پنجاب میں سکھ راج کا سبق: آپس کا تصادم غلامی تک پہنچا دیتا ہے


آج ہم اورہمارے ملک کے ادارے ایک نئی شدت کے ساتھ باہمی تصادم کا شکار ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسا دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا۔ ہمیں تاریخ میں اس قسم کی صورت ِ حال کی کئی مثالیں مل جاتی ہیں۔ ہم یہ جائزہ لے سکتے ہیں کہ تصادم کا یہ عمل کس طرح آگے بڑھا؟ اس کی کیا علامات ظاہر ہوئیں اور کیا نتائج برآمد ہوئے؟ ہم اس مطالعہ سے کیا سبق حاصل کر سکتے ہیں؟

اگر پنجاب کی ہی مثال لیں تو ہمیں کئی سبق مل جائیں گے۔ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ آزادی سے پہلے پنجاب برٹش انڈیا کا حصہ تھا۔ اور انگریزوں سے قبل پنجاب سکھوں کی سلطنت کے تحت تھا۔ بھارت اور پاکستان کے پنجاب کے علاوہ کشمیر، ہزارہ اور پشاور کے علاقے بھی اس سلطنت میں شامل تھے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ سکھوں کی سلطنت کس طرح ختم ہوئی؟ کیا ان کی فوج کمزور تھی؟ کیا ان کے خزانے خالی ہوگئے تھے؟ کیا انگریزوں نے سازش کر کے اُن کو ان کی سلطنت سے محروم کردیا تھا؟ یا کچھ اور وجوہات تھیں۔

سکھ حکومت کے پہلے دور میں پنجاب بارہ ریاستوں جنہیں مثل کا کہا جاتا تھا تقسیم تھا۔ پھر متحدہ خالصہ فوج بنی اور مہاراجہ رنجیت سنگھ ساری سلطنت کے مہاراجہ بنے اور اس سلطنت نے اپنی سرحدیں مزید وسیع کر لیں۔ پھر مہاراجہ رنجیت سنگھ کی موت کے بعد افراتفری کا دور شروع ہوا۔ مسلمان اس ریاست میں بڑی تعداد میں موجود تھے۔ گو کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں ان کی کچھ اشک شوئی ہوئی تھی مگر مجموعی طور پر اس دور میں مسلمانوں پسی ہوئی حالت میں تھے۔

اذان دینے تک پر پابندی تھی۔ گائے کے مارے جانے پر موت کی سزا ہو جاتی تھی۔ جنگ کے دوران بربریت کی حالت یہ تھی کہ ایک بار لاہور میں ڈوگرہ فوج اور شیر سنگھ کے تحت خالصہ فوج کی جنگ ہوئی تو سکھوں کی فوج لاہور کے گھروں سے عورتوں کو زبردستی پکڑ کر اپنی توپوں کے ارد گرد باندھ دیا تا کہ دشمن ان توپوں پر حملہ نہ کر سکے۔ سکھ فوج جب بھی کوچ کرتی تو بے تکلفی سے لوٹ مار کرتی جس کا زیادہ تر نشانہ مسلمان ہی ہوتے۔ سکھوں کے عہد میں لاہور کی بادشاہی مسجد میں کبھی توپ خانہ اور کبھی پیدل فوج کی پلٹن رہتی تھی۔ کئی مساجد فوج کا سامان رکھنے کے لئے استعمال ہوتی تھیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے مسجد وزیر خان کو ایک طوائف کے ساتھ رنگ رلیاں منانے کے لئے بھی استعمال کیا۔ مسلمانوں کے بڑے مقبروں سے پتھر تک اکھیڑ لئے گئے۔ اس طرح مسلمان اس حکومت کے ختم ہونے پر شکر ہی کر سکتے تھے۔

مہاراجہ رنجیت سنگھ کی موت 1839 میں ہوئی۔ بادشاہوں کے مرنے کے بعد ان کے خاندان اقتدار کے لئے ایک دوسرے کو قتل تو کرتے ہی تھے لیکن اس کی موت کے بعد کمزور حکمرانوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پہلے ایک بیٹے نے باپ کو گرفتار کر کے بیماری سے مرنے دیا اور مہاراجہ شیر سنگھ طاقتور ہونے لگا تو خود دربار کے اہم لوگوں نے اسے قتل کر دیا اور آخر میں کم سن دلیپ سنگھ کو مہاراجہ بنایا گیا۔ رنجیت سنگھ کا خاندان خود اپنے دربار یعنی وزراء اور فوج سے خائف تھا۔

اس حالت میں فوج سرکش ہو گئی۔ ان کے جرنیل نہیں بلکہ عام فوجی بھی سرکش ہو گئے۔ کبھی خالصہ فوج یہ اعلان کرتی کہ فلاں وزیر نے بہت مال کھایا ہے۔ اس پر ضروری ہے ہر فوجی کو سونے کی ایک انگوٹھی پیش کرے۔ یہ وزیر ایسا کرنے پر مجبور ہوتا۔ یہاں تک نوبت آئی کہ سلطنت کا وزیر ِ اعظم ہیرا سنگھ فوج کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوا اور کہا کہ خالصہ مجھ سے کیا نمک حرامی ہوئی ہوئی ہے جو کسی اور کو سلطنت چلانے کے لئے بلایا گیا ہے۔

اور ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ وزیر ِ اعظم کو فوج کے سامنے ہاتھ جوڑ کر اپنی گزارشات پیش کرنی پڑیں۔ فوج ایک روز ایک وزیر کا ساتھ دینے کا وعدہ کرتی اور اگلے روز دوسرا وزیر زیادہ لالچ دیتا تو اس کے ساتھ ہو کر پہلے وزیر کو پکڑ کر مار دیتی۔ یہاں تک مہاراجہ کا ماموں بھی قتل کر دیا گیا۔ اور اس فوج کو بھڑکانے کا آسان طریق یہ تھا کہ جس کے کو مروانا ہو اس کے متعلق مشہور کردو کہ وہ انگریزوں کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ یہاں تک سلطنت میں جو قابل لوگ تھے وہ وزارت کا عہدہ لینے پر بھی تیار نہ ہوتے کہ آخر میں مرنا پڑے گا۔ دربار کے اہم لوگ بھی دو گروہوں میں تقسیم تھے۔ ایک سندھانوالیہ گروہ تھا اور دوسرا ڈوگرہ راجوں کا گروہ تھا۔ یہ دونوں ایک دوسرے کو مروانے اور ان کا مال لوٹنے کے لئے ہر حیلہ استعمال کر رہے تھے۔

صورت ِ حال یہاں تک بگڑی کہ خود دربار کے وزراء نے غداری کر کے یہ سازش کی کہ اپنی ہی فوج کو انگریزوں سے لڑا کر کمزور کر دیا جائے۔ چنانچہ 1845 میں خالصہ فوج کو شالیمار باغ لاہور میں جمع کیا گیا اور وزراء نے تقاریر کیں کہ انگریز حکومت نے ہم سے معاہدہ توڑ دیا ہے۔ اب چاہیے کہ خالصہ اس سے جنگ کر کے اپنی بہادری کی دھاک بٹھائے۔ چنانچہ خالصہ فوج بھڑک کر جنگ کے لئے تیار ہو گئی۔ انگریزوں نے اشتہار تقسیم کرائے کہ ہم معاہدہ پر قائم ہیں مگر کون سنتا تھا تھا؟

چنانچہ جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا پہلی لڑائی مدکی کے مقام پر ہوئی۔ خالصہ فوج فتح کے قریب پہنچ گئی اور اگر یہ فوج جنگ جیت جاتی تو برِ صغیر کی تاریخ بالکل مختلف ہو سکتی تھی لیکن خود سپہ سالار لال سنگھ نے دستوں کو بھگانا شروع کیا تاکہ خالصہ فوج شکست کھا کر ذلیل ہو۔ اور ان جنگوں میں یہ تاریخ بار بار دہرائی گئی کہ خود جرنیلوں نے عمداً اپنی فوج کو ہزاروں کی تعداد میں قتل کروایا اور ان کو شکست دلائی۔ جب خالصہ فوج کو شکست ہو گئی انگریز فوج لاہور میں داخل ہوئی تو دربار کے وزراء نے انگریزوں کو یقین دلایا کہ فوج خود سرکش ہوگئی تھی ہم پر رحم کیا جائے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے چاہا کہ ڈیڑھ کروڑ کا تاوان وصول کریں اور اقتدار دلیپ سنگھ کے حوالے کر کے رخصت ہوجائیں لیکن خود اہل ِ دربار نے انگریزوں سے درخواست کی کہ خرچ سکھ دربار دے گا لیکن انگریز فوج دلیپ سنگھ کے بالغ ہونے تک لاہور میں ضرور موجود رہے ورنہ ہماری اپنی فوج ہمیں ختم کر دے گی۔ اس پر انگریز فوج مستقل لاہور میں مقرر ہوئی اور کشمیر راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا۔ جب ایک بار پھر 1848 میں سکھوں نے بغاوت کی تو پھر سکھوں کی حکومت مکمل طور پر ختم کر دی گئی۔

مہاراجہ دلیپ سنگھ کو انگلستان بھجوا دیا گیا اور وہ کسمپرسی کی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوا۔ سکھ قوم اپنی قوم کی فوج میں شامل ہونے کی بجائے انگریزوں کی ملازمت کرتی نظر آئی۔ وزراء کا کروفر بھی ختم ہو گیا۔ کوئی سکھ ڈپٹی کمشنر بھی بن جاتا تو بڑی بات سمجھی جاتی۔ دوسرے الفاظ میں سب فریقوں کے حصے میں خسارہ ہی آیا۔

سکھوں کی حکومت نہ مالی طور پر کمزور تھی اور نہ عسکری طور پر۔ ان کی فوج انگریزوں کو ہرانے کی مکمل صلاحیت رکھتی تھی۔ لیکن دوسرے مذاہب سے وابستہ اس حکومت سے مطمئن نہیں تھے۔ حکمرانوں کو کمزور کر دیا گیا تھا تاکہ ان کو اپنی انگلیوں پر نچایا جا سکے۔ وزراء ایک دوسرے کے اور فوج کے دشمن بن گئے تھے۔ ہر ادارہ سرکش ہو گیا تھا۔ دوسرے الفاظ میں یہ سلطنت اپنے اداروں کے تصادم کے نتیجہ میں ختم ہوگئی اور ایک حکمران قوم غلام بن گئی۔

ان واقعات سے ہم بہت سے سبق حاصل کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments