قرونِ وسطٰی میں جینے والا قبائلی معاشرہ!


ڈی جی آئی ایس پی آر نے تفصیلی فیصلہ جاری ہونے کے بعد ایک پریس کانفرنس میں ادارے کے خلاف جاری منظم مہم، اس کے پیچھے کارفرما بیرونی و اندرونی قوتوں، اور ان قوتوں کے مقامی آلہ کاروں سے مکمل آگاہی رکھنے کا دعوٰی کیا ہے۔ اسی شام حکومتی زعماء نے اداروں کے مابین تصادم کی شکل میں حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی سازش کرنے والوں کو خبردار کیا۔ اگلے ہی روز اپنے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس کے مو قع پر خطاب سے قبل جسٹس کھوسہ نے ایک ذاتی وضاحت ضروری سمجھی۔ شرکاء کو بتایا گیا کہ عدلیہ اور خود ان کے خلاف ایک گھناؤنی مہم کا آغاز ہو چکا ہے۔ اندریں حالات، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ملک کے طول وعرض میں ہر قبیلہ دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔

دانشور اور تجزیہ نگار دُور کی کوڑیاں لاتے ہوئے اپنی اپنی دانش کے کوزے لڑھکا رہے ہیں۔ میں کہ نہ توکوئی دانشور اورنہ ہی با خبر صحافی، اندیشہ ہائے دور دراز میں گھِرا، سراسیمگی کے عالم میں درپیش حالات و واقعات کو ٹک ٹک تکتا ہوں۔ کسی کے نزدیک تئیس کروڑ عوام کے وسائل کی لوٹ مار زیادہ سنگین جرم ہے، تو کوئی دوسرا انہی کروڑ وں عوام کے آئینی حقوق کے سلبکیے جانے کو اس سے بھی بڑا ظلم گردانتا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ ہر دو موقف مگر مبنی بر انصاف ہونے سے بڑھ کر گروہی تعصبات سے نمو پاتے ہیں۔

عدلیہ کل تک کچھ کی نظروں میں مطعون تھی تو کچھ کی نظروں میں آزاد۔ آج مگر سب الٹ چکا۔ وہ جو کل تک آزاد عدلیہ کا دم بھرتے، اور مخالفین کو جسٹس کھوسہ کی عدالت سے ملنے والے ’سسلین مافیا‘ کے خطاب کو ہی حرفِ آخر جانتے تھے، اب انہی کو سرگوشیوں میں ہی سہی، مگر جنرل مشرف کے خلاف فیصلے کا محرک گردانتے ہیں۔ دوسری جانب، جن کے شب وروز عدلیہ کو رگیدنے میں گزرتے تھے، خود تو بوجہ خاموشی اختیارکیے ہیں، ان کے کارندے مگر اب اوروں کو سنجیدہ منہ بنائے ہوئے بتاتے ہیں کہ مہذب معاشروں میں عدلیہ کے فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم ہی کیا جانا چاہیے۔

معاشرہ ہے کہ بری طرح بٹَ چکا۔ ایک طرف پرانے نظام سے جڑی وہ سیاسی پارٹیاں ہیں کہ جن کی قیادتوں پر مالی بدعنوانی، ملکی وسائل کی لوٹ مار، اور اقراپروری کے سنگین الزامات ہیں، تو دوسری طرف عمران خان کی تحریک انصاف ہے کہ پاکستان کی پڑھی لکھی مڈل کلاس نے جس سے ایک بار توقعات وابستہ کیں۔ افواج کے افراد کی اکثریت اسی طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ لہٰذا قومی ادارے جب حکومت کی پشت پر کھڑے نظر آتے ہیں تو حکومت مخالف عناصر کی جانب سے تنقید اور تضحیک کا نشانہ بنتے ہیں، کبھی سول بالادستی، تو کبھی ’سلیکٹیڈ‘ کی پشت پناہی کے نام پر۔

تقسیم خوفناک حد تک واضح اور روزِ روشن کی صورت عیاں ہے۔ صرف نام اور شکل دیکھ کر میں اور آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ صاحب یا صاحبہ کسی بھی دیے گئے سوال پر کیا موقف اپنائیں گے۔ اعصاب میں تناؤ ہے۔ انصاف کی بات سننے کو کوئی تیار نہیں۔ سوشل میڈیا کی زبان قومی مزاج کی آئینہ دار ہے۔ فیک اکاؤنٹس تو ہوتے ہی گالی گلوچ کے لئے ہیں، اچھے بھلے عمر رسیدہ افراد بد زبانی کرتے پائے جاتے ہیں۔ امید تھی کہ دھرنے کے بعد ماحول میں ٹھہراؤ آئے گا۔ ادھ موئی معیشت کہ خدا خدا کر کے سانس لینے لگی ہے۔ امید پیدا ہوچلی تھی کہ بالائی سطح (Macro Level) پر نمو کے اثرات نیچے کو بہنے لگیں گے تو عوام کے لیے بھی سانس لینا کسی قدر سہل ہو جائے گا۔ قدرت کو مگر ابھی شاید ہمارے لیے آسانیاں منظور نہیں۔ ابھی مشرف کو ڈی چوک میں لٹکانا باقی ہے۔

دھرنے والے گھروں کو لوٹے تو چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ ہمارے گلے کی ہڈی بن کر اٹک گیا۔ آئین اور جمہوریت کی بالادستی کے علمبرداروں نے دو دن خوب ٹھٹھے اڑائے۔ 16 دسمبر کو چیف آف آرمی سٹاف کی توسیع کے معاملے کا فیصلہ سنایا گیا۔ سقوط ڈھاکہ کی تلخ یادوں سے لبریز دن کو اس مقصد کے لئے چنا جانا میرے نزدیک یقیناَ ایک اتفاق ہے۔ اس سے ہرگز کسی کو کوئی پیغام دینا مقصود نہیں تھا۔ سوال مگر سر اٹھاتا ہے کہ ایک خالصتاً تکنیکی معاملے سے متعلق فیصلے پر اضافی نوٹ کے ساتھ غیر ضروری رائے زنی کی ضرورت کیونکر آن پڑی؟

سولہویں صدی کے ایک انگریز جج کی زبان میں آرمی چیف کو بتایا گیا کہ آپ طاقت ور ہوں گے مگر قانون آپ سے بھی اوپر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جج نہیں بولتے، ان کے قلم بولتے ہیں۔ بسیار گوئی اگرچہ کسی صورت بھی سود مند نہیں۔ 12 مئی 2007 کے دن اسلام آباد میں کھڑے ہو کر مشرف صاحب نے مکے کیا لہرائے، تاریخ کی ساعتوں میں منجمد اور تکبر کا استعارہ بن کرفضا میں کہیں ٹھہر سے گئے ہیں۔ کاش جسٹس کھوسہ بھی مکّے نہ لہراتے۔ آج بدخواہوں میں ہمت نہ ہوتی کہ مشرف کے مقدمے سے آپ سے جوڑتے۔

چیف آف آرمی سٹاف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے فیصلے کی حرارت ابھی فضا میں تھی کہ ا گلے ہی روز خصوصی عدالت نے جنرل مشرف کے خلاف فیصلہ دے کر سترویں صدی کے جنرل کروم ویل کی یاد تازہ کر دی۔ وہی کروم ویل کہ جس کی لاش کو قبر سے نکال کر بادشاہ نے سرِ عام لٹکایا تھا۔ وہی کروم ویل کہ جس کا ذکر چند ہی روز قبل مکے لہرا کر کیا گیا تھا۔ بدگمان سوال اٹھاتے ہیں کہ آپ کی ریٹائر منٹ سے محض تین روز قبل آخرکیا عجلت در پیش آگئی کہ ہمارے ہاں بھی ایک ’گڑھے مردے‘ کو اکھاڑ کر بیچ چوراہے لٹکا دیا گیا؟ اپنے ارادوں، روّیوں اور آدرشوں سے تو یہی لگتا ہے کہ ہم بھی سولہویں، سترویں صدیوں کے ہی کسی منتقم مزاج قبائلی معاشرے میں جی رہے ہیں!

بڑی عدالت کے سربراہ کے فیصلے میں غصہ چھپائے نہیں چھپتا۔ عوام کے دلوں میں مگر ایک بھولے بسرے آمر کے لیے ہمدردی کی وہ لہر اٹھی کہ کئیوں کے ’وقار‘ کو بہا لے گئی۔ معلوم نہیں کہ قوم جب ہیجانی رات آنکھوں میں کاٹ رہی تھی تو آپ نے وہ شب سو کر ہی گزاری یا ٹی وی پر کچھ ریسلنگ بھی دیکھی؟ ٹی وی پر دکھائے جانے والے ریسلنگ کے مقابلے عموماً ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کے اصول کے تحت لڑے جاتے ہیں۔ اس طرز کی زور آزمائی کو ’فری سٹائل ریسلنگ‘ بھی کہا جاتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ بھی فری سٹائل ریسلنگ کے بہت شوقین بتائے جاتے ہیں۔ ’فری سٹائل ریسلنگ‘ میں قوانین سے بڑھ کر، پہلوانوں کی جیت کا انحصار ان کی ’مسل پاور‘ پر ہوتا ہے۔ یاد رکھنے کی بات مگریہ ہے کہ مسلزکی اندھی طاقت سے معاملات نبٹانے کا اصول اگر مان لیا گیا تو زیادہ امکان یہی ہے کہ جیت اسی کی ہوا کرے گی کہ جس کے پاس ’مسل پاور‘ اوروں سے بڑھ کر ہو گی۔ انصاف اور قانون کی بنیادوں پراستوار معاشروں میں گروہی اور قبائلی مفادات ٹکراتے ہیں تو لوگ انصاف کے اداروں کی طرف دیکھتے ہیں۔

جس معاشرے میں مگر انصاف کا سیکٹر خود گروہی تقسیم کا شکار ہو جائے تو انصاف کون کرے گا؟ ہسپتال پر حملہ آور وکیلوں کی تکذیب کی بجائے، شنید ہے کہ پاکستان بار کونسل حملہ آوروں کی حمایت میں خم ٹھونک کر کھڑی ہوئی۔ وہی بار کونسل آئین اور قانون کی بالا دستی کے سنہری پھریرے لہراتے ہوئے اب اپنے قبیلے کے ایک اور فرد کی حمایت میں ڈٹ جانے کے عزم کا اعادہ کرتی ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ گئے سالوں میں فوج جنرل مشرف کو فراموش کر چکی تھی۔

اب مگر لاکھوں افراد جو ادارے سے کسی بھی دور میں وابستہ رہے ہوں، جنرل مشرف کی تصویر اپنے سینوں پر سجائے پھرتے ہیں۔ فوج سے بڑھ کر قبائلی عصبیت کس گروہ میں ہو گی کہ جس کے افراد اپنے ’سنگیوں‘ کے خاک میں لپٹے ہوئے لاشے اور خون میں نہلائے زخمی جسم خود اپنے ہاتھوں سے اٹھاتے ہوں۔ گھروں سے میلوں دور ویرانوں میں جو ایک دوسرے کا خاندان ہوں۔ جب قانون کی عملداری کی بجائے قبائلی عصبیت کارفرما ہو جائے تو قبائلی ردّعمل کا آنا بھی عین فطری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments