرد جرم عائد کر دی گئی۔ پانچ سال سے زائد عرصہ یہ مقدمہ چلتا رہا اور اس دورانیے میں خصوصی عدالت کی طرف سے پرویز مشرف کو پیش ہونے کے متعدد مواقع دیے گئے۔ لیکن وہ جان بوجھ کر اپنی صفائی میں بیان دینے کے لیے عدالت میں پیش نہ ہوئے۔

اب بھی پرویز مشرف کے پاس اس فیصلے کے خلاف اپیل کا حق موجود ہے۔ وہ اگر سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا یا مقدمے میں کوئی قانونی سقم رہ گیا ہے تو انا کا مسئلہ بنانے اور کسی ریاستی ادارے کی آڑ لینے کے بجائے عدالت میں اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔ یہ کہنا بالکل غیر ضروری ہے کہ فوج میں چالیس سال خدمات انجام دینے والے شخص کو غدار نہیں کہا جا سکتا کیونکہ فوج ہی سے تعلق رکھنے والے بڑے عہدوں پر فائز افسران کے کورٹ مارشل اور انہیں سخت سزائیں ملنے کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔

جنرل مشرف کو سزا بھی ان کے غیر قانونی اقدامات پر ملی ہے۔ ویسے بھی کوئی بھی شخص خواہ اس کی خدمات کی فہرست کتنی طویل کیوں نہ ہو وہ قانون سے بالاتر نہیں ہو سکتا۔ ماضی میں ہمارے ملک میں عدالتی حکم کی تعمیل میں ایک وزیراعظم موت کی سزا پاچکے ہیں اور دو وزرائے اعظم کو عہدوں سے برطرف کیا جا چکا ہے۔ تاہم اس کیس کے تفصیلی میں جسٹس سیٹھ وقار نے ملزم کی لاش کو ڈی چوک پر لٹکانے کی جو آبزرویشن دی ہے وہ نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ غیر اسلامی بھی۔ لیکن سپریم کورٹ بار کے سابق صدر کامران مرتضی صاحب اور دیگر بہت سے سینئر وکلاء سے تفصیلا بات کرنے کے بعد مجھے جہاں تک بات سمجھ آئی، اس کیس کی مجموعی صحت پر یہ آبزرویشن ہرگز اثر انداز نہیں ہوتی۔

یہ بات بہرحال یقین سے کہی جا سکتی کہ اس سزا پر عملدرآمد کی نوبت کبھی نہیں آئے گی۔ اس گمان کی وجہ یہ ہے کہ قانون کا اطلاق طاقتور طبقات پر کبھی نہیں ہو سکا۔ اسی تاثر کے سبب ہمارے ہاں عوام کا نظام عدل پر یقین متزلزل رہا جس کا اثر ریاست اور عوام کے سوشل کنٹریکٹ پر پڑتا رہا اور ریاست کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ لہذا علامتی طور پر ہی سہی لیکن نظام عدل کی افادیت پر یقین مستحکم کرنے کے لیے اس فیصلے کو برقرار رکھنے اور مستقبل میں ایسی کسی ”آزمائش“ سے بچنے کی خاطر سپریم کورٹ کے آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق جاری ہوئے فیصلے پر بھی کماحقہ عمل نہایت ضروری یے۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں جسٹس منصور علی شاہ کے ہاتھ سے لکھا ہوا فیصلہ بہت اہم ہے۔ اس فیصلے کے مطابق وزیراعظم یا حکومت آرمی چیف کو توسیع نہیں دے سکتے تھے کیونکہ اس کی گنجائش آئین، قانون اور آرمی ایکٹ میں بالکل موجود نہیں۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اگر حکومت آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کی خواہشمند ہے تو مقررہ مدت میں اس بارے قانون سازی کرنا ہو گی ورنہ موجودہ چیف کو دی گئی چھ ماہ کی مہلت ختم ہونے کے بعد نیا آرمی چیف مقرر کرنا پڑے گا۔

اس سے ثابت ہوا کہ اس غرض سے جو بھی سمریاں بنائی گئیں اور سپریم کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت کے دوران جتنے موقف بدلے گئی وہ لایعنی ہیں۔ ہمارے ملک کی تاریخ کے تناظر میں آرمی چیف کی ملازمت کے بارے قانون میں موجود ابہام کا خاتمہ نہایت ضروری تھا کیونکہ اس مخصوص تاریخ کے پس منظر میں یہ منصب بہت طاقتور اور وسیع تر کردار کا حامل ہے جس کا اشارہ اس تفصیلی فیصلے میں بھی دیا گیا۔ دنیا میں یہ روایت زیادہ نظر نہیں آتی کہ کسی ادارے کے سربراہ کو اپنی مدت پوری ہونے پر مزید توسیع مل جائے۔ ہمارے پڑوس انڈیا میں آرمی چیف اپنی مدت پوری کرنے کے بعد خاموشی سے گھر روانہ ہوتے ہیں اور اس کی جگہ کوئی دوسرا جرنیل سنبھال لیتا ہے۔

لیکن ہمارے ہاں تو ماضی میں بہت سے چیفس خود بھی اپنے آپ کو توسیع دیتے رہے۔ اس طرز عمل سے جہاں دوسرے لوگوں کی حق تلفی ہوتی رہی وہیں جمہوریت پر بھی اس کے بہت برے اثرات پڑے۔ فوج نہایت منظم ادارہ ہے اور یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ شخصیات کے آنے جانے سے اس کی کارکردگی پر فرق پڑ سکتا ہے۔ آرمی چیف کے نیچے موجود تمام سینئر جرنیل ایک کڑی تربیت سے گزر کر ہی آتے ہیں اور ان میں کوئی بھی مسلح افواج کی سنبھال سکتا ہے۔

یہ بھی دیکھا گیا جنرل ضیاءالحق کے دور میں نان اسٹیٹ ایکٹرز سے متعلق پالیسی کچھ رہی اور جنرل مشرف کے دور میں پالیسی اس کے بالکل الٹ ہو گئی جس کے خمیازے میں ریاست کو بہت بھاری قیمت چکانا پڑی۔ لہذا اگر اس عہدے کی مدت واضح ہو جائے اور سینئر موسٹ جرنیل اپنے پیشرو کی ریٹائرمنٹ کے بعد ازخود ادارے کی کمان سنبھال لے تو بطور ادارہ پالیسی میں تسلسل بھی آ سکتا ہے۔ اس قانون سازی سے جہاں آئندہ کسی کے لیے اپنے آپ کو توسیع دینا مشکل ہو جائے گا وہیں سول حکومتوں کا درد سر بھی ختم ہو سکتا ہے اور جمہوریت کے لیے بھی وہ خطرات دوبارہ پیدا نہیں ہوں گے جیسے پچھلے دور حکومت میں ہوئے۔

ہماری تاریخ میں جتنے بھی غیر آئینی اقدامات ہوئے کچھ لوگ اس کی ذمہ داری تنہا ”نظریہ ضرورت“ پر ڈالتے رہے حالانکہ پارلیمنٹ بھی اس میں برابر کی شریک رہی۔ عدالت کا کام ہے آئین و قانون کی درست تشریح۔ عدالت نے اب اپنا یہ فرض پورا کر دیا۔ قانون سازی پارلیمنٹ کا کام ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پارلیمنٹ اپنا فرض ملکی و قومی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے دیانتداری سے پورا کرے گی یا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).