گوادر نامہ


صوبہ بلوچستان میں واقع ساٹھ میٹر طویل ساحلی پٹی گوادر اپنے نام کی مناسبت سے پاکستان کے حبس زدہ معاشی نظام کے استحکام کے لئے ”کھلی ہوا“ ثابت ہورہا ہے۔ اس ساحلی پٹی کو 1958 میں وزیر اعظم فیروز خان نون نے اومان سے خریدا تھا۔ اللہ کے فضل سے گوادر قدرتی بندرگاہ کی صلاحیت سے مالامال ہے۔ یہ قدرتی طور گہرے پانی کی بندرگاہ ہے۔ عام طور پر بندرگاہوں کو سمندر میں نیچے گہرا کرنے کے لئے کھدائی کی جاتی ہے مگر گوادر ان چند بندرگاہوں میں سے ایک ہے جو گہرے پانی میں واقع ہے۔ اگر قریب کی دوسری بندرگاہوں سے اس کا مقابلہ کر کے دیکھا جائے تو ان کی سمندر میں گہرائی عموماَ نو یا دس میٹر ہوتی ہے۔ ان میں کراچی ( 9 / 10 ) ، چاہ بہار ( 11 ) ، بندرعباس ( 9 / 10 ) ، جبل علی ( 15 / 16 ) ، اومان ( 10 ) ، دمام ( 9 ) ، دوحہ ( 11 / 12 ) گہرے ہیں جبکہ گوادر ( 17 / 18 ) گہری ہے۔ بندرگاہوں میں دوسری بڑی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ اس کے لئے سمندر میں ہتھوڑے کے سرے (Hammerhead) جیسی جگہ مصنوعی طریقے سے بنانی پڑتی ہے تاکہ سمندری پانی کا کٹاؤ روکا جا سکے جبکہ گوادر میں یہ ہیمر ہیڈ بھی قدرتی طور پر بنا ہوا ہے

گوادر کی ڈیپ سی پورٹ کے متعلق 1954 میں امریکی جیالوجیکل سروے گوادر بندرگاہ کو اس لحاظ سے بھی بہترین مقام قرار دے چکا ہے، دراصل یہاں سے دنیا بھر کے ممالک کی بحری نقل و حرکت پر نظر بھی رکھی جاسکتی ہے، یوں کہا جاسکتا ہے کہ اللہ نے گوادر کو بحری کنٹرول روم کی حیثیت سے بھی مالا مال کیا ہے۔

2002 میں صدر پاکستان جنرل مشرف نے 24 کڑور ڈالر کی لاگت سے گوادر بندرگاہ کی تعمیر کا افتیاح کیا جو 2007 میں مکمل ہوگیا۔ 2008 میں جنرل مشرف کے استعفی کے بعد گوادر بندرگاہ کا تعمیری امور التوا کا شکار ہوگیا تاہم 2015 میں پھر سے گوادر کی بندرگاہ توجہ کا مرکز بنی۔ پاکستان کے دیرینہ دوست چین نے پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا ارادہ ظاہر کیا ہے اس منصوبے کو چین پاکستان اقتصادی راہداری کا نام دیا گیا جو بنیادی طور پر خنجراب کے راستے چین کو گوادر کی بندرگاہ سے ملانے کا منصوبہ ہے۔

’پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) سے نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کی معاشی قسمت میں مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ اسی لئے اس منصوبے کو نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے معاشی معاملات کے لئے گیم چینجر کہا جاتا ہے۔

ابتدا میں چین نے سی پیک پر 44 ارب ڈالر کی منصوبہ بندی سے کام کا آغاز کیا پھر یہ سلسلہ 62 بلین ڈالر تک جا پہنچا ہے۔

چین، پاکستان اقتصادی راہدری پاکستان کو چین کے شہر کاشغر سے جوڑے گا۔ اس منصوبہ میں سڑکوں تعمیرات، ریلوے کا نظام، توانائی کے شعبے کے ساتھ دیگر صنعتوں کے قیام کی حکمت عملی شامل ہے۔ اب جبکہ کام بھی تیزی سے جاری ہے۔ کافی حد تک سڑکوں کا جال بچھ چکا ہے، ریلوے کے نظام کے لئے بھی بہت سے امور زیرغور ہیں۔ تین سو میگا واٹ بجلی گھر کا افتتاح ہوچکا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا گوادر ایئرپورٹ کا تعمیری کام بھی شروع والا ہے۔

سی پیک پروجیکٹ کے زیر اہتمام اسپتال کی تعمیر شروع ہوچکی ہے۔ لازمی سی بات ہے اتنے اہم پروجیکٹ پر کام کرنے کے لئے ورکرز کی جفاکش ٹیم کی بھی بہت ضرورت ہوتی ہے، اسی تناظر میں سی پیک کے تحت سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2013 سے ابتک ستر ہزار سے افراد معتلقہ شعبے سے وابستہ ہوکر اپنے روزگار سے منسلک ہوچکے ہیں۔

چین سی پیک پروجیکٹس کے فروغ کو مدنظر رکھ کر مزید انیس فیکٹریاں قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس کے تحت 45 ہزار افراد کو روزگار کا موقع ملے گا۔

چائنا، بلوچستان کے کان کنی، زراعت، ماہی گیری اور پانی کے شعبوں کی ترقی میں کردار ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ سی پیک کے ابتدائی 22 منصوبوں میں سے 13 مکمل جبکہ 9 مکمل ہونے کے قریب ہیں۔ سی پیک کا پہلا مرحلہ کامیابی سے مکمل ہو گیا ہے۔

پاکستان اور چین کے باہمی تعاون سے نوجوان نسل کو ہنر مند بنانے کے لیے 50 ووکیشنل سینٹرز قائم کیے جارہے ہیں۔ سی پیک نے خواتین کے بہتر مستقبل کے لئے بھی اپنے کام کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔

چین، پاکستان کے مختلف منصوبوں میں خواتین کو بھی ان کی قابلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر ملازمتیں دی جارہی ہیں۔ گوادر کی مقامی خاتون عنبرین شاہ توانائی کے منصوبے پر کام کررہی ہیں، وہ لیگل ڈیپارٹمنٹ کی ہیڈ ہیں، انہوں نے کہا کہ جس کمپنی میں وہ ملازم ہیں۔ وہاں 30 فیصد خواتین کام کرتی ہیں، ان میں چند ایسی ہیں جو بہترین پوزیشنز پر کام کررہی ہیں۔ لازمی سی بات ہے کہ مرد و زن کے لئے اچھی جاب کا حصول تعلیم سے آراستہ ہوئے بنا ممکن نہیں ہوسکتا ہے۔ سی پیک کے پروجیکٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ضلع گوادر کے تعلیمی شعور کی بات کی جائے تو 138,438 آبادی پر مشتمل ضلع گوادر میں شرح خواندگی 25 فیصد ہے۔ جس میں پندرہ فیصد لڑکیاں علم حاصل کرتی ہیں۔

ترتیب کے مطابق پرائمری ( 29.35 ) فیصد، سیکنڈری ( 16.62 ) فیصد، انٹرمیڈیٹ ( 5.31 ) فیصد، گریجویٹ ( 2.90 ) فیصد، اور پوسٹ گریجویٹ تعلیم یافتہ افراد کی تعداد ( 0.88 ) فیصد ہے۔ ضلع گوادر میں سرکاری پرائمری اسکولوں کی کل تعداد 81 ہے (مردانہ 58، زنانہ 23 ) ۔ مڈل اسکولوں کی تعداد 8 (مردانہ 4، زنانہ 4 ) ۔ ہائی اسکولوں کی تعداد 7 ہے (مردانہ 6، زنانہ 1 ) جبکہ ایک ڈگری کالج اور ایک ٹیکنیکل ٹریننگ کالج ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ رواں سال گوادر یونیورسٹی کا افتتاح ہو چکا ہے۔

یہاں ضلع میں تعلیم کا ذکر اس لئے اتنا مفصل کیا گیا ہے تاکہ مزید تعلیمی مراکز کا قیام ہو۔ وزارت تعلیم کو گوادر کی شرح خواندگی کے میعار پر نظر رکھنا ہوگی اور کچھ ایسے پروجیکٹس بھی شروع کرنے ہوں گے جس کے تحت بنیادی و پروفشنل تعلیم کا حصول ممکن ہو۔ وزارت تعلیم اور نجی تعلیمی اداروں کو ملکر سی پیک کے منصوبے کو مدنظر رکھ کر فروغ تعلیم پر بھی متحرک ہونا پرئیگا تاکہ سی پیک کے مکمل ہونے سے ملک کا معاشی ہی نہیں بلکہ گوادر کا تعلیمی نظام مزید بہتر ہو۔

ذاتی طور پر ایک این جی او چلانے والی زیتون بی بی کا کہنا ہے کہ میں ایک دستکاری کا ٹریننگ سینٹر چلاتی ہوں۔ جہاں گوادر کی ثقافت کے حساب سے لباس، ہینڈ بیگز اور دیگر ثقافتی دستکاری کی اشیا سکھائی اور تیار کی جاتی ہیں۔ نہ صرف خواتین اور بچیوں کو کام سکھاتی ہوں بلکہ ان کی تیار کی گئی اشیا فروخت کرکے آدھی قمیت ان کے حوالے بھی کرتی ہوں۔ زیتون بی بی کا کہنا تھا کہ اگر سی پیک کے ذریعے سے گوادر کی ثقافت کے فروغ پر توجہ دی جائے تو یہ نہ صرف گوادر کی خواتین کی حوصلہ افزائی ہوگی بلکہ ان کو باآسانی من چاہا روزگار بھی میسر آئے گا۔

مشہور ولاگر انیتا بلوچ نے کہا کہ گوادر میں بہت ٹیلینٹ ہے۔ یہاں کے بچوں کا دماغ پیدائشی طور پر انجئیرنگ کے شعبے کی جانب مائل ہوتا ہے۔ سی پیک کی تعمیر سے گوادر کا خوشحال مستقبل وابستہ ہے۔ انہوں کہا کہ جب سے سی پیک کے کام کا باقاعدہ آغاز ہوا ہے میں نے گوادر میں مثبت تبدیلی دیکھی ہے۔ یہاں کے مقامی انڈسٹریز کے قیام سے مطمئن ہے۔ سی پیک کی تکمیل کے ساتھ ہی گوادر میں سیاحت کو بھی فروغ ملے گا اس امید کے پیش نظرساحل سمندر کے سامنے بہترین ہوٹل بھی تعمیر ہوچکا ہے البتہ پارکس اور شاپنگ مالز کی جانب توجہ دینا ہوگی۔

سی پیک واقعی گیم چینچر ہے۔ جو عناصر یہ کہہ رہے ہیں کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کا کام کھٹائی میں پڑگیا ہے وہ لوگ منفی خبروں کے ذریعے ملک میں مایوسی پھیلانے خواہاں ہیں۔ میری بزنس پرسنز سے گزارش ہے آپ ایک بار گوادر کا وزٹ کر کے تو آئیں۔ یقینا آپ کو انداز ہوگا کہ آج کی وہاں کی پتھریلی اور ریتلی زمین کل سونا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments