یہ طرز حکومت ہے تو پھر کیا ہے


ہم تو یہ سوچ سوچ کر پریشان ہیں کہ پہلے تو جھوٹے پر اللہ کا کچھ نہ کچھ ہوتا تھا مگر آج کل شاید کوئی وقفہ ہے یا کسی کو اس سے بھی استثناء حاصل ہے۔ سابقہ حکومتوں کے بارے میں اتنا شور ڈالا گیا تیس سال سے ملک کو کھا رہی ہیں مگر نکلا کچھ نہ۔ کرپشن کرپشن کہتے اور ناچتے ہوئے آئے تھے، نہ تو کسی پر کرپشن ثابت کر سکے بلکہ جو اپنی لنگوٹی باندھی ہوئی تھی جس سے جو تھوڑی بہت عزت محفوظ تھی وہ بھی ختم کر بیٹھے۔ نیازی کی اب بات کرنا بھی فضول ہے، ہم جیسوں کو تو اس کی چال ڈھال سے ہی پتہ تھا کہ آیا نہیں لایا گیا ہے۔

مقصد اس کو حکومت دینا نہیں بلکہ کسی کی بے عزتی کرانا ہے مگر اوپر بھی تو ایک ذات بیٹھی ہے اور اپنے بندوں کی عزت کے فیصلے وہ خود کرتی ہے۔ آپ کسی پر الزام تو لگا سکتے ہیں مگر اسے ثابت بھی تو کرنا ہوتا ہے اور یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص جو کہ چندے پر پلتا ہو، مانگ کر کھاتا ہو وہ اپنا موازنہ ایک صاحب حیثیت کے ساتھ کرنے لگے یہ اللہ کا فیصلہ ہے کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے، کیونکہ اوپر والا ہاتھ دینے والا ہے اور نیچے والا ہاتھ لینے والا ہے۔ اللہ اتنا ظالم نہیں ہے کہ جب کوئی نیچے والا ہاتھ اوپر والے ہاتھ کی تذلیل کرتا ہے تو وہ نیچے والے ہاتھ کی اصلیت اور اوپر والے ہاتھ کی سخاوت دونوں عیاں کر دیتا ہے۔

یار لوگوں نے سمجھا کہ ایک اقتدار مانگنے والے کو بناتے ہیں اور اس کے لئے لاکھوں جتن کیے گئے اس کا قد کاٹھ تو بڑا تھا نہیں سو بڑوں کو خود نیچے آ کر اس کو بنانا پڑا اور اس طرح وہ خود کو بھی چھوٹا کر گئے مگر ان کا چھوٹا بڑا نہ ہوسکا۔

آج ہم جس دوراہے پر آ کھڑے ہوئے ہیں اس میں نواز شریف پر تو کچھ نہ ثابت ہو سکا اور اللہ نے اس کی عزت عوام کی نظر میں اور بڑھا دی مگر وہ لوگ جو ہر روز ہر چھوٹی چھوٹی بات پر غیرت کھاتے تھے اور ان کے اندر اختیارات کے جوش اتنے تیز ہو گئے تھے کہ وہ اپنے آپ کو الیکشن سے پہلے ہی سمجھدار لوگوں کی نظروں میں یہ عیاں کر چکے تھے کہ ان کے پیچھے کوئی ہاتھ ہے اور جس کے بل بوتے پر وہ سب سیاہ سفید کے مالک بن جائیں گے مگر سادہ لوح عوام یہ سمجھے کہ نہیں یہ واقعی نجات دہندہ ہیں لیکن جس ٹبر کے ساتھ وہ آئے تھے وہ ملک بنانے والا نہیں، اندھا کیا مانگے دو آنکھیں کے مطابق، ان میں سے ہر ایک نے اپنے آپ کو سنوارنا شروع کر دیا۔ نا اہلی، بد انتظامی، اختیارات کا ناجائز استعمال، جھوٹ، ریا کاری، بدمعاشی، سینہ زوری غرض جو جو لفظ آپ کو ملتے ہیں آپ شامل کرتے جائیں کیونکہ ان کے پاس تو بلیک لاء ڈکشنری ہے کہ جو الفاظ آپ کو نہیں بھی ملیں گے یہ ان پر بھی پورا اترتے ہیں۔

بیس سالہ صحافت اور سیاسی شعور اور ماضی کی جو تاریخ پڑھی ہے یہ لوگ اس سب پر بھاری ہیں۔ عمران نیازی اور اس کے سارے سازندے روز ایک سے بڑھ کر ایک نیا راگ الاپتے ہیں اور بے عزتی کی داد وصول کرتے ہیں۔ میں سلام کرتا ہوں ان جوہریوں کو جنہوں نے یہ نگینے تلاش کر کے ان کو بائیس کروڑ عوام کے سیاہ سفید کا مالک بنایا، وہ ان سے زیادہ اپنے آپ کو ظاہر کر گئے کہ بھئی ہم یہ ہیں۔

میں نہیں چاہتا کہ ایک بے وقوف اور جاہل آدمی کی جہالت کو اس طوالت سے بیان کرکے اپنا اور لوگوں کا وقت برباد کروں کیونکہ یہ لوگ اس معاشرے کا گند ہیں اور گندگی اور غلاظت کو جتنی جلدی ہو سائیڈ پر کر لینا چاہیے ورنہ اس سے بیماریاں پھیلتی ہیں۔

نواز شریف جو کرتا تھا جتلاتا نہیں تھا اور یہ جو نہیں کرتا اس کی بھی تشہیر کرتا ہے، میں نے پہلے دن سے ایک با ت کہی تھی کہ جو شخص بائیس سال تک اپنی ہر بال پر ”ہاؤ از دہیٹ“ کہتا رہا ہو آپ اس سے خیر کی توقع کر ہی نہیں سکتے، جو دو لائینوں سے بڑا میسیج ہو تو نہیں پڑھتا تو اس کے ذمے فائیلوں کے انبار رکھیں گے تو وہ کیسے پڑھے گا، جس نے ایک گھنٹہ بیٹھ کر بات نہ سنی ہو وہ روزانہ کئی کئی گھنٹے میٹنگز کیسے اٹینڈ کرے گا مگر جیسے کہ بڑے بزرگ کہتے ہیں کہ جب تک لالچی زندہ ہے چالاک بھوکا نہیں مرتا، اپنے مقاصد حاصل کرنے اور اپنے وقت بڑھانے کے لئے اتنا بڑا سودا سمجھ سے بالا تر ہے۔

ہر رات کے بعد دن، ہر جھوٹ کو فنا حاصل ہے، ہر فرعون کے لئے موسیٰ ہے، ہر ظلم کی رات کے بعد امن کے سورج نے طلوع ہونا ہوتا ہے او ر اس لئے یہ وقت پریشان کن ہے کہ ایک بندر کے ہاتھ ماچس لگ گئی ہے مگر ماچس کی تیلیاں بھی تو ختم ہونی ہیں اور پھر بندر نے بھی تو ہاتھ آنا ہے پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے۔

اور ہاں جب کھایا مل کر ہے تو حساب بھی سانجھاہوتا ہے تو یہ لوٹے لفافے اس طرم میں نہ رہیں کہ حساب صرف نیازی دے گا، پھر سب بھگتیں گے، وہ ڈیم والا بابا بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments