سردی اور زندگی کا امتحان


کیا آپ نے سردی سے بچنے کا بندوبست کرلیاہے؟ گرم کپڑے، خشک میوے، ہیٹر، گیزر اور جو کچھ بھی آپ کرسکتے ہیں۔ یقینا مہنگائی کے رونے دھونے کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی بساط کے مطابق بندوبست ہوگا مگر خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں سے اگر یہی سوال کریں تو تصور کریں کہ ان کا جواب کیا ہوگا؟

ہفتے کی شام لاہورمیں سردی کچھ زیادہ ہی تھی یا پھر مجھے اس کا احساس زیادہ ہورہا تھا، کمبل میں چھپ کرسردی سے بچنے کی کوششیں جاری تھیں کہ اس دوران ایک ضروری کام کے لیے گھر سے باہر جاناپڑا، کمرے سے نکل کر گھر کے باہرکھڑی گاڑی تک کا فاصلہ مجھے معلوم ہے کہ کس طرح طے کیا، خدا خدا کرکے گاڑی میں پہنچا تو ہیٹر چلا کر پہلے اپنے یخ ہونے والے ہاتھ پاؤں گرم کیے اورپھر منزل کی جانب چل نکلا۔ سردی کے اس احساس کے ساتھ محوسفر تھا کہ راستے میں بہت سی جگہوں پر سڑک کنارے، بچے، خواتین اوربوڑھے لوگ اپنا پیٹ بھرنے کی خاطرمخیرحضرات کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔

کسی نے ایک سکہ، کسی نے دس روپے توکسی اللہ کے بندے نے حاتم طائی بن کرغریب کوخوش کردیا، یہ سلسلہ ہم سے اکثرلوگ روزانہ ہی دیکھتے ہیں، ٹریفک سگنلز پریہی مناظر دیکھے جاتے ہیں، یہ الگ کہانی ہے کہ کون واقعی غریب ہے اورکون پیشہ وربھکاری ہے مگر اللہ کی دی ہوئی نعمتوں سے دل کھول کر دینے والے حسب استطاعت خیرات کرکے اللہ کاشکرہی اداکرتے ہیں، یہ شکوہ نہیں کرتے کہ حکومت پیشہ وربھکاریوں کو پکڑتی کیوں نہیں، بھیک مانگنا یا نہ مانگنا بندے کا اوراللہ کامعاملہ ہے، دینے والوں کو بہرحال یہ سوچنے کی ضرورت نہیں، کچھ دینا ہے تو دیں، نہیں دینا توعزت نفس مجروح نہ کریں۔

سڑک پرجاتے ہوئے میں یہ سوچ رہاتھا کہ ہم سے اکثرکے پاس گاڑی، موٹرسائیکل یا پھر کسی بس، وین پرسفرکرنے کی استطاعت ہے مگر کتنے ہی لوگ پیدل چل رہے ہیں، کتنے ہی لوگ پیدل بھی نہیں چل پاتے کیوں کہ ان کے پاس ٹانگیں ہی نہیں، ہم سردی سے بچنے کے لیے کئی کئی جتن کرنے کی پوزیشن میں ہیں مگر کتنے ہی لوگ ایسے ہیں کہ سخت موسم میں بھی جن کے پاس تن ڈھانپنے کے لیے گرم کپڑے نہیں۔ اگرہم یہ سوچیں کہ انہیں سردی محسوس ہی نہیں ہوتی توشاید غلط ہوگا کیوں کہ انسانی ڈھانچہ توایک ہی جیسا ہے، ان کی ہڈیوں پربھی وہی گوشت پوست ہے جو عام لوگوں پر ہے توجیسے عام لوگوں کو سردی لگتی ہے کیاخط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کوسردی نہیں لگتی؟

میراخیال ہے کہ ایسا نہیں، سرد موسم میں ان کی طبعیت پر کیا گزرتی ہے یہ شاید وہی بہترجانتے ہیں یا پھر ان کی سطح پر آکر دیکھنے کی صورت میں ہی یہ احساس ہوگا کہ سردی میں انہیں کیسے محسوس ہوتاہے۔ اگر کمرے سے گاڑی تک پہنچنے میں میرا جسم یخ ہوگیا، میں ٹھٹھرگیاتوآپ کوبھی ایسا ہی محسوس ہوتاہوگا، اگر میرا اورآپ کا یہی حال ہے توپھر کیاغریب پتھر کا بناہے؟ بے جان ہے؟ یا پھر وہ نوع انسانی نہیں؟ موسم کی سختیوں کا اثر غریب اورامیر کو نہیں دیکھتا، یہ ایک ہی طرح ہوتاہے۔ ہاں یہ ہوسکتاہے کہ ان کو خدا نے قوت برداشت بھی زیادہ دی ہو، اگر مال ودولت سے محروم رکھاہے تو اس سے پیدا ہونے والے مسائل کو برداشت کرنے کی طاقت انہیں زیادہ ہمت دیتی ہے۔

مجھے توبہت ڈر لگاکہ اگر خدا نے یہ پوچھ لیاکہ بتاؤ میرا ایک بندہ سڑک پر ٹھٹھر رہا تھا اورتو نے اس کی کچھ مدد نہیں کی توشاید میرے پاس کوئی جواب نہ ہو، ممکن ہے آپ کے پاس کوئی جواب ہو۔ اگر ہے تومجھے بھی ضرور بتائیں شاید میں اس کشمکش سے باہر نکل سکوں، میری پیسوں سے بھری جیب پرکہیں سڑکوں پرٹھٹھرتے انسانوں کابھی حق تو نہیں؟ میں ان کاحق دبا کر تونہیں بیٹھا؟ اگرسوچیں تو ذہن میں کئی سوالات جنم لیں گے، بس ہمیں ان کے جوابات ڈھونڈنے ہیں، ایک فکر یہ بھی رہنی چاہیے کہ ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے تک کہیں وقت ہی ختم نہ ہوجائے، وہ وقت جوہمیں قدرت نے زندگی کے امتحان کے لئے دے رکھاہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments