فیض کی ڈیڑھ نظمیں جنہیں ضیا الحق کے دور میں ان کے کلیات سے نکال دیا گیا


پاکستان میں کسی بھی آمریت کا زمانہ ہو ہر دور میں آزادی ِ اظہار پر پابندیوں کی ایک سیارہ تاریخ رقم ہوتی رہی ہے۔ فیض صاحب کی ایک نظم جو 1967 میں جنرل ایوب خان کے دور میں لکھی گئی اور جنرل یحیٰ خان کے دور میں 1970 میں ان کے مجموعے ”سر ِ وادی ِ سینا“ میں شائع ہوئی مگر جنرل ضیا الحق کے زمانے میں 1984 میں ان کے کلیات ”نسخہ ہائے وفا“ کی جب اشاعت ہوئی تو اس میں یہ نظم پوری شائع نہ ہوسکی۔ اس کے بقیہ حصے کو نظم سے نکال باہر کیا گیا۔ فیض صاحب کے انتقال کے تقریباً پینتیس چھتیس سال گزرجانے کے باوجود پاکستان میں ان کے کلیات کے کسی بھی ایڈیشن میں اس

۔ نظم کو مکمل طور پر نہیں شائع کیا گیا۔ ایسا کیوں ہوا اس کا بھی ایک دلچسپ پس منظر ہے

فیض صاحب کی یہ نظم جس کا عنوان ”سرِ وادی ِ سینا“ ہے 67 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد لکھی گئی تھی اور یہ نظم اس دور کے ادبی رسائل اور اخبارات میں بھی شائع ہوئی اور خود فیض صاحب نے اکثر و بیشتر مشاعروں میں اور مختلف ادبی اجتمات میں اپنا یہ کلام پیش کیا جسے بہت سراہا بھی گیالیکن جب تقریباً چار سال بعد فیض صاحب نے اپنی یہی پرانی نظم 23 مارچ 1970 کو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں منعقد ہونے والی کسان کانفرنس میں پڑھی جس کی صدارت مشرقی پاکستان کی بائیں بازو کی سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کے سوشلسٹ رہنما عبد الحمید خان بھاشانی نے کی تھی تو فیض صاحب کی اس نظم پرکفر کی چھاپ لگانے کا آغاز ہوا۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ کی یہ کسان کانفرنس ایک سیاسی اور تاریخی اجتماع تھا۔ ظاہر ہے یہ وہ دور تھا جب متحدہ پاکستان میں پہلی بار آزادانہ انتخابات ہونے جا رہے تھے اور ملک کی فضا سوشلزم ’جمہوریت اور اسلامی نظام کے نعروں سے گونج رہی تھی۔ کسان کانفرنس کی روداد جب اخبارات میں شائع ہوئی تو پہلی بار جماعت اسلامی کراچی کے اس وقت کے امیر صادق حسین نے مارشل لا حکومت سے اس نظم پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا

عجیب بات ہے کہ فیض صاحب جو اپنے اوپر ہونے والی جا و بے جا تنقید کا کبھی جواب نہیں دیتے تھے انہوں نے ہفت روزہ لیل و نہار میں جماعت اسلامی کراچی کے امیر کو جواب دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ”انہیں غالباً یہ معلوم نہیں کہ یہ نظم جس میں سے ایک حصہ میں نے پڑھا تھا چار سال پہلے لکھی گئی تھی اور چار سال پہلے ہی چھپ چکی ہے۔ انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ نظم میں نے عرب اسرائیل تنازعہ سے متاثر ہو کر کہی تھی۔ ایک ممتاز مصری شاعر ملک عبد العزیز نے عربی میں اس کا ترجمہ کیا تھا جو ’الاہرام‘ اور عربی کے بعض دوسرے جریدوں میں شائع ہوا تھا۔ اس لیے مسٹر صادق حسین کی یہ اپیل کہ تمام مذہبی افراد اور لیڈروں کو اس نظم کی مذمت کرنی چاہیے ’بہت تاخیر سے کی گئی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ مسٹر صادق حسین جیسے حضرات کے لیے شاعری کی زبان نا قابل فہم ہے اور ان کے اعتراضات کو درخور اعتنا نہیں سمجھنا چاہیے لیکن کیوں کہ یہ بیان بے وقوفوں کے دن (یعنی یکم اپریل) کو تمام اخبارات میں شائع ہوا ہے اس لیے قارئین کو اس موسمی مذاق سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔ ”

فیض صاحب کے جوابی بیان سے ایسا لگتا ہے جیسے انہوں نے اس واقعے کو سنجیدگی سے نہ لیا ہو مگرحقیقت اس کے بر عکس ہے کیونکہ انہوں نے اس کے چند ماہ بعد ہی اپنا مجمو عہ کلام شائع کیا اور اس شعری مجموعے کا نام بھی ”سر وادی سینا“ ہی رکھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے اس نظم پر فٹ نوٹ بھی لگایا کہ اس نظم میں استعمال ہونے والے الفاظ ’علیم ”خبیر‘ ’بشیر‘ نذیر ’اپنے لغوی معنوں میں استعمال ہوئے ہیں۔

جنرل یحیٰ کے دور میں یہ اعتراض سرد خانے کی نذر ہوگیا مگر جنرل ضیا الحق کے دور میں جوش صاحب کی طرح فیض صاحب پر بھی نشانہ لگایا گیا اور ان کے انتقال کے وقت جب ان کا کلیات ’نسخہ ہائے وفا‘ شائع ہوا تو اس میں سے سر ِوادیِ سینا والی نظم کا آدھے سے زیادہ حصہ نہیں چھپنے دیا گیا اور آج تک پاکستان سے شائع ہونے والے تمام نسخوں میں یہ نظم اپنی مکمل شکل میں موجود نہیں ہے بلکہ ہندوستان سے بھی جو کتاب شائع ہوئی ہے وہ بھی اس کتاب کی فوٹوکاپی ہونے کی وجہ سے اسی کا عکس ہے۔

سروادیئی سینا

(عرب اسرائیل جنگ کے بعد)

پھر برق فروزاں ہے سرِ وادیِ سینا

اے دیدۂ بینا

پھر رنگ پہ ہے شعلہئی رخسارِ حقیقت

پیغامِ اجل دعوتِ دیدارِ حقیقت

اب وقت ہے دیدار کا، دم ہے کہ نہیں ہے

اب قاتل جاں چارہ گرِ کلفتِ غم ہے

گلزار ارم پر تو ِ صحرائے عدم ہے

پندارِ جنوں حوصلہئی راہِ عدم ہے کہ نہیں ہے

پھر برق فروزاں ہے سرِوادیئی سینا

اے دیدہئی بینا!

پھر دل کو مصفّا کرو، اِس لوح پہ شاید

مابَین من و تو نیا پیماں کوئی اُترے

اب رسمِ ستم حکمتِ خاصانِ زمیں ہے

تائیدِ ستم مصلحتِ مفتی ِ دیں ہے

اب صدیوں کے اقرارِ اطاعت کو بدلنے

لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اُترے

ہاں تک تو یہ نظم کلیات میں موجود ہے مگر اس کے بعد کا حصہ جو کاٹ دیا گیا وہ یہ ہے :

سنو کہ شاید یہ نورِ صیقل

ہے اُس صحیفے کا حرفِ اوّل

جو ہر کس و ناکسِ زمیں پر

دلِ گدایانِ اجمعیں پر

اُتر رہا ہے فلک سے اب کے

سنو کہ اس حرفِ لم یزل کے

ہمیں تمہیں بندگانِ بے بس

علیم بھی ہیں، خبیر بھی ہیں

سنو کہ ہم بے زبان و بے کس

بشیر بھی ہیں، نذیر بھی ہیں

ہر اک اولیٰ الامر کو صدا دو

کہ اپنی فردِ عمل سنبھالے

اُٹھے گا جب جمِّ سرفروشاں

پڑیں گے دار و رسن کے لالے، نہ کوئی ہوگا کہ جو بچا لے

جزا سزا سب یہیں پہ ہوگی، یہیں عذاب و ثواب ہوگا

یہیں سے اُٹھے گا شورِ محشر، یہیں پہ روزِ حساب ہوگا

یہ تو اس آدھی نظم کا قصہ ہے جو اُن کے کلیات میں پوری شائع نہ ہوسکی مگر اسی کلیات میں فیض صاحب کی ایک اور مشہور نظم ”و یَبقیٰ وجہُ ربّکَ“ تو سرے سے ہی غائب کردی گئی۔ اقبال بانو نے جب اس نظم کو گایا اوروہ مقبول ہوئی تو لوگ کلیات میں اس نظم کو تلاش کرتے رہے مگر وہاں تواس پوری نظم ہی کو سنسرکردیا گیا تھا۔ چونکہ یہ نظم فیض صاحب کے مجموعے ”مرے دل مرے مسافر“ میں پہلے شائع ہوچکی تھی لہٰذا لوگ سینہ بہ سینہ اس نظم کا اصل عنوان جانے بغیر ’ہم دیکھیں گے ہم دیکھیں گے‘ گنگناتے رہے اور فیض صاحب کی اس انقلابی نظم پر سر دھنتے رہے

وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ

ہم دیکھیں گے

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے

جو لوحِ ازل میں لکھا ہے

جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں روئی کی طرح اُڑ جائیں گے

ہم محکوموں کے پاؤں تلے

جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی

اور اہلِ حکم کے سر اُوپر

جب بجلی کڑکڑکڑکے گی

جب ارضِ خدا کے کعبے سے سب بُت اُٹھوائے جائیں گے

ہم اہلِ صفا، مردودِ حرم مسند پہ بٹھائے جائیں گے

سب تاج اُچھالے جائیں گے سب تخت گرائے جائیں گے

بس نام رہے گا اللہ کا

جو غائب بھی ہے حاضر بھی

جو منظر بھی ہے ناظر بھی

اُٹھّے گا انا الحق کا نعرہ

جو میں بھی ہو ں اور تم بھی ہو

اور راج کرے گی خلقِ خدا

جو میں بھی ہو ں اور تم بھی ہو

یہ وہ واحدنظم ہے جسے اپنے قیام امریکہ کے دوران جنوری 1979 میں فیض صاحب نے انقلاب ایران کا خیر مقدم کرتے ہوئے لکھی تھی۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ مشرق وسطیٰ کی دو بادشاہتیں مغربی سامراج کے مقاصد کے حصول میں ایک مضبوط ستون کادرجہ رکھتی تھیں اور ان میں سے ایرانی بادشاہت کے تخت و تاج اچھالے گئے تو فیض صاحب نے دوسری بادشاہت کے بارے میں پیشن گوئی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جب ارض ِ خدا کے کعبہ سے سب بت اٹھوائے جائیں گے۔

تو یہ بات دور ضیا کے دانشوروں کو کیسے پسند آتی کہ ان کی تو دال روٹی کا بند و بست ہی وہیں سے ہوتا تھا بلکہ آج بھی ہو رہا ہے۔ چنانچہ اس نظم کو فیض کے کلیات سے خارج کردیا گیا۔ البتہ اس کے تقریباً پچیس سال بعد اس کلیات کا ایک پاکٹ ایڈیشن شائع ہوا تو اس نظم کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اس کے پبلشر نے اسے پاکٹ ایڈیشن میں شامل کرلیا۔ ویسے بھی جنرل ضیا کو گزرے ہوئے کئی برس ہو چکے تھے اور جنرل مشرف کے زمانے میں دنیا کے سامنے پاکستان کا سافٹ امیج بھی پیش کیا جانا تھا مگر اس کے باوجود آج تک سر وادی سینا کی سنسر کی گئی آدھی نظم کلیات میں شامل ہونے کی منتظر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments