وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تیاریاں؟


گزشتہ عام انتخابات کے بعد رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں بلوچستان عوامی پارٹی نے تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، تحریک انصاف، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، بی این پی عوامی اور جمہوری وطن پارٹی کے ساتھ مل کر اتحادی حکومت بنائی۔ جام کمال وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ حکومت کے قیام کے چند روز بعد بلوچستان عوامی پارٹی میں اختلافات کی خبریں منظر عام پر آگئیں لیکن پاکستان میں صدارتی انتخابات کے بعد صوبہ بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل دو بڑی جماعتوں بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصاف کے اختلافات منظر عام پر آ گئے۔

تحریک انصاف نے الزام عائد کیا تھا کہ وزیر اعلیٰ جام کمال پارٹی کی صوبائی قیادت کو اعتماد میں نہیں لے رہے ہیں۔ یہ مسئلہ تو اس وقت حل ہوا لیکن بلوچستان عوامی پارٹی کے اندر اختلافات ختم نہیں ہوسکے۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے آکرناراض رہنماؤں کو منایا اور یوں یہ مسئلہ وقتی دور پر حل ہوا۔ کچھ عرصے بعد بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سرداراخترجان مینگل نے دعویٰ کیا کہ ہم صوبے میں اپنی حکومت بنا سکتے ہیں جس میں باپ میں شامل ارکان بھی ہمارے ساتھ ہوں گے لیکن یہ دعویٰ سچ ثابت نہیں ہوا۔

گزشتہ چند روز سے صوبے میں سیاسی درجہ حرارت ایک بار پھر بڑھ گیا ہے۔ مبصرین نے کوئٹہ اور کراچی میں ہونے والی حالیہ ملاقاتوں کو حکومت کی تبدیلی کے لئے سیاسی جماعتوں کے درمیان گٹھ جوڑ قرار دیا ہے۔ گزشتہ روز بی اے پی کے اہم رہنما اورصوبائی وزیر بلدیات سردار صالح میں بھوتانی نے عشائیہ دیا جس میں حکومتی جماعتوں اور اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی جبکہ دوسری جانب جے یوآئی کے صوبائی امیر مولانا عبدالواسع نے بھی سردارصالح بھوتانی سے ملاقات کی۔

ملاقات کے بعد مولانا عبدالواسع نے کہا کہ بلوچستان حکومت میں تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے اور حزب اختلاف سے مشاورت کے بعد جلد فیصلہ کیا جائے گا۔ ایک انٹرویومیں جمعیت علمائے اسلام (ف ) کے صوبائی امیر مولانا عبدالواسع نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے وزیر صالح بھوتانی نے بلوچستان حکومت کی تبدیلی کے لیے مدد مانگی ہے تاہم ہم حزب اختلاف کی جماعتوں سے مشاورت کے بعد ہی فیصلہ کریں گے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے سینئر رہنما و سنیٹر انوارا لحق نے نجی ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں تبدیلی کی باتیں چائے کی پیالی میں طوفان کے مترادف ہیں، صالح بھوتانی اور اپوزیشن جماعتوں کے پاس سیاسی تبدیلی کے لیے سیاسی قوت ہی موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ صالح بھوتانی کے ساتھ ایک دو ارکان تو ہو سکتے ہیں جن میں قدوس بزنجو بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کو اسمبلی میں اکثریت کی حمایت حاصل ہے اور ہمیں نہیں لگتا کہ کوئی تبدیلی آسکتی ہے اور یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے

مبصرین نے دعویٰ کیا ہے سردار صالح بھوتانی کا نام جام کمال مخالف گروپ کے سربراہ کے طور پر سامنے آگیا ہے۔ ذرائع کے مطابق سردار صالح بھوتانی کو بلوچستان عوامی پارٹی کے اکثریتی اراکین کی حمایت حاصل ہوگئی ہے جس میں کئی سینئر لوگ شامل ہیں ’وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال سے اختلاف کی اصل وجہ منتخب نمائندوں کے بجائے غیر منتخب مشیروں‘ معاونین خصوصی کی فوج ظفر موج لگانا ہے

اس وقت اراکین بلوچستان کابینہ کے منتخب اراکین سے زیادہ غیر منتخب اراکین ہیں ترقیاتی بجٹ میں حکومتی اراکین اسمبلی کے بجائے ان سے شکست کھانے والے منظور نظر غیر منتخب لوگوں کو نواز جارہا ہے۔ وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ میں ایسی بیوروکریسی تعینات ہے جو حکومتی اراکین کے کاموں میں مداخلت کررہی ہے۔

دوسری جانب بلوچستان ہائیکورٹ نے گزشتہ دنوں بیورکریسی میں تعیناتیوں پر برہمی کا اظہار کیا تھا اس سلسلے میں جام کمال کے مخالف گروپ کے مطابق ان پر ایک بڑا الزام یہ بھی ہے کہ بلوچستان کے سینئر سرکاری ملازمین کو او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے اور دوسرے صوبوں سے ایسے لوگوں کو لایا جارہا ہے جو بلوچستان اور یہاں کی روایات سے ناواقف ہیں۔ صوبے کے سینئر سیکرٹری لیول کے متعدد افسران اس وقت او ایس ڈی ہیں یا پھر وزیر اعلیٰ معائنہ ٹیم میں تعینات کیے گئے ہیں۔ چیف سیکرٹری ’سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی‘ سیکرٹری صحت ’کمشنر کوئٹہ ڈویژن سمیت درجنوں افسر ان کو دوسرے صوبوں سے لاکر یہاں تعینات کیا گیا جس سے بلوچستان کے سرکاری افسر ان کی حق تلفی ہورہی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments