افسانہ :گر سمجھ سکو


دکان کا دروازہ کھولتے ساتھ ہی ٹھنڈک کا ایک لطیف احساس ہوا۔ اندر کا ٹھنڈا ماحول باہر پڑ رہی شدید گرمی کے مقابلے میں انتہائی خوشگوار معلوم ہو رہا تھا اور دل ودماغ کو پر سکون کیے دے رہا تھا۔ میں نے دکان کے اندر داخل ہو کر کچھ دیر اس احساس کو اپنے اندر اتارا پھر ٹوکری اٹھا کر اپنی مطلوبہ اشیاء کی جانب چل دیا۔ دن کے گیارہ بج رہے تھے اور دکان میں اکّا دکا خریداروں کے علاوہ کوئی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ میں نے انتہائی فرصت اور اطمینان سے اپنی مطلوبہ اشیاء کو منتخب کیا اور ٹوکری اٹھا کر کاؤنٹر کی جانب بڑھا۔

وہاں میرے سے پہلے ایک سیاہ فام کھڑا کاؤنٹر پر موجود لڑکے سے بات کر رہا تھا۔ وہ مجھے دیکھتے ساتھ ہی ایک طرف کو ہٹ گیا تاکہ میں اپنی خریداری مکمل کر سکوں۔ اس سیاہ فام کے چہرے پر مجھے عجیب سی وحشت نظر آئی جسے میں چاہ کر بھی نظرانداز نہیں کر پایا میں نے آگے بڑھ کر ٹوکری کاؤنٹر پر رکھی اور جیب سے پرس نکالنے لگا۔ اسی اثناء میں میری نظر اس سیاہ فام پر پڑی اور میں ٹھٹھک کر رہ گیا۔ وہ تیز نظروں سے مجھے گھور رہا تھا اور اس کی آنکھوں میں سوچ کے سائے لہرا رہے تھے۔

میری توجہ اپنی طرف پاکر اس نے پھرتی سے اپنی نگاہیں موڑیں اور کاؤنٹرپر موجود کتابوں کو الٹ پلٹ کرنے لگا۔ میں اس کے عجیب و غریب رویے پر غورکرتا لفافے اٹھائے باہر کی طرف بڑھا۔ ابھی دو ہی قدم اٹھائے ہوں گے کہ مجھے میرے فون کا خیال آیا جسے میں نے ٹوکری کے ساتھ ہی کاؤنٹر پر رکھ دیا تھا۔ میری بجلی کی سی تیزی کے ساتھ مڑا اور کاؤنٹر پر نظریں دوڑائیں۔ وہ خالی پڑا تھا۔ کاؤنٹر پر موجود لڑکے نے خالی ٹوکری اٹھا کر باقی ٹوکریوں کے ساتھ رکھ دی تھی، اور اب دوبارہ سیاہ فام کی طرف متوجہ ہوا ہی چاہتا تھا جو کہ ابھی تک کتابیں دیکھنے میں مصروف تھا۔

میں تیزی سے اس لڑکے کی جانب آیا اور اپنے فون کی بابت دریافت کیا۔ پہلے تو اس نے ناسمجھی سے مجھے دیکھا پھر معاملہ سمجھ میں آتے ہی کاؤنٹر پر نظریں دوڑائیں اور اِدھر اُدھر فرش پر دیکھنے لگا۔ وہ ایک دم سخت پریشانی میں مبتلا ہو گیا تھا۔ میں نے دکان میں موجود فون سے اپنا موبائل نمبر ملایا جو کہ حسبِ توقع بند جا رہا تھا۔ وہ لڑکانیا نیا ہی ملازمت پر آیا تھا۔ اس کی پریشانی اور گھبراہٹ میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔

میں نے اس کی پریشانی کو خاطر میں لائے بغیر غصے میں اس سے کیمرے کی فوٹیج کے بارے میں پوچھا۔ اس کے چہرے پر یکایک سراسیمگی پھیل گئی۔ وہ ہکلا کر بولا؛ س سر۔ یقین کریں، آج صبح ہی وائرنگ میں مسئلہ ہوا تھا۔ دکان کے سب کیمرے بند پڑے ہیں۔ س سر آپ پریشان مت ہوں۔ فون ادھر ہی ہو گا ابھی مل جائے گا۔ اور وہ ہڑبڑاہٹ میں ادھر ادھر ہاتھ مارنے لگا کہ شاید کہیں سے فون اچانک نمودار ہو جائے اور اس کی نوکری کو بچا لے۔

میرا غصہ اب ساتویں آسمان کو چھونے لگاتھا۔ اس ساری اتھل پتھل کو دیکھ کر دکان میں موجود اکا دکا خریدار بھی ہماری طرف متوجہ ہو چکے تھے اور دیکھ رہے تھے کہ اب آگے کیا ہو گا۔ میرا پورا شک اس سیاہ فام پر جا رہا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ یہ حرکت اسی نے کی ہے۔ لیکن وہ میرے سامنے کتابوں کے آگے سے ہلا بھی نہیں تھا۔ میں کیسے اس پر الزام لگا سکتا تھا۔ میں نے سوچا وہ اتنی پھرتی سے فون غائب کر سکتا ہے تو اب تلاشی کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

مجھے اپنی طرف متوجہ پاکر وہ سیاہ فام آگے بڑھا اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں مجھ سے بولا کہ آپ پریشان نہ ہوں، یہاں کون سا بھیڑ ہے۔ آپ سب کی تلاشی لیں یقیناً آپ کو آپ کا چور مل جائے گا۔ اب تو مجھے میرے اندازوں پر پورا یقین ہو گیا۔ دکان کے بقیہ لوگوں کو خوامخواہ پریشان کرنے سے کچھ نہیں ملنے والا تھا۔ میں اب ذہنی طور پر بھی اپنے قیمتی فون سے دستبردار ہو گیا۔ میری نے کاؤنٹر پر موجود لڑکے کو اپنا رابطہ نمبر دیا کہ جیسے ہی کوئی اطلاع ملے مجھے فوراً مطلع کرے اور میں اس سیاہ فام پر ایک گہری نظر ڈال کر باہر کی طرف بڑھا۔

مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آن کی آن میں اس نے فون اٹھایا تو اٹھایا کیسے۔ میں سِم بند کروانے کے طریقہ کار کے متعلق سوچتے ہوئے دروازہ کھول کر باہر نکلا۔ ایک دم ہی لو کا ایک تیز جھونکا میرے جسم سے ٹکرایا۔ مجھے لگا میرے اندر موجود غصے اور پریشانی کی آگ نے موسم پر بھی اپنا اثر ڈالا ہے اور وہ مزید گرم ہو گیا ہے۔ مجھے اپنے پیچھے تیز قدموں کی آواز آئی اور کسی نے میرے کندھے کو ہلکے سے چھوا۔ میں نے مڑکر دیکھا تو وہی سیاہ فام کھڑا تھا، اس کی آنکھوں کی وحشت تیز دھوپ کی روشنی میں اور بھی نمایاں ہو رہی تھی، جس میں ایک عجیب سی بے بسی اور ڈر کا امتزاج بھی تھا۔

اس نے میرے ہاتھ پکڑ لئے اور ایک دم ہی میرے سامنے گڑگڑانے لگا کہ میں اپنے فون کو تلاش کیے بغیر یہاں سے مت جاؤں۔ مجھے سخت حیرت ہوئی، میں نے اپنے ہاتھ چھڑوا کر وہاں سے نکلنا چاہا لیکن وہ مصر رہا۔ مجھے اب کوفت ہونے لگی تھی کہ اچانک اس نے میرا فون اپنی جیب سے نکال کر میرے سامنے رکھ دیا۔ اور مجھ سے التجا کرنے لگا کہ میں آپ کا مجرم ہوں۔ میں نے چوری کی ہے۔ برائے مہربانی مجھے پولیس کے حوالے کر دیجیئے۔

اس کی جیب سے اپنا فون برآمد ہوتے دیکھ کر جو غصہ ابال بن کر میرے اندر ابھرا تھا اس کی عجیب و غریب حرکتیں دیکھ کر حیرت میں بدل گیا۔ مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کیا جائے۔ اس بندہِ خدا نے میرا فون چرایا پھر خود ہی واپس بھی کر دیا اور اب کہہ رہا ہے کہ اسے پولیس کے حوالے بھی کیا جائے، یا خدا یہ کیا ماجرا ہے آخر۔ میں نے معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کا تہیہ کر لیا۔ میں نے اس سیاہ فام کو کندھوں سے پکڑ کر سیدھا کھڑا کیا اور تسلی دی کہ میں اسے کچھ نہیں کہوں گا اور نہ ہی پولیس کے حوالے کروں گا۔

وہ بغیر کسی پریشانی کے مجھے بتائے کہ اس نے یہ حرکت آخر کی کیوں۔ میری باتیں سن کر اب تو وہ سیاہ فام باقاعدہ رونا شروع ہو گیا اور تیز تیز کچھ بولنا شروع ہو گیا۔ اس کی زبان میرے سر کے اوپر سے گزر رہی تھی۔ میں نے اسے تسلی دینے کی پوری کوشش کی لیکن میری اس کوشش کے نتیجے میں اس کے آنسوؤں کی روانی میں اور تیزی آگئی۔ آخر تنگ آ کر مجھے اس سے وعدہ کرنا پڑا کہ میں ضرور اسے پولیس کے حوالے کروں گا اور اس کے خلاف رپورٹ درج کرواؤں گا کہ اس نے چوری کی ہے۔

اسی شرط پر وہ مجھے اپنی عجیب و غریب حرکتوں کی بابت بتانے پر رضامند ہوا۔ ہم درختوں کے سائے میں ایک بنچ کے نیچے بیٹھ گئے۔ سورج اب بھی آگ برسا رہا تھا لیکن میرا دماغ اس سیاہ فام میں اٹکا ہوا تھا جسے میں پولیس کے حوالے کرنے کا وعدہ کر بیٹھا تھا۔ اب اس کی آنکھوں میں وہ وحشت مدھم سی امید کے ساتھ چمک رہی تھی۔ اس نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اپنی بات کا آغاز کیا۔ اس کی باتوں کو سمجھنے میں مجھے دقت پیش آ رہی تھی لیکن میں ہمہ تن گوش رہا۔

اس نے بتانا شروع کیا کہ اس کا تعلق ایک غریب ملک کے پسماندہ علاقے سے ہے اور کس طرح راتوں رات امیر بننے کے خواب نے اسے برباد کر دیا۔ ایک جعلی ٹریول ایجنٹ نے امریکہ میں اچھی نوکری کے خواب دکھا کر اس سمیت دس بارہ اور لڑکوں کا خون تک نچوڑ لیا اور پیسے لے کر فرار ہو گیا۔ قصہ مختصر کہ اب وہ یہاں اپنا سر چھپائے بیٹھا ہے اور باقی لڑکوں کے متعلق اسے کچھ معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔ نہ ہی پاسپورٹ ہے اس کے پاس اور نہ ہی کوئی اور کاغذات کہ جس سے وہ اپنی پہچان کرا سکے۔

وہ کہنے لگا کہ آپ کا فون میں نے اسی لئے چرایا کہ وہ قیمتی لگ رہا تھا اور آپ یقینا اپنے چور کو سزا دلوانے کی کوشش کرتے۔ میرے پاس سے چوری کا سامان برآمد ہوتا اور مجھے اسی الزام میں میرے وطن واپس بھجوا دیا جاتا۔ چاہے جو بھی طریقہ کار ہو، چاہے جو بھی سزا ملے لیکن میں اپنے گھر اپنے وطن واپس جانا چاہتا ہوں۔ اس کی کہانی سن کر میں دنگ رہ گیا۔ کیا پیسہ کمانے کا خواب دیکھنا غلط ہے؟ یا اس کے حصول کے لئے جلد بازی کرنا غلط ہے؟

کیسے وحشی درندے معصوم لوگوں کی معصومیت کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنے انجام کو یکسر فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ کچھ دیر پہلے مجھے اس کی دیدہ دلیری پر غصہ آ رہا تھا کہ کس قدر بیشرمی سے اس نے میرا فون اٹھا لیا پر اب مجھے اس کی بہادری میں چھپی بیبسی صاف نظر آ رہی تھی۔ میں نے آسمان کی طرف دیکھا، مجھے لگا ک سورج ہنس رہا ہے ؛ ایک تحقیر آمیز ہنسی! اور مجھے کہہ رہا ہے کہ دیکھ لو۔ تمہیں میری کرنیں بری لگ رہی تھیں۔ اب کہو؟ کیا یہ تپش صرف میری کرنوں کی ہے یا اس میں بنی نوع انسان کی سفاکی اور درندگی کا بھی کوئی عمل دخل ہے؟ میں بے اختیار سورج سے نظریں چرا گیا اور اس سیاہ فام اجنبی کے ساتھ پولیس سٹیشن کی جانب چل دیا۔

ربیعہ خالد
Latest posts by ربیعہ خالد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments