بھٹو کی بے نظیر بیٹی تجھے سلام!


آج جب میں یہ تحریر لکھنے بیٹھا ہوں تو 27 دسمبر 2007 کے اس قیامت خیز منظر نے میری روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ وہ منظر م میرے ذہن میں آتے ہی میری روح کانپ جاتی ہے۔ وہ آواز جیسے ہی میرے کانوں میں پڑی کہ ”بینظیر بھٹو شہید ہوگئی ہے“ مانوں میرے ہوش و حواس خطا ہو گئے۔ ایک پل کے لیے جیسے میرے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہی ختم ہو گئی۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے پاکستان میں انتخابات کا وقت تھا 8 جنوری 2008 کو ملک میں عام انتخابات ہونے تھے۔

ہر کوئی اپنی انتخابی مہم میں مصروف تھا۔ میں بھی انتخابات کے سلسلے میں حیدر آباد کے حیدر چوک میں پیپلز پارٹی کی انتخابی کیمپ میں موجود تھا۔ ہر سوں بھٹو کے نغمے و نعرے تھے۔ بچے، بڑے، جوان جوق در جوق پیپلزپارٹی کے انتخابی کیمپ پہ آرہے تھے۔ اسی وقت ہمارے ایک دوست کے موبائل کی گھنٹی بجی اور اس نے کہا کہ ”پنڈی میں محترمہ کے جلسے میں دھماکا ہوا ہے۔ محترمہ شدید زخمی ہیں“ یہ سنتے ہی میں گھر کی طرف دوڑا اور پہنچتے ہی ٹی وی دیکھا تو محترمہ کے شہید ہونے کی خبر چل رہی تھے۔ وہ منظر اور آواز آج بھی مجھے پریشان کردیتے ہے۔

وہ اپنے بابا کی پنکی تھی۔ وہ اپنے بابا کا بازو تھی۔ وہ دختر پاکستان تھی۔ وہ آواز تھی پاکستانیوں کی۔ اس کے دل میں پاکستان اور پاکستانی بستے تھے اور پاکستانیوں کے دلوں میں وہ آج بھی زندہ ہے۔ وہ صرف نام ہی کی بے نظیر نہیں تھی پر حقیقت میں اس کی ہر ادا بے نظیر تھی۔

شہید رانی آج بھی کروڑوں لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ شہید بے نظیر بھٹو کو سیاست ورثی میں ملی تھی۔ اس خاندان نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے بھی پاکستان میں جمہوریت کا بول بالا کیا۔ ہر آمر اور ڈکیٹر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ضیاء کی مرشل لا اور سختیوں کا سامنا کیا۔ مشرف کی رعونت پے خاک ڈال کر اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ لاکھوں خطروں کے باوجود بھی بینظیر وطن واپس آئیں اور بم دھماکوں سے پھر ڈرانے و دھمکانے کی کوشش کی گئی۔ پر وہ بھٹو کی بیٹی کہا ڈرنے والی تھی۔ اس نے ہر سازش کو بے نقاب کیا۔ دو مرتبہ ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا پر وہ پھر بھی نہ جھکی اور پاکستانیوں کی آواز بن کر ہر سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

”ظلم کی زنجیریں توڑنے۔ مظلوموں سے رشتے جوڑنے۔ دکھ کے دریاؤں سے گزرنے۔ اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کہ بھٹو کی بیٹی آئی تھی“

اسے شاید معلوم تھا کہ اس نے شہید ہونا ہے۔ اور قدرت کو بھی شاید یہی منظور تھا۔ بے نظیر بھی اسی جگہ جگہ شہید ہوئے جہاں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا تھا۔ شاید اسے اپنی شہادت کا علم ہو چکا تھا تبھی اس نے اپنی آخری تقریر میں جذباتی القاب کہے ”یہ دھرتی مجھے پکار رہی ہے۔ اس لیے میں اس تاریخی لیاقت باغ میں آئی ہوں“

مارنے والے تو زندہ ہو کر بھی مردہ ہیں۔ پر وہ شہید کو کر بھی امر ہے۔ آج بھی ہر پاکستانی کے دل میں بینظیر بستی اور بستی رہے گی۔
ستم یہ نہیں کہ ہم مر جاتے ہیں
ستم یہ ہے کہ ہمیں مارا جاتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments