تھر کے لاوارث مندروں کی ٹوٹی پھوٹی مورتیاں


میڈیا پریہ سن سن کر کہ تھر میں بچے مر رہے ہیں ہم تو سمجھے تھے وہاں جن بھوتوں کا ڈیرہ ہوگاجہاں چاروں طرف موت ہی موت کا منظرہوگا۔ مگر یہ کیا، اتنا صاف ستھرا شہر بھی پاکستان میں ہوسکتا ہے جتنا صحرائے تھر کا شہر مٹھی ہے۔ نہ کچرا نہ گند، نہ کہیں پان کی پیک اور نہ ہی کہیں ہوا میں اڑتے شاپنگ بیگ۔ صبح اٹھے تو ہر شخص اپنے گھر کا کچرا یہاں رکھے ڈبوں میں ڈال رہا تھا اور کچھ لوگ اپنے گھروں کے سامنے کچرا جلا رہے تھے۔ رات باہر ہی آرام سے گزارنے والے گائے بیل کو گھروں کے سامنے جاتے اور لوگوں کو ان کی روٹی اور سالن سے تواضح کرتے دیکھ کر تو ہمیں اپنی انکھوں پر اعتبار ہی نہ آیا۔

کسی سے مدد مانگو یا راستہ پوچھو تو لوگ چل کر آتے ہیں اپنی مارواڑی بولی میں سمجھاتے ہیں تو ان کی بات سمجھنے میں ذرا بھی دقت نہیں ہوتی۔ عورتیں گھونگھٹ نکالے اپنے سروں پر مٹی کا مٹکا یا پانے کا کنستر اٹھائے نظر آتی ہیں مرد روٹی اور پانی کا تھیلا لٹکائے اپنی مویشی کو ہانکتے نکل جاتے ہیں۔ تھر میں پانی اور مویشی زندگی کی علامات ہیں۔ جس سال بارش نہ ہو اور پانی سوکھ جائے تو تھر میں زندگی مشکل ہوجاتی ہے۔ بڑے بڑے سینگوں والے صحرائی نسل کے گائے بیل کمزور پڑجاتے ہیں اور ان کے ہمسفر اونٹ بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ جب بارش ہو تو مویشیوں کے گلے میں باندھی گھنٹیوں کی آوازیں دور دور تک سنائی دیتی ہیں، ٹیلوں پر مور اچھلتے کودتے نظر آتے ہیں جو گھروں میں گھس کر موج مستی کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔

آثار بتاتے ہیں کہ وقت نے تھر میں بہت کچھ بدل دیا ہے۔ صرف امر سنگھ سے منسوب امر کوٹ ہی خاموشی سے عمر کوٹ نہیں ہوا بلکہ سلام گوٹھ بھی بغیربتائے اسلام کوٹ بن چکا ہے۔ صحرا میں ریت کے ٹیلوں اور پہاڑوں کے بیچ کھنڈرات میں تبدیل ہوتے عظیم الشان مندروں کے پجاری بھی اب یہاں نہیں رہتے۔ تھر میں چوڑی سڑکوں پر یہاں کے لئے مخصوص بنے چھ اور آٹھ پہیوں والے خیکڑا ٹرکوں اور بسوں کی ضرورت بھی کم ہوتی جارہی ہے۔ اب یہاں خواتین کوئلہ بھرے ڈمپر چلاتی نظر آتی ہیں۔ لگتا ہے تھر کی ثقافت کی نمائندگی کرنے والے مخصوص گھر بھی بہت جلد کنکریٹ کی عمارتوں میں تبدیل ہوکر صرف کتابوں، تصاویر اور فلموں میں باقی رہ جائیں گے۔

کہتے ہیں کہ سڑکیں جب سے چوڑی ہوئی ہیں تب سے خراماں خراماں گھروں میں گھس کر برتن تلپٹ کرکے کھانا اچکنے والے مور بھی کم ہوگئے ہیں۔ ہم نے پوچھا کہ شاید کتوں اور دوسرے جانوروں کی تعداد زیادہ ہوگئی ہو تو معلوم ہوا کہ شکاری جانور تو یہاں ہوتے نہیں اور کتے مور کے پنجے دکھ کر ہی بھاگ جاتے ہیں۔ مور اب شہروں میں بڑی بڑی حویلیوں میں مقید کرکے مکینوں کا دل بہلانے کے لئے اسمگل کیے جاتے ہیں۔

ہم یہاں جین مندروں کی تلاش میں نکلے کہ کوئی بجاری رہتا ہو تو ملاقات ہو۔ صرف ایک ہی مندر میں ہمیں دیکھ کر آنے والے شخص نے کہا کہ یہاں پوجا ہوتی ہے مگر آثار ایسے نہیں تھے۔ اس مندر میں ایک جگہ ایک پنگھوڑا رکھا ہوا تھا جس کے بارے میں بتایا گیا کہ کسی نے بچہ ہونے کی منت پوری ہونے پر دان کیا ہوا ہے۔ مگر وثوق سے کہنا مشکل ہے۔

یہ مندر کب بنے اس کا معلوم نہیں مگر کہتے ہیں کہ جین مت کے 23 ویں معلم پرشیواناتھ کی پیدائش نو سے آٹھ سو قبل مسیح کی ہے جس کی شبیہ کی مورتیاں یہاں بنی ہوئی ہیں۔ گو کہ 6 سو سال قبل مسیح میں پیدا ہوئے 24 ویں معلم مہا ویر کے بعد کسی راہنما کا ذکر نہیں مگر اس مذہب کی تعلیمات چھٹی صدی قبل مسیح میں پیدا ہوئے گوتم بدھ کے ہاں بھی بکثرت پائی جاتی ہیں جس سے بدھ مت کا آغاز ہواہے۔

تھر کے صحرا میں بنے جین مندروں میں جو چیز چونکا دیتی ہے وہ یہاں بنے ان دروازوں کے چوکھٹ ہیں جو زیادہ تر ایک ہی پتھر کو انتہائی خوبصورتی سے تراش کر بنائے گئے ہیں۔ کمال تو ان مندروں کے گنبد اور چھتیں بھی ہیں جن کی بناؤٹ اور کشیدہ کاری کئی صدیاں گزرنے کے بعد بھی تر و تازہ ہے۔ ان مندروں میں اعلیٰ کشیدہ کاری، سنگ تراشی کے ساتھ یہاں گیانیوں کے لئے رہائش کے ساتھ روشنی اور ہوا کا معقول انتظام ان کے معماروں کے اعلیٰ ذوق اور علم و ہنر کے اعلیٰ درجات ساتھ یہاں کے مکینوں کی آسودہ حالی کا مظہر بھی ہے۔

حکومت کی طرف سے ایستادہ کیے ایک کتبے پر بطور معلومات فراہم کی گئی اس اطلاع کہ “اس مذہب کے پیرو کار 1965 اور 1971 کے بیچ میں ہجرت کرکے ہندوستان چلے گئے ہیں” میں ایک المیہ مخفی ہے کہ اس دوران ایک پورا مذہب ہمارے ملک سے ختم ہوچکا ہے۔

ثقافتوں اور مذاہب کا پیدا ہونا اور ختم ہونا انسانی تہزیب کا خاصہ ہے۔ آج جو عروج پر ہیں کل ان کا نام و نشان نہ تھا اور شاید آنے والے کل میں کچھ اورعروج پر ہوں گے جن کا آج کہیں ذکر بھی نہیں۔ مگر ہر ثقافت اور مذہب نے علم و ہنر کے پیش بہا انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جو آگے چل کرمجموعی انسانی علمی و ثقافتی ورثے کا حصہ بن گئے ہیں۔ آج ہمارے ہاتھ میں جو سائنس، ٹیکنالوجی اور دیگر علوم و فنون ہیں وہ کسی ایک تہذیب کا ورثہ نہیں بلکہ پوری انسانی تہذیبوں کا نچوڑ ہے۔

تھر کے جین مندروں کے آس پاس بکھرے مورتیوں کے ٹکڑے، مر مر کے سنگریزے اور اکھڑے پلاستر اور گرتی دیواریں اور چھتیں دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ ہم نہ صرف ان مذاہب کے پیروکاروں کے یہاں سے چلے جانے پر خوش ہیں بلکہ ان کے معبدوں کو بھی ملیا میٹ کرنے کے درپے ہیں۔ کہیں ان مندروں کے مرمت کے نام پر پیسے خرچ کیے بھی جارہے ہیں تو کام کا معیار اتنا گھٹیا اور ناقص ہے کہ ایسا کام کرنے والوں کو آثار قدیمہ کو نقصان پہنچانے کے جرم میں سزا دینا ہی انصاف ہوگا۔

تھر ترقی کے راستے پر گامزن ہے یہاں چوڑی سڑکیں بن رہی ہیں، بجلی کے کارخانے لگ چکے ہیں، پانی کی فراہمی کے ساتھ طرز رہائش بھی تبدیل ہور ہی ہے۔ تجربات سے بار بار یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ترقی کے مستقبل کا سفر اور اگلی منزل پچھلے سفر اور ماضی سے مربوط نہ ہو تو ایسی ترقی پائیدار نہیں ہوتی۔ تھر کے شاہکار جین مندر ہمارے ماضی کے سفر کے سنگ میل ہیں اور ان مندروں کی ٹوٹی پھوٹی مورتیاں ماٹی کے کھلونے نہیں بلکہ یہ ہمارا ماضی ہے۔ جب تک یہاں کی ترقی کا سفر ان مندروں اور مورتیوں سے استوار نہیں ہوگا تو خوشحالی اور آسودگی کی منزل کی یقینی مشکل ہوگی۔

تھر کے صحرا میں جا بجا بکھرے جین مندروں کو قومی ثقافتی ورثہ قرار دے کر صرف ایک کتبہ لگا کر فرض پورا کرنے کے بجائے ان کی بحالی کے لئے سنجیدگی سے کوششیں کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ ان مندروں کی بحالی سے نہ صرف یہاں سیاحت کو فروغ ملے گا بلکہ ان کو ملکی اور بین الاقوامی جامعات اور تحقیقی اداروں سے منسلک کرکے ان میں مدفون علم و دانش کے بے بہا خزانے کھوج کر یہاں کی خوش حالی اورترقی کے سفر کے لئے زاد راہ فراہم کیا جا سکتا ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 279 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments