ملائشیا سمٹ۔ عمران خان کی شرکت پر عالمی سازش


وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ملائشیا میں کوالالمپور سمٹ میں شرکت کرنے سے انکار کیا جس سے بہت سے خدشات نے جنم لیا۔ بلاشبہ عمران خان نے ملکی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا لیکن اسے تاریخ کا سب سے بڑا ”یوٹرن“ اگر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یوٹرن کیسے؟ اس کے لیے تھوڑا سا پیچھے جانا ہوگا۔

وزیراعظم عمران خان نے رواں سال ”اؤ آئی سی“ کے اجلاس میں شرکت کی اور اس اجلاس میں نہ صرف اسلام بلکہ او آئی سی کے مقصد کو بھی اجاگر کیا اور سوئے ہوئے لیڈروں کو جگانے کی کوشش کی۔ عمران خان کی اس کاوش کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں سراہا گیا۔ اس کے بعد یو این کے سالانہ اجلاس میں عمران خان کی دھواں دار تقریر نے جہاں ہر پاکستانی کے دل جیتے وہیں اسلام دشمن طاقتیں بھی الرٹ ہوگئیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ عمران خان نے ترکی، ملائشیا اور پاکستان کے تعاون سے مل کر انگلش اسلامی ٹی وی چینل لانچ کرنے کا بھی اعلان کردیا جس نے اسلام دشمن طاقتوں کے زخموں پر نمک کا کام کیا۔

پاکستان کی اکانومی کو سہارا دینے کے لیے سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک نے جتنا ساتھ دیا وہ اس پر داد کے حقدار ہیں لیکن سعودیہ عرب کے پریشر میں آکر سمٹ میں جانے سے انکار کرنا اور وہ بھی اس وقت جب سب تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں اور عمران خان کے اشتہارات بھی اخباروں میں دیے جاچکے تھے کہ وہ شرکت کررہے ہیں قابل افسوس ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا ہوا کیوں؟ کیوں عمران خان کو سمٹ میں جانے سے منع کیا گیا۔ اس کے لیے بھی پھر سے ماضی میں جانا پڑے گا۔

انگریز دور میں انگریزوں نے سرخ جھنڈوں کے خوف سے ہندوستان کے ٹکڑے کرنے کا فیصلہ کیا اور دو قومی نظریے کا لولی پاپ دیا۔ اس لولی پاپ کے پیچھے روس کی بڑھتی مقبولیت تھی جس نے امریکہ سمیت سب کے ہوش ٹھکانے لگا رکھے تھے کہ ایک وقت ایسا بھی آسکتا ہے جس کی وجہ سے یہ پوری دنیا (یورپ کو بھی) کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اس کے لیے فیصلہ یہ ہوا کہ کیوں نہ روس کا راستہ روکنے کے لیے زمین کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تبدیل کردیا جائے اور سب سے فائدہ مند ریاست ”پاکستان“ تھی۔

پاکستان کا کردار ایک ”کُشن“ کی سی حیثیت کا تھا۔ سوچا یہ کہ چھوٹی ریاستوں کی اپنی حدود ہوں گی اپنی آرمی ہوگی اور کراس کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجائے گا۔ اس کے لیے پاکستان کو استعمال کیا گیا۔ روس کے ٹکڑے کرنے کے لیے بھی پاکستان سے کام لیا گیا۔ جب تک پاکستان فائدہ دیتا رہا اس کی ترقی اور ہر ضرورت پوری کی گئی۔ اب مغرب کو پاکستان کی ضرورت نہیں ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی۔ آج بھی اگر پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے مسلمانوں کی تعداد کو اکٹھا کیا جائے تو وہ باقی مذاہب جن میں ہندو، سکھ اور دوسرے مذہب کے لوگ ہیں ان سے زیادہ ہیں اور ہندوستان پر آج بھی قبضہ مسلمانوں کا ہی ہوتا لیکن اسے بڑی چالاکی سے توڑا گیا اور اپنے مفاد کے لیے آج تک استعمال کیا جانے گا۔

پوری دنیا میں اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے انگریز کے چھکے چھڑا رکھے ہیں۔ او آئی سی کو جگانا، یو این میں تقریر کرنا، ٹی وی چینل کو لانچ کرنا یہ بات امریکہ اور اسلام دشمن کو ہضم نہیں ہوئی اور انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس کو کیسے روکا جائے؟ جس کے لیے انہوں نے سعودی عرب کو استعمال کیا کیونکہ او آئی سی کی اجارہ داری اور ٹھیکہ سعودی عرب کے پاس ہے۔ آج کل کے دور میں جہاں سعودیہ نے اپنے سمندر کی حفاظت امریکن نیوی کے حوالے کی وہاں یہ کیسے ممکن تھا کہ پاکستان ترکی، ملائشیا، ایران کے ساتھ مل کر ایک ایسے بلاک کا حصہ بنتا جو دنیا میں اسلامی ممالک میں پیدا ہونے والے مسائل کے حل کی تجاویز پر غور کرتا۔ امریکہ نے سعودی عرب پر پریشر ڈالا اور وہی پریشر سعودیہ نے پاکستان پر ڈال دیا اور پاکستان اس پریشر میں آگیا جس کی وجہ سے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان سمٹ میں شرکت نہ کرسکے۔

پاکستان کو اب مزید کشن نہیں بننا چاہیے۔ ملائشیا سمٹ جواز اس لیے پیدا ہوا کہ او آئی سی اپنے فرائض بھول چکی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جہاں او آئی سی میں 57 ممالک ممبرز ہیں وہاں یہ 4 ممالک (پاکستان، ملائشیا، ایران، لبنان) کیا کرلیتے؟ لیکن اسلام دشمن طاقتوں کو یہ بھی قابل قبول نہیں تھا جس کی وجہ سے انہوں نے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا اور وہ زور صرف ایک ملک پر چلا جس کا نام پاکستان ہے۔ او آئی سی نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ ملائشیا سمٹ کو روکا جائے لیکن اسلام کے اصل محافظ مہاتیر محمد اور طیب اردوان کی جرأت کو سلام کرنا ہوگا جنہوں نے پوری دنیا کا پریشر اپنے جوتے کی نوک پر رکھا اور سمٹ کو کامیاب کیا اور پوری دنیا کے ساتھ او آئی سی کو بھی یہ پیغام دیا کہ انہیں اب او آئی سی کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

ان میں اتنی طاقت ہے کہ خود سے فیصلے کرسکیں اور اسلام دشمن طاقتوں کو روک بھی سکیں۔ او آئی سی اس حالت میں نہیں ہے کہ ایسے فیصلے کیے جاسکیں جس سے مسلمانوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے، اس لیے جو کوشش ترکی اور ملائشیا نے کی ہے وہ آنے والے وقت میں سودمند رہے گی اور یہ امید کا وہ دیا ہے جس کی روشنی پوری دنیا میں پھیل سکتی ہے۔ اپنے تحفظ کے لیے غیر مسلموں پر انحصار ختم کرنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments