کیا سیکولرازم، لبرل ازم اور کیمون ازم قابلِ مبادلہ اصطلاحات ہیں؟


امسال ”طلبہ یکجہتی مارچ“ کی صورت، جہاں طلبہ سیاست نے کئی دہائیوں بعد انگڑائی لی اور اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل مچا دی، وہیں سماجی رابطے کی ویب سائٹس فیس بک، ٹویٹر، اور انسٹاگرام پر دائیں اور بائیں بازو کی سیاست اور ان سے جڑے کچھ موضوعات پر بحث کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ایک خاص حلقے کی طرف سے مارچ کے منتظمین وشرکا کو بالخصوص اور ان کے حق میں بولنے والوں کو بالعموم ”لبڑل، دیسی لبرل، سرخے، کیمونسٹ، ملحد اور سیکولر“ سمیت بسیار القابات سے نوازا گیا۔

یہ بات درست ہے کہ پروگریسیو سٹوڈنٹس کولکٹیو، مزدور کسان پارٹی، لال، اور دیگر ترقی پسند طلبہ، اساتذہ، مصنفین، صحافیوں اور سماجی کارکنوں کی شرکت سے مارچ پر لال رنگ غالب رہا مگر وہاں لاتعداد ایسے شرکاء بھی شریک رہے جو سرخ سبز اور دائیں بائیں کے جھگڑوں سے ماورا طلبہ حقوق کے تحفظ کی ایک مشترکہ کوشش کے لیے اکٹھے تھے کیونکہ تمام نہ سہی مگر، طلبہ یونینز کی بحالی، فیسوں میں کمی، تعلیمی بجٹ میں اضافہ جیسی کچھ ڈیمانڈز مشترک تھیں۔

مارچ کی ڈیمانڈز کو پس پشت ڈال کر تنقید کرنے والوں نے، پڑھنا تو درکنار لغت بھی دیکھے بغیر لال رنگ اور اس سے جڑی آئیڈیالوجی کو اسلام اور پاکستان کے لئے خطرہ قرار دیتے ہوئے ”لبرل ازم، کمیون ازم، سیکولرازم اور الحاد“ جیسی اصطلاحات کا استعمال متبادل کے طور پر کیا حالانکہ حقیقی معنوں میں یہ اصطلاحات قابلِ مبادلہ نہیں ہیں۔

لال رنگ کمیون ازم ( اشتراکیت) کے ساتھ خون کا رنگ ہونے کی وجہ سے برابری، طاقت، تبدیلی، جوش اور عزم کا بھی استعارہ ہے۔ کمیون ازم نے برابری کے نام پر اکثریت کو اقلیت کی بنائی ہوئی جہنم میں جھونکا تو گزشتہ صدی کے آخر میں اس کے ساتھ کیا ماجرا ہوا اور سرمایہ دارانہ نظام میں جبر کی کون کون سی صورتیں موجود ہیں اس دقیق علمی بحث میں پڑے بغیر میرا مقصود بہت سادگی اور اختصار کے ساتھ مندرجہ بالا اصطلاحات میں فرق واضح کرنا ہے۔

سیاسی اصطلاح میں سیکولرازم، ریاستی امور کو مذہبی معاملات سے الگ کرنے کا اصول ہے۔ سیکولرازم کو فکری بنیادیں یونانی اور رومی فلاسفہ ذینو اور مارکس اور یلیس سے ملتی ہیں۔ علاوہ ازیں جان لاک، والٹیئر، جیمز میڈیسن، تھامس جیفرسن اور تھامس پین جیسے روشن خیال فلاسفہ نے اسے مزید تقویت بخشی۔ پاکستان میں اکثریت سیکولرازم کو الحاد، دہریت اور لا دینیت کے متبادل کے طور پر دیکھتی ہے۔ سیکولر جمہوریت میں قانون اور پارلیمنٹ کے سامنے تمام شہری برابر ہوتے ہیں اور کسی طرح کے فوائد یا نقصانات مذہبی وابستگی سے مشروط نہیں ہوتے۔ ایک مذہب کو ماننے والا شہری اتنے ہی حقوق اور فرائض کے ساتھ ریاست کا شہری ہے جتنا کوئی دوسرے مذہب کا ماننے والا۔ سیکولر ازم قطعی طور پر خدا یا کسی مذہب کے وجود کا منکر نہیں ہے بلکہ یہ اصول بہت ساری آزادیوں کا تحفظ کرتا ہے۔

جس میں کسی بھی شہری کو اپنے ضمیر کے مطابق کسی بھی مذہب یا عقیدے پر عمل کرنے کے ساتھ اسے تبدیل کرنے یا نہ کرنے کی آزادی بھی شامل ہے۔ یوں سیکولر ازم کے حامی ریاست کے تمام شہریوں کے لیے یکساں طور پر مذہب اور ضمیر کی آزادی چاہتے ہیں اور کسی طرح بھی مذہبی آزادیوں کو کم کرنے کی خواہش نہیں رکھتے۔

مختصرا سیکولرازم کے مطابق حکومتوں کو مذہب کے معاملے پر غیر جانبدار رہنا چاہیے اور مذہبی انتخاب و عمل کا حق ریاست کے تمام شہریوں کو بلا امتیاز دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

لبرل ازم بطور ایک سیاسی فلسفہ افراد کے لیے بنیادی آزادیوں کے تحفظ اور قانون کی نظر میں برابری کے اصولوں پر مبنی ہے۔ مزید تفہیم کے لیے کہا جا سکتا ہے کہ یہ اصول، محدود حکومت، انفرادی حقوق ( شہری حقوق اور انسانی حقوق بشمول نجی ملکیت کا حق ) ، آزاد منڈیوں، جمہوریت، سیکولرازم، صنفی مساوات، نسلی مساوات اور عالمگیریت کی توثیق کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ تقریر کی آزادی، آزادی صحافت اور مذہب کی آزادی بھی بنیادی آزادیوں کے طور پر لبرل ازم کے ساتھ وابستہ ہیں۔

بطور سیاسی اور دانشورانہ روایت، لبرل ازم کو 17 ویں صدی میں عروج ملا جبکہ کچھ لبرل فلسفیانہ نظریات قدیم یونانی اور چینی فلسفہ میں بھی پیش رو رہے ہیں۔ لبرل ازم کے بانیوں میں انگریز فلسفی جان لاک ( 1632۔ 1704 ) نے فطری انفرادی حقوق اور شہریوں اور ریاست کے مابین عمرانی معاہدہ (Social Contract) پر مبنی سیاسی اقتدار کا نظریہ پیش کیا۔ اسکاٹش ماہر معاشیات اور فلسفی ایڈم سمتھ ( 1723۔ 90 ) کے مطابق معاشرے اس وقت خوشحال ہوتے ہیں جب افراد ریاست اور نجی اجارہ داریوں سے آزاد، معاشی نظام میں پیداواری ذرائع اور مسابقتی منڈیوں کی نجی ملکیت پر مبنی آزاد مفادات کو حاصل کرسکیں۔

یوں جدید لبرل ازم کے مطابق ریاست کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ وہ ان رکاوٹوں کو دور کرے جو افراد کو آزادانہ طور پر زندگی گزارنے یا اپنی صلاحیتوں کو پوری طرح سے بروئے کار لانے سے روکتی ہیں۔ اس طرح کی رکاوٹوں میں غربت، بیماری، امتیازی سلوک اور جہالت بھی شامل ہیں۔ لبرل نظام میں انفرادی آزادی کا دائرہ جنتا وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے ریاست کے اختیارات اتنے ہی محدود ہوتے ہیں۔ کیونکہ لبرل فلسفیوں کا ماننا ہے کہ ”انسان ریاست کے لئے نہیں ریاست، انسان کے لیے وجود میں آئی۔ “

مختصراً لبرل ازم ایسا سیاسی فلسفہ ہے جو انسان کو سرشتً خیر مانتے ہوئے ترقی پر اعتقاد رکھتا ہے اور فرد کی خود مختاری، سیاسی اور شہری آزادیوں کے تحفظ کے لئے کھڑا ہے۔

کیپیٹل ازم (جاگیرداری نظام) آزاد کاروباری معیشت کا ایسا نظام ہے جس میں پیداوار کے بیشتر ذرائع نجی ملکیت ہوتے ہیں۔ پیداوار اور آمدنی خود کار منڈیوں کے ذریعے تقسیم ہوتی ہے۔ 17 ویں اور 18 ویں صدی میں بڑھتی ہوئی انگریزی کپڑوں کی صنعت سے ترقی پاتا یہ نظام پچھلے نظاموں سے اس طرح ممتاز ٹھہرا کہ یہ معاشی طور پر غیر پیداواری کاروباری اداروں جیسا کہ گرجا گھروں میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے پیداواری صلاحیت کو وسعت دینے کے لئے جمع شدہ سرمایے کے استعمال پر زور ریتا ہے۔ ایڈم اسمتھ نے ”دولت اقوام“ (The Wealth of Nations۔ 1776 ) میں کلاسیکی سرمایہ داری کے نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے معاشی فیصلوں کو خود ضابطہ باز (Self۔ Regulated) مارکیٹ قوتوں کے آزادانہ کھیل پر چھوڑنے کی سفارش کی ہے۔

کمیون ازم کے فلسفہ کے مطابق معاشرے کا موجودہ نظم (Current Order) اس کے معاشی نظام (کیپٹل ازم ) سے جنم لیتا ہے اور یہ نظام معاشرے کو دو بڑے طبقات (مزدور اور سرمایہ دار) میں بانٹ دیتا ہے اور یہی طبقاتی تنازعہ معاشرے میں موجود تمام مسائل کی جڑ ہے اور اس کا واحد حل کیمونسٹ معاشرے کا قیام ہے جو کہ معاشرتی انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے اور یہ انقلاب مزدور طبقے کو اقتدار میں لائے گا اور ذرائع پیداوار کی سماجی ملکیت قائم کرے گا۔

یوں معاشرہ سرمایہ دارانہ نظام سے کمیونسٹ نظام کی طرف بڑھے گا۔ کمیون جوکہ ایک فلسفیانہ، معاشرتی، سیاسی، اور معاشی نظریہ اور تحریک ہے اس کا حتمی مقصد ایک کمیونسٹ معاشرے کا قیام ہے۔ ایک ایسا سماجی و معاشی نظم (Socioeconomic order) جس کی تشکیل، اسباب پیداوار کی مشترکہ ملکیت اور معاشرتی طبقات، دولت اور ریاست کے خاتمے سے مشروط ہے۔

کمیون ازم اور سوشل ازم کے مابین فرق بھی ایک عرصہ موضوع بحث رہا ہے۔ کمیون ازم کے حامیوں کے مطابق یہ سوشلزم کی ہی ایک اعلی اور زیادہ جدید شکل ہے۔ پہلے پہل کارل مارکس اور اینگلز بھی دونوں اصطلاحات کو بدل کر استعمال کرتے رہے تاہم ”کیرٹیک آف دی گو تھہ پروگرام“ ( 1875 ) میں، مارکس نے فرق کو واضح کرتے ہوئے کمیون ازم کے دو مراحل کی نشاندہی کی : پہلا ایک عبوری مرحلہ جس میں محنت کش طبقہ ( پرولتاریہ) حکومت اور معیشت پر قبضہ کر لے گا مگر طبقاتی نظام کی کچھ باقیات موجود رہیں گی اس مرحلے کو مارکس سوشلزم کہتا ہے، اور دوسرے مرحلے پر کمیون ازم پوری طرح رائج ہو جائے گا اور معاشرے سے طبقاتی تقسیم یا حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا اور سامان کی پیداوار اور تقسیم ”ہر ایک کو اس کی ضروریات کے مطابق“ کے کیمونسٹ اصول پر مبنی ہوگی۔

دیکھا جا سکتا ہے کہ نجی ملکیت کا حق اور بنیادی آزادیوں کا لبرل اصول سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی ناہمواریوں کو جواز فراہم کرتا ہے اور ان ناہمواریوں کے خلاف کمیون ازم یا سوشل ازم کی تحریک شروع ہوئی یوں دونوں نظام ایک دوسرے کی ضد ہوئے۔ اسی طرح الحاد اور سیکولرازم بھی متبادل اصطلاحات نہیں ہیں کیونکہ ثانی الذکر قطعی طور پر خدا اور مذہب کا منکر نہیں ہے۔ یوں آپ کمیونسٹ پر لبرل ہونے کا الزام عائد نہیں کر سکتے ہاں مگر کیمونسٹ سیکولر اور لبرل سیکولر کے ساتھ کوئی شدید مذہبی شخص بھی سیکولر ہوسکتا جو یہ مانے کہ مذہب اس کا ذاتی مسئلہ ہے ریاست اسمیں مداخلت کا حق نہیں رکھتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments