کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی


دسمبر گزشتہ کئی سالوں سے مختلف حوالوں سے میرے لیے المناک رہا ہے۔ اس ماہ کے آغاز سے ہی طبیعت پر عجیب اضطرار اضطراب اور اضمحال کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ وجود کے نہاں خانوں میں سرد مہری اور تاریکی در آتی ہے۔ نہ کسی سے ملنے کا جی چاہتا ہے نہ کسی سے مخاطب ہونے کو۔ نہایت شدت سے خواہش ہونے لگتی ہے کہ ایسی جگہ مل جائے جہاں بالکل سناٹا ہو۔ دور دور تک کسی ذی روح کا نام نشان نہ ہو۔ کوئی میری اس خاموشی اور اندرونی تنہائی میں مخل نہ ہو۔

چاروں طرف سبزہ ہو اور سبزے کے بیچ ایک چارپائی رکھی ہو۔ آسمان پر دھند کا نقاب نہ ہو اور مطلع مکمل صاف ہو۔ باطن کی تاریکی اور سردی کم کرنے کے لیے سورج سر پر پوری آب و تاب سے چمک رہا ہو۔ چارپائی کے سرہانے کتابیں رکھی ہوں۔ یہ کتابیں ہوں برصغیر کے بٹوارے کے دوران برپا ہوئی قیامتوں سے متعلق۔ ہنستے بنستے خاندان اجڑنے کی لہو رنگ داستانوں، سہاگ اجڑنے اور عصمتیں لٹنے کی دردناک کہانیوں پر مشتمل۔ خود سے زیادہ دکھ اور تکلیف میں مبتلا لوگوں کے بارے پڑھنا اپنا دکھ بھلانے کا بہترین ذریعہ ہے اس طرح کچھ وقت کے لیے انسان کو اپنا غم فراموش ہو جاتا ہے۔

دسمبر کے ساتھ بہت سی المناک یادیں وابستہ ہیں۔ بہت سے دوست احباب اور چاہنے والے اس ماہ میں تنہا چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے چلے گئے۔ ان میں مگر سب سے بڑا جو المیہ ہے وہ ہے والد صاحب کی وفات کا۔ کوئی شبہ نہیں کہ دنیا کی ہر چیز فانی ہے۔ ثبات صرف خدائے بزرگ و برتر کی ذات کو حاصل ہے۔ تاہم دنیا کی تمام نعمتوں میں سے والدین کی نعمت سب سے بڑی ہے، یہ سب سے بڑی متاع حیات ہے اور اس دولت کو کھو دینا بہت تکلیف دہ ہے۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ دیگر تمام نعمتوں کی طرح اس کی درست قدر بھی یہ بیش قمیت اثاثہ کھو دینے کے بعد ہوتی ہے۔

والد صاحب کی اچانک وفات سے مسلسل یہ محسوس ہوتا ہے کہ تند و تیز طوفان میں ہماری کشتی کا پیندا ٹوٹ گیا ہو اور ہم زندگی کی بے رحم موجوں میں گھرے ہیں۔ جیسے کسی لق و دق صحرا کے بیچوں بیچ چلچلاتی دھوپ میں اچانک سر سے سائبان اٹھ جائے اور ہم آبلہ پا کھڑے ہوں۔ یہ قیامت گزرنے کے بعد بھی سفر حیات جاری ضرور ہے مگر کسی پہاڑی ڈھلوان پر چٹانوں سے بری طرح ٹکراتے، تیزی سے کھائی کی طرف لڑھکتے پتھر کی مانند۔ آزمائشات زندگی میں احساسات بعینہ وہی ہوتے ہیں جیسے دلدل میں دھنسے کسی شخص کے ہو سکتے ہیں، جسے سہارا دینے والا کوئی نہ ہو۔ موت و زیست کا قانون اٹل ہے اور یہ اس فانی جہاں کی ابدی صداقتیں ہیں۔ جو جا چکے وہ لوٹ کر کبھی آ نہیں سکتے اور جو باقی ہیں سدا ٹھہرنے والے وہ بھی نہیں۔ جانتے ہوئے بھی قرار آنا مگر مشکل ہے۔

میری اور والد صاحب مرحوم کی رفاقت کا عرصہ صرف بائیس سال تک محدود رہا۔ آج سے سات سال قبل یہی 25 دسمبر دو ہزار بارہ کا دن تھا، جب ہمارے پیارے ابو جی ہمیں ہمشہ کے لیے چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے۔ والد صاحب مرحوم کی طبیعت تو کافی عرصہ سے خراب تھی۔ کوئی سنگین عارضہ مگر لاحق نہیں تھا، اچانک ایک روز صبح سویرے ان کے کندھے میں درد پیدا ہوا اور ساتھ ہی ان کا بلڈ پریشر انتہائی لو ہو گیا۔ جس میں دوبارہ اضافہ نہ ہوا اور بظاہر یہی ان کی وفات کا سبب بنا۔

سوچنے بیٹھیں، کل کی بات لگتی ہے، جب صبح اٹھنے کے بعد سب سے بڑی خوشی کی بات یہ ہوتی تھی کہ ابو انگلی پکڑ کر پیلی وردی والے سرکاری اسکول چھوڑنے جائیں گے۔ راستے میں گلی کی نکڑ پر بنی ہوئی دکان سے ”آدھی چھٹی“ میں کھانے کے لیے بسکٹس یا چپس لے کر دیں گے۔ ساتھ پانچ روپے جیب خرچ بھی۔ اسکول سے چھٹی کے بعد ٹیوشن اور قرآن پاک کی تعلیم سے فراغت کے بعد بقیہ وقت اس انتظار میں گزرتا کہ کب ابو کام سے واپس آئیں گے اور ہم بھائیوں کے لیے چاکلیٹ اور بسکٹ بھی۔

مجھے یاد نہیں پڑتا ابو نے کبھی ہم بھائیوں کو زیادہ مارا ہو، ہاں شرارتوں پر خفگی کا سامنا کرنا پڑ جاتا، وہ بھی جب کبھی گستاخیاں حد سے بڑھتیں تو۔ ابو کا ہمیشہ یہ کہنا ہوتا تھا نہ تو باہر گلی محلے اور اسکول مدرسے سے تمہاری شکایت آنی چاہیے اور نہ کسی سے جھگڑے کی خبر۔ اللہ مبالغے سے بچائے صبر اور برداشت کا مادہ جس قدر وافر والد صاحب کے پاس موجود تھا، خال ہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ کوئی شخص ان کے ساتھ زیادتی بھی کر گزرتا، یا حق کھا جاتا درگزر سے کام لیتے، اپنی اولاد کو بھی یہی درس دینے کی کوشش کی۔

دوسری نصیحت ابو کی یہ تھی۔ جتنا مل جائے اس پر قناعت کرو، چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا اور حرام کمائی سے دور رہنا۔ بچپن میں مگر دماغ عموما دنیاوی خواہشات کا اسیر ہوا کرتا ہے۔ اس حوالے سے والد صاحب کی سختی گاہے گراں گزرتی۔ بغاوت کی مگر الحمدللہ کوشش نہ کی۔ بس کبھی دل میں اڑچن رہتی کہ کلاس فیلوز اور یار دوستوں کے ماں باپ حلال حرام، اور اچھے برے کی مالا کیوں نہیں جپتے۔ یہ صرف ہمارا نصیب کیوں؟ آج مگر ان ہم جماعتوں کے مصائب و مشکلات کی طرف دیکھتے ہیں، جنہیں اس وقت ہم خوش نصیب سمجھا کرتے تھے اور اپنے نصیب پر نظر ڈالتے ہیں، تو خدا کا شکر ادا کرنے کے بعد اپنے ابو پر فخر محسوس ہوتا ہے۔

ہم جدی پشتی رئیس یا جاگیردار بلکہ خوشحال بھی نہیں۔ والد صاحب مرحوم نے نہایت ایمانداری سے عمر بھر روزی روٹی کمائی، حرام کا لقمہ مگر کبھی اولاد کے منہ میں نہیں ڈالا۔ انتہائی جاں توڑ مشقت کے بعد ہم چھ بھائیوں کی پرورش کی، بفضل خدا یہ اسی حلال لقمے کا اثر ہے جو آج ان کی تمام اولاد میں نہ صرف اتفاق ہے بلکہ وہ ہر قسم کی بری لت سے محفوظ و مامون بھی ہے۔

والد صاحب نہایت خاموش طبعیت کے مالک تھے۔ ضروری بات کے سوا وہ لب کشائی نہیں کیا کرتے تھے۔ ان کی خاموش طبیعت کے سبب نا سمجھی کے باعث میں انہیں سخت مزاج سمجھا کرتا تھا۔ ان کی محبت کا اندازہ لیکن اس دن ہوا جب میں تھوڑا سا بیمار ہو گیا۔ ابو اس پوری رات جاگتے رہے اور ہفتہ بھر پریشانی ان کے چہرے سے جھلکتی رہی۔ ابو کی زندگی کے آخری چند سالوں میں کام کی ضرورت کے تحت مجھے اکثر بیرون شہر جانا پڑتا۔ واپسی رات کو ایک دو بجے کے لگ بھگ ہوتی۔

جیسے ہی گھڑی گیارہ بجاتی، ہر پانچ پانچ منٹ بعد ابو کی کالز آنا شروع ہو جاتیں، کہاں پہنچے؟ بعض اوقات کوفت بھی محسوس ہوتی کہ بار بار کال کرنے کی کیا ضرورت؟ اب مگر جب بھی رات کے وقت گھر سے دور سفر میں ہوتا ہوں تو ان لمحات کی یاد اور اپنی ناقدری کے خیال سے اشک آنکھوں میں امڈ امڈ آتے ہیں۔ اپنی کم مائیگی و تہی دامنی کا دکھ بری طرح سے ستانے لگتا ہے۔ متاع حیات لٹ جانے کا غم نئے سرے سے تازہ ہو جاتا ہے۔ والد صاحب کی ذات وہ نعمت تھی جس کا دنیا میں کوئی نعم البدل نہیں اور ان کی جدائی کی یاد مسلسل رستا ایسا زخم ہے جس کے لیے دنیا میں کوئی مرہم نہیں۔

ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم

کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments