الجھاؤ در الجھاؤ


انسان کبھی کبھار حالات کے پیچ و خم میں الجھ کر ہی رہ جاتا ہے۔ پھر جب گمان کرتا ہے کہ کتنا ناتواں ہے یہ بندہ کہ نہ آیا اپنی مرضی سے، نہ پلا اپنی مرضی سے، جب آیا پھر یہاں جینا چاہا تو نہ جیا اپنی مرضی سے، عمر کو دیکھا تو دو گھڑیاں تھی اس کی کے پاس، ایک چوتھائی تو لڑکپن کے نظر ہوگئی، دوسرا حصہ جوانی کی مدہوشی میں تیسرا حصہ گھر بار اور بچوں کو سنبھالنے میں اور چوتھے حصے میں بس ملک الموت کا انتظار ہی کرتا رہ گیا۔

ان تمام لمحات و الجھے ہوئے حالات میں بندہ کچھ کرے تو غلط، غلط کرے سو ہے غلط، صحیح کرے بھی تو بہ کھاتہ غلط چلا جاتا ہے کہ انسان ہے اس کا کوئی کام بھی یک مشت سو دفیصدی درست نہیں ہوتا، ادھر جہان تمام ہے کہ جس نے قسم کھا رکھی ہے کہ اس کو جینے نہیں دینا ہے اگرچہ ستر فیصدی کام درست کرے مگر پکڑ اس تیس فیصد پر ہی کرنی ہے، اس کا جینا اجیرن کردینا ہے اس کو موت کی سی زندگی دینی۔ پھر معاملے پر انتخاب عمل کے سلسلے میں تو ناتواں اتنا کہ بس سر پکڑ کر ہی اس کے پاس چارہ رہ جاتا ہے۔

صفتیں و خصلتیں اتنی دی ہے کہ حیرانی ہی متائے سوچِ کل بن جاتا ہے۔ اچھائی، ملکی، رحمدلی، وسیع قلبی، صلہ رحمی، حسن سلوک، اخلاق شیرین اور دوسری جانب، شیطانی، چالبازی، دھوکہ دہی، دروغ گوئی، کینہ، بغض، حسد اور ان سے بھی مسائل اتنے پیدا نہیں ہوتے، دردِ سر تب شروع ہوتا کہ جب اول و دوئم کی میلاوٹ ہوجاتی ہے اور بندہ صحیح طور پر ادراک نہیں کرپا رہا ہوتا ہے کہ زبان کے پیچھے دل میں کیا؟ بول کے پیچھے سمجھ میں کیا؟

قول کے پیچھے دماغ میں کیا ہے، پیغام کے پیچھے مقصد میں کیا ہے؟ اس کی صحیح طور پر حساب لگاتے لگاتے ریاضی کے probability کے تمام فارمولے ختم ہوجائیں گے مگر انسان کے پر تبسم چہرے کے پیچھے بغض بھرے دل کا حسد و کینہ جوں کا توں ہی رہے اور حساب و ریاض کی حدود سے باہر ہی رہے گا۔ شاید اسی نے اعلی دماغ آئن سٹائن کو یہ کہنے پر مجبور کردیا تھا کہ

”میں روشنی کی رفتار کو حساب میں لا سکتا ہوں لیکن انسان کے چہرے پر مسکراہٹ کے پیچھے اس کی نفرت کو حساب میں لانے سے قاصر ہوں“

ایک اور بڑا الجھاؤ انسانی ذہن میں تب پیدا ہوتا کہ جب وہ گمان کرتا ہے کہ اتنی صفتیں و آلہِ طاقت رکھنے کے باوجود اتنا ناتواں جنا کہ جب دنیا فتح بھی کروں تو ایک مچھر باعث موت بن جاتا ہے اور پھر درد سر یہ سوچ کر اور بھی بڑھ جاتا کہ میں جو یہاں ہوں اور یہ آزمائشیں جھیل رہا ہوں آخر ان کا حاصل میرے وصال و فنا جہان فانی کے بعد کیا ہوگا؟ کیا میرا کچھ بھی نشان اور کارنامہ ریاضت زیست کل کا کچھ بھی اثر باقی رہے گا؟

یا اس الجھاؤ کے بعد ایک بار اور الجھ دیا جاوں گا اور انجانے امتحان گاہ سے نکل کر نتیجہ پانے کی بجائے ایک اور امتحان گاہ میں دھنس دیا جاوں گا؟ اور اس کی سزا پاوں گا جو نہ میری مرضی تھی اور نہ ہی میری چاہ؟ آخر اس الجھاؤ در الجھاؤ سے راہ فرار ہو تو کیونکر ہو؟ سکون ملے تو کہاں ملے؟ جواب پر اطمنان حاصل ہو تو کہاں سے ہو؟ خیالات کو ٹھراؤ ملے تو کس طرح ملے؟ بس زندگی پر سوچنے کا آخری نتیجہ پکڑِ سر ہی ہے کہ اہل دانش و اربابِ عقل آخر کار اسی نتیجے پر پہنچے اور کہنے پر مجبور ہوئے کہ

وایہ وایہ ملا جانہ ژوند سوال دے کہ جواب!

(کہو اے مذہبی پیشوا کہ زندگی سوال ہے یا جواب؟ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).