قونصل جنرل عمران علی چوہدری اور نام نہاد کمیونٹی لیڈر


بیرون ملک پاکستانیوں کا اپنی شناختی دستاویزات اور دوسرے کاموں کے سلسلے میں قونصلیٹ سے رابطہ رہتا ہے۔ مختلف ممالک میں قونصلیٹ کے بابووں کا رویہ عام عوام سے حاکم اور محکوم کارہا یا پیسے کا۔ جانتے بوجھتے ہوئے لوگوں کے ضروری کاغذات اور شناخت روک دینا، ان کو عام انسان نہ سمجھنا بہت سے افسر ز کی خصلت بنا رہا ہے۔ جرمنی میں ایک نوجوان نے تنگ آکرسفیر اور عملے پر حملہ کردیا تھا۔ عرب ممالک میں تو بدقسمتی سے عام پاکستانیوں کو کیڑے مکوڑوں کا درجہ حاصل رہا ہے۔

لیکن کہیں کہیں بہت اچھے اور عوام دوست سفراؔ اور قونصل جنرلز بھی میسر رہے ہیں جنہوں نے اچھی یادیں چھوڑیں اور لوگوں کے دلوں میں ان کے مسائل میں اضافے کی بجائے مسائل حل حل کرکے جگہ بنائی۔ ٹورانٹو بھی اس لحاظ سے خوش قسمت تھا اور خادم کی خوش قسمتی کہ وہاں بہت اچھے لوگوں سے رابطہ رہا۔

عمران علی چوہدری سے بھی وہیں تعلق پیدا ہوا۔ تعلق بھی کسی ذاتی کام کے سلسلے میں نہیں بلکہ پاکستان سے متعلق ایک پروگرام کے حوالے سے۔ اور وہ تعلق بڑھتے بڑھتے بھائیوں جیسے تعلق میں بدل گیا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ عمران کوایک پڑھالکھا، تاریخ اورکتاب کا شیدائی، پاکستان سے محبت کرنے والا اور سب سے بڑھ کرخلق خدا کا ہمدرد اور اس کے لئے مستعد پایا۔ سینٹ میری اکیڈمی کی ابتدائی تعلیم، آرمی میڈیکل کالج، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس، سول سروس، واشنگٹن سٹیٹ یونیورسٹی اور وزارت خارجہ۔

سول سروسز اکیڈمی میں نمایاں پوزیشن۔ غرض ہر لحاظ سے تابندہ کیرئیر اور ہمہ وقت مطالعے کا شوقین۔ لیکن لوگوں سے اور وطن سے جڑا ہوا شخص۔ دوستی کے باوجود ہم نے بھی ایک حد فاصل رکھی کہ جب بھی اپنے ذاتی کام سے ٹورانٹوقونصلیٹ گیا، پہلے لائن میں لگ کر کام کروایا اور پھر دفتر جاکر ملے کہ وی آئی پی بننے کا شوق نہیں اور نہ ہی دوستوں کو اس حوالے سے تنگ کرنے کے روادار ہیں۔

ٹورانٹو میں ہی عمران کی اہلیہ کینسر جیسے مرض سے لڑتی دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ ایک پانچ چھ سال کی بیٹی اقرا پیچھے چھوڑ گئیں جو ہمیں اب عمران بھائی سے بھی زیادہ عزیز ہے۔

ٹورانٹو سے عمران پاکستان آئے اور سول سروسز اکیڈمی لاہور کے ڈائریکٹر رہے۔ ڈی ایم جی گروپ کے بابوؤں کو بھی۔ اور قونصلیٹ میں بھی جہاں موقع ملا کبھی عاصمہ جہانگیرجیسے ”باغیوں“ سے متعارف کراتے رہے، کبھی شاعروں اور ادیبوں کو اور کبھی دوسرے علوم کے ماہرین، کھلاڑیوں اور فنکاروں کو۔ ہمیشہ بیرون ملک سیاستدانوں، صحافیوں، بزنس مینوں، سے فعال رابطہ رکھا۔ ٹورانٹو میں ہونے والی الوداعی تقریبات کی تعداد اور ان میں ہر طبقے کے لوگوں کی جوق در جوق شرکت ان کی انسان دوستی اور خدمت کی گواہی دے رہی ہے۔

آج کل بطور قونصل جنرل سپین کے شہر بارسلونا میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں جہاں ان کی تعیناتی سے پہلے تک بے شمار مسائل تھے۔ جاتے ہی مقامی میڈیا کے ذریعہ اپنا ماٹو بیان کیا کہ یہ قونصلیٹ کم از کم ہوگی ماں کے جیسی۔ اپنا ذاتی موبائل نمبر مشتہر کرایا کہ پورے یورپ میں جسے مسئلہ ہے یہاں آئے، جو بس میں ہوا حل کریں گے، جیلوں اور ہسپتالوں میں بے یارومددگارپاکستانیوں تک پہنچے، ریاست کی ذمہ داریاں اپنے دائرہ اختیار میں پوری کرنے کی کو ش میں جت گئے۔ میڈیا اور دوستوں سے ہمیشہ ان کے لئے خیر ہی کی آواز آئی اور مستعدی کے قصے ہی پہنچے۔ پچھلے دنوں انڈیپنٹ اردو میں بھی ایک کالم کے ذریعے مقامی احباب کے جذبات پہنچے کہ کس طرح خدمت میں مصروف ہیں۔

یہ ساری تمہید اور عمران علی کی یاد 17 دسمبر کو ڈان میں شائع ہونے والی خبر کے بعد آئی کہ بیلجیم سے تعلق رکھنے والے کوئی نام نہاد ”کمیونٹی لیڈر“ صاحب اپنی جودھراہٹ سجانے بارسلونا پہنچے۔ وہاں پالا عمران علی جیسے عوام کے خادم (سول سرونٹ) سے پڑا تو وہی پرانا اور گھٹیا طریقہ آزمایا کہ پاکستان دو چار اپنے جیسوں کو فون کیے اور سوشل میڈیا پرعمران علی تو ایک طرف ان کی نو سالہ معصوم گڑیا پر بھی رقیق حملے شروع کر دیے۔ عمران علی جو بنیاد پرستی کی حد تک پاکستان اور قائد اعظم کے عاشق ہیں انہیں دو قومی نظریے کا مخالف تک قرار دے دیا۔ ہوسکتا ہے کل کلاں ان سے کلمہ سننے کی بھی نوبت آجائے۔

اب قصور کس کا ہے افسروں کا یا اس طرح کے ٹاوٹوں کا یا پھرعوام کا؟ کہ جو کام کرے اس کی حب الوطنی کا امتحان لو یا اس کے ایمان پر سوالیہ نشان لگادو۔ اسے اس حال تک پہنچادو کہ وہ بھی کام چھوڑ کر بیٹھ جائے۔ اپنے آپ کو کسی ٹھنڈے کمرے میں کافی کے کپ کے ساتھ قید کرلے کہ سارے جاؤ بھاڑ میں۔

کیا ہیں یہ لوگ اپنے شجر آپ کاٹ کر

دیتے ہیں پھر دہائی کہ سایہ کرے کوئی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments