کیا پاکستانی عوام سیاسی شعور سے محروم ہیں؟


پرویز مشرف غداری کیس کا عدالتی فیصلہ آنے کے بعد سے ان کے حق میں ریلیاں اور مظاہرے جاری ہیں۔ اگرچہ اس (فرمائشی) احتجاج کی شدت اور شرکاء کی تعداد کہیں بھی قابل ذکر نظر نہیں آئی۔ تاہم میڈیا پر اس کی بھرپور کوریج اور حکومت کی بیان بازی سے یہ تاثر ضرور بنانے کی کوشش ہو رہی ہے کہ جیسے پاکستانی عوام کی اکثریت سابق فوجی آمر کے حق میں ہے اور ان کے نزدیک عدالت کا کسی سابق آرمی چیف کو غداری کی سزا سنانا انتہائی ناپسندید فعل ہے۔

ان حالات میں بعض لوگ اس مغالطے کا شکار ہو رہے ہیں کہ شاید پاکستانی عوام ابھی شعور کی اس سطح پر نہیں پہنچے کہ وہ فوجی آمریت کے مقابلے میں جمہوری اقدار کو ترجیح دیں۔ تاہم پاکستان کی 72 سالہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو حقیقت اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ ماضی میں آپ کو عوام کی خود ساختہ حمایت کے نام پر فوجی آمروں کی اختیارات سے تجاوز کی مثالیں جا بجا نظر آئیں گی تاہم جب بھی عوام کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملا انہوں نے اپنے سیاسی شعور کا بھرپور اظہار کیا۔ اس حوالے سے گزشتہ چار فوجی آمروں کے دور میں ہونے والے صدراتی انتخابات اور ریفرنڈمز کے جائزے سے دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں۔

پاکستان میں پہلا مارشل لاء سات اکتوبر 1958 ء کی درمیانی شب پاکستان کے پہلے صدر (جنرل) اسکندر مرزا نے لگایا تھا۔ محلاتی سازشوں کے ماہر اسکندر مرزا کا ایک اور تعارف برصغیر کی تاریخ کے معروف غدار میر جعفر کا پڑپوتا ہونا ہے۔ جی ہاں، وہی میر جعفر جس نے 1757 ء میں جنگ پلاسی کے دوران بنگال کے حکمران سراج الدولہ کی انگریزوں کے ہاتھوں شکست میں اپنی سازشوں کے ذریعے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ اسکندر مرزا نے ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے آئین معطل کر کے اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دے کر اس وقت کے آرمی چیف ایوب خان کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔

وہ اس سے پہلے ایوب خان کو جونیئر افسر ہونے کے باوجود آرمی چیف لگانے کے علاوہ مارشل لا کے نفاذ سے صرف تین مہینے پہلے ان کی مدت ملازمت میں دو سال کی توسیع بھی دے چکے تھے۔ تاہم ایوب خان نے مارشل لا لگائے جانے کے 20 دن کے اندر اندر اپنے محسن اسکندر مرزا کو برطانیہ جلا وطن کر کے اقتدار کو پوری طرح اپنی مٹھی میں لے لیا۔

بعدازاں ایوب خان نے اپنے اقتدار کو قانونی تحفظ دینے کے لئے 1960 میں ایک صدارتی انتخاب کروایا۔ پاکستانی عوام کے سیاسی شعور سے خوف کی پہلی جھلک اس ریفرنڈم سے جھلکتی ہے جس میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے شہریوں سے براہ راست رائے لینے کی بجائے ”کنٹرولڈ“ طریقے سے منتخب ہونے والے 80 ہزار ”بی ڈی ممبرز“ کو ووٹ ڈالنے کا موقع دیا گیا۔ اس ریفرنڈم کے ذریعے صدر منتخب ہونے کے بعد جنرل ایوب نے 1956 کے آئین کو ختم کر کے یکم جنوری 1962 کو ایک نیا آئین نافذ کر دیا۔

اس آئین کے تحت جب 1965 میں دوسرا صدارتی الیکشن ہوا تو اس میں بھی پاکستانی عوام کو ووٹ ڈالنے کا موقع دینے کی بجائے ”بی ڈی ممبرز“ کے ذریعے ہی صدر منتخب ہونے کے تجربے کو دہرانے کو ترجیح دی گئی۔ تاہم اس مرتبہ ایوب خان کو مادر ملت فاطمہ جناح کی شکل میں ایک بڑے چیلنج کا سامنا تھا۔ انتخابی مہم کے دوران فاطمہ جناح کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے ایوب خان کو خطرہ محسوس ہوا تو انہوں نے ”بی ڈی ممبرز“ پر کنٹرول مستحکم رکھنے کے لئے حکومتی وسائل اور خفیہ ایجنسیوں کا سہارا لیا۔

تمام تر ہتھکنڈے استعمال کرنے کے باوجود 1960 میں 95.6 فیصد ووٹ لینے والے ایوب خان 1965 میں بمشکل اپنا عہدہ بچا سکے۔ 1969 میں ایوب خان نے عوامی احتجاج پر اقتدار سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا تو اپنے ہی بنائے گئے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل کرنے کی بجائے جنرل یحیی خان کے سپرد کر دیا۔

جنرل یحیی دو سال اور نو مہینے ملک کے اقتدار پر براجمان رہے۔ اس ہنگامہ خیز دور کا اختتام مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر ہوا جس کے بعد یحیی خان کو بھی ایوب خان کی طرح رائے عامہ کی مخالفت پر اقتدار سے الگ ہونا پڑا۔

جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977 کو ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال اور اپوزیشن کے احتجاج کو بنیاد بنا کر ملک میں تیسرا مارشل لاء نافذ کر کے 90 دن میں عام انتخابات کروانے کا وعدہ کیا۔ اپنے اقتدار کو مختلف حیلوں بہانوں کے ذریعے طویل سے طویل کرنے کے خواہشمند ضیاء الحق نے جب 1984 میں صدر بننے کا ارادہ کیا تو ایوب خان کا تجربہ ان کے سامنے تھا۔ انہوں نے صدارتی انتخاب کی بجائے ریفرنڈم کروانے کا فیصلہ کیا تاکہ انہیں کسی مخالف امیدوار کا سامنا ہی نہ کرنا پڑے۔

اس ریفرنڈم میں بھی عوام سے براہ راست یہ سوال نہیں پوچھا گیا کہ کیا وہ جنرل ضیاء الحق کو آئندہ پانچ سال کے لئے ملک کا صدر منتخب کرنا چاہتے ہیں یا نہیں بلکہ اس کی بجائے ریفرنڈم کے لئے چھاپے گئے بیلٹ پیپر پر یہ سوال درج تھا کہ ”کیا آپ اسلامی نظام کا ملک میں نفاذ چاہتے ہیں؟ “۔ اس سوال کا جواب ہاں میں آنے پر جو نتائج مرتب کیے گئے ان کے مطابق جنرل ضیاء الحق 97 فیصد ووٹ حاصل کر کے پانچ سال کے لیے ملک کے صدر منتخب ہو گئے۔

جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 ء کو جب نوکری سے برخاست کیے جانے پر نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا تو اس کے دو سال بعد انہیں بھی دنیا کو دکھانے کے لئے عوامی حمایت درکار ہوئی تو انہوں نے اپنے پیشرو آمر کی طرح صدر بننے کے لئے ریفرنڈم کا ڈھول ڈالا۔ 30 اپریل 2002 ء کو ہونے والے اس ریفرنڈم میں عوام سے جو سوال پوچھا گیا وہ یہ تھا کہ ”مقامی حکومت کے نظام کی بقا، جمہوریت کے قیام، اصلاحات کے استحکام، تسلسل، فرقہ واریت اور انتہا پسندی کے خاتمے اور قائداعظم کے تصور کی تکمیل کے لئے کیا آپ جنرل پرویز مشرف کو آئندہ پانچ سال کے لئے صدرِ پاکستان بنانا چاہتے ہیں؟ “

اس سلسلے میں وزارت قانون کی طرف سے جاری ریفرنڈم آرڈر میں یہ بھی درج تھا کہ اس ریفرنڈم کو کسی عدالت یا ٹربیونل کے سامنے چیلنج نہیں کیا جا سکے گا اور ریفرنڈم کے متعلق تمام تنازعات الیکشن کمیشن طے کرے گا۔ مزید یہ کہ ریفرنڈم کے سلسلے میں اگر کوئی مشکلات درپیش ہوں تو جنرل پرویز مشرف اپنی صوابدید کے مطابق جو مناسب سمجھیں، احکامات جاری کرسکیں گے۔

جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کی طرف سے ہونے والے ریفرنڈم کی ایک اور دلچسپ بات یہ بھی تھی کہ اس کے لئے کوئی ووٹر لسٹ تیار نہیں کی گئی بلکہ کوئی بھی شہری کہیں بھی (کتنی مرتبہ بھی چاہتا) شناختی کارڈ دکھا کر ووٹ ڈال سکتا تھا۔ اس کے باوجود کبھی بھی قوم کو یہ بتانے کی زحمت نہیں کی گئی کہ ان دو ریفرنڈمز میں کتنے افراد نے ووٹ کاسٹ کیے تھے۔

عوام کے سیاسی شعور کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ فوجی آمروں کے دور میں بلیک میلنگ اور زور زبردستی سے بنائی گئی ”کنگز پارٹیاں“ بھی ان کے ساتھ ہی ماضی کا حصہ بنتی رہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد عوامی پذیرائی کے فریب میں مبتلا ہو کر سیاسی جماعتیں بنانے والے جرنیلوں کا انجام بھی کچھ اچھا نہیں رہا اور آخرکار انہیں پس منظر میں جانا پڑا۔

اس حوالے سے پہلا نام ائیر مارشل اصغر خان کا آتا ہے جنہوں نے دو سیاسی جماعتیں ”جسٹس پارٹی“ اور ”تحریکِ استقلال“ بنائی۔ ایئرمارشل اصغر خان نے کئی انتخابات میں حصہ لیا لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی۔ بعدازاں انہوں نے جسٹس پارٹی کو پاکستان جمہوری پارٹی میں جبکہ تحریک استقلال کو تحریک انصاف میں ضم کر دیا۔

آرمی چیف کے عہدے سے ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل مرزا اسلم بیگ نے مسلم لیگ جونیجو سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا اور اس کے سینیئر نائب صدر مقرر ہوئے۔ تاہم کچھ ہی عرصے کے بعد انہوں نے ”عوامی قیادت پارٹی“ کے نام سے اپنی جماعت بنا لی۔ ان کی پارٹی نے 1990 کے عام انتخابات میں حصہ لیا تاہم جنرل مرزا اسلم بیگ خود امیدوار کے طور پر سامنے نہیں آئے۔ اس انتخابات میں ان کی جماعت کوئی قابل ذکر کارکردگی نہ دکھا سکی جس کے بعد انہوں نے سیاست کو خیر باد کہہ دیا۔

جنرل پرویز مشرف اس لحاظ سے سابق فوجی افسران سے مختلف تھے کہ انہوں نے آٹھ برس تک اقتدار میں رہنے کے بعد 2010 میں ”آل پاکستان مسلم لیگ“ کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بنائی۔ ان کا خیال تھا کہ انہیں بھرپور عوامی پذیرائی حاصل ہے تاہم ان کی جماعت 2013 کے الیکشن میں مجموعی طور پر صرف 54 ہزار 231 اور 2018 کے انتخابات میں 36 ہزار 566 ووٹ حاصل کر سکی۔

اس کے علاوہ جنرل ضیاء الحق کے قریبی ساتھی جنرل فیض چشتی نے بھی ”تعمیر پاکستان“ اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل نے ”تحریک اتحاد“ کے نام سے سیاسی جماعت بنائی تھی لیکن آج ان سیاسی پارٹیوں کا وجود تو دور کی بات ہے ان کے نام بھی لوگوں کو یاد نہیں ہیں۔

موجودہ سیاسی منظر نامے کا جائزہ لیا جائے تو سابق فوجی آمر جنرل ایوب خان اور جنرل ضیا کا خاندان اب بھی سیاست میں موجود ہے۔ تاہم ان میں سے ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر انتخاب لڑتے رہے ہیں جبکہ ایوب خان کے پوتے عمر ایوب نے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے لئے بالترتیب مسلم لیگ ق، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے ٹکٹ کا سہارا لیا۔ دوسری طرف جنرل ضیا کے بیٹے اعجاز الحق نے مسلم لیگ ن سے الگ ہونے کے بعد اپنے والد کے نام سے مسلم لیگ ضیا بنا رکھی ہے جو ایک سے دو نشستوں تک محدود ہے۔ یہ حقائق اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ پاکستان کی عوام نے کبھی بھی فوجی اشرافیہ کی سیاست میں مداخلت کو پذیرائی نہیں دی ہے اور نہ ہی ان کے سیاسی کردار کو کبھی تسلیم کیا ہے۔

نعیم احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعیم احمد

نعیم احمد ماس کمیونکیشن میں ایم ایس سی کر چکے ہیں۔ سیاسی اور سماجی موضوعات پر لکھنے کا شوق رکھتے ہیں۔

naeem-ahmad has 9 posts and counting.See all posts by naeem-ahmad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments