سیاسی ہیروئن


نصرت جاوید پاکستانی نیوز انڈسٹری کا ایک جانا پہچانا نام ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے وہ ٹیلی ویثرن سکرین سے تو غائب کر دیے گئے ہیں پر پاکستان کے ایک موقر اخبار میں اب بھی ”برملا“ کے نام سے کالم لکھتے ہیں اپنے کل کے کالم میں وہ رانا ثناء اللہ کے کیس کاذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سیاست کے بے رحم کھیل میں پاکستان جیسے ممالک میں رانا ثناء اللہ جیسے دبنگ اور متحرک افراد اگر اپوزیشن میں ہوں تو مختلف الزامات کے تحت گرفتار بھی ہو جاتے ہیں۔

مزید ایک اور فقرے میں لکھتے ہیں کہ اقتدار ہمارے حکمرانوں کو شہنشہائیت کی جانب راغب کرتا ہے اور اپنے مخالفین کو دیوار میں چن دینے پر اکساتا ہے، انہیں عبرت کا نشان بنایا جانا ازحد ضروری ہے۔ نصرت جاوید کی اس رائے یا تجزیے کو آپ رانا ثناء اللہ یا جیلوں میں موجود تمام اپوزیشن کے سیاستدانوں پر منطبق کر کے دیکھیں تو وطن عزیز میں زوروشور سے جاری احتساب کی ساری قلعی کھل کے سامنے آجاتی ہے۔

ؔ۔ ”پانامہ سے نکلا اقامہ“ نامی ڈرامے سے شروع ہونے والے اس کھیل کا سب سے افسوناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں احتساب کے نام پر بنے ایک ڈکٹیٹر کے بدنام زمانہ ادارے ”نیب“ کے ساتھ ساتھ باقی تمام ادارے بھی اپنی ساکھ ہر آنے والے دن کے ساتھ کھوتے چلے جا رہے ہیں اور ہمیں بحثیت قوم اس زیاں کا احساس تک بھی نہیں ہوتا۔ موجودہ فسطائی حکومت کے احتساب نامی ڈرامے میں نیب تو پہلے دن سے شریک تھی اب ایف آئی اے اور اے این ایف جیسے ادارے بھی کمر کس کے میدان میں آچکے ہیں۔

اے این ایف نے پہلا سیاسی کیس حنیف عباسی پہ بنایا تھا جب انہیں الیکشن سے صرف چند دن پہلے رات کو گیارہ بجے عدالت سجا کر گرفتار کیا گیا تھا اور بعد میں انہیں عدالتوں سے ریلیف ملا، پر اس کیس کے حقائق کے بارے میں آج بھی کوئی نہیں جانتا کہ حنیف عباسی ملزم تھے یا مجرم، انہیں سزا کوٹے سے زیادہ ایفیڈرین لینے پہ ملی تھی یا عمران خان کے یار غار اورطاقتور حلقوں کے قریب سمجھے جانے والے فرزند راولپنڈی شیخ رشید کی جیت کو یقینی بنانے کے لئے انہیں راہ سے ہٹایا گیا۔

ایسا ہی کچھ اب رانا ثنا اللہ کے کیس میں بھی دکھائی دے رہا ہے اس پورے کیس میں بھی شکوک و شہبات کی دبیز تہیں نظر آرہی ہیں۔ یہ وہی رانا ثنا اللہ ہے جس کے بارے میں عمران خان اپنی حکومت آنے سے پہلے جلسوں میں اعلان کرکے بتا چکے تھے کہ اگر ان کی حکومت آئی تو وہ رانا ثنا اللہ کو مونچھوں سے پکڑ کر جیل میں ڈالیں گے۔

تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد مجھ سمیت بہت سارے صحافیوں کا خیال تھا کہ اب عمران خان ماڈل ٹاؤن کیس میں رانا ثنا اللہ کو نشان عبرت بنائیں گے لیکن جب ہیروئن برآمدگی کی خبر ٹیلی ویژن سکرینوں پر چلی تو شاید ہی کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات آ پائی ہو کہ انصاف کے نام پہ بننے والی حکومت اپنے کسی سیاسی حریف پہ اتنا گھناؤنا الزام بھی لگا سکتی ہے، عمران خان جو اپنی ہر تقریر میں ملک کو مدینے کی ریاست میں تبدیل کرنے کا اعلان کرتے نظر آتے تھے شاہد یہ بات انہیں کسی نے نہ بتائی ہو کہ مدینہ کی ریاست میں حضور پاکﷺ اور خلفائے راشدین کے دور میں آدھی دنیا میں پھیلی اسلامی حکومت میں کافروں کے بھی حقوق تھے جنہیں کوئی بڑے سے بڑا عہدیدار پامال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

رانا ثنا اللہ کورواں سال یکم جولائی کو اے این ایف نے فیصل آباد سے لاہور جاتے ہوئے گرفتار کیا تھا اے این ایف کے دعوے کے مطابق انہوں نے رانا ثنا اللہ کی گاڑی سے ہیروئن سے بھرا ہوا بیگ برآمد کیا تھا جس میں اکیس کلو خالص ہیروئن تھی جسے بعد ازاں لاہور سے بیرون ملک جانا تھا، اتنی مقدار میں برآمدگی انہیں پھانسی کے پھندے تک پہنچانے کے لئے کافی تھی۔ گرفتاری کے دو دن بعد انسداد منشیات کے وزیر شہریار آفریدی اور اے این ایف کے ڈی جی میجر جنرل محمد عارف ملک پریس کانفرنس کرنے آئے تو شہریار آفریدی نے انکشاف کیا کہ اے این ایف کے پاس رانا ثنا اللہ کی تین ہفتے کی موومنٹ اور جائے وقوع کے ویڈیو ثبوت ہیں اور اے این ایف نے مکمل اطمینان کرنے کے بعد رانا ثنا اللہ کو گرفتار کیا ہے۔

شہریار آفریدی کے بقول رانا ثنا اللہ ایک انٹرنیشنل ریکٹ کا حصہ ہیں جنہیں فیصل آباد سے ہوئی ایک گرفتاری کے بعد معلومات حاصل ہونے کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا۔ اسی پریس کانفرنس میں جنرل عارف ملک نے بات کو اس طرح گھمانے کی کوشش کی یہ کسی فلم کی شوٹنگ نہیں ہورہی تھی بلکہ ایک جنگ کی سچویشن تھی جسے کسی فلم کے انداز میں عکس بند نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ جنرل صاحب نے پاس بیٹھے شہریار آفریدی کے دعوؤں کو بھی جھٹلانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جو ایک حاضر سروس میجر جنرل اور اے این ایف کے ڈی جی کے سامنے اور میڈیا نمائندوں اور کیمروں کی موجودگی میں دھڑلے سے ویڈیو ثبوتوں کے دعوے کر رہے تھے۔

بعد میں مختلف ٹی وی چینلز کے ٹالک شوز اور قومی اسمبلی میں بھی وزیر موصوف اسی دعوے کو بار بار دہراتے نظر آئے لیکن جب عدالت میں وہ ثبوت پیش کرنے کا وقت آیا تو صرف چار سیکنڈ کی وہ ویڈیو عدالت میں پیش کی گئی جس میں رانا ثنا اللہ کی گاڑی فیصل آباد سے موٹروے پہ داخل ہوتی ہوئی اور لاہور راوی ٹول پلازے سے نکلتی ہوئی دکھائی دی۔ آخرکار چھ ماہ کیس چلنے کے بعد اور حکومت کے جانب سے جان بوجھ کر کیس کو لٹکانے کے باوجود لاہور ہائی کورٹ نے رانا ثنا اللہ کی یہ کہہ کر ضمانت لے لی کہ پاکستان میں سیاسی انتقام کھلا راز ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

بعد ازاں اپنی کل کی پریس کانفرنس میں موصوف اب سرے سے اپنی ہی کہی ہوئی باتوں سے مکر چکے ہیں اور اب ہم صحافیوں کو یہ باور کروانا چاہ رہے ہیں کہ ویڈیو اور فوٹیج میں بہت فرق ہوتا ہے اور انہوں نے لفظ فوٹیج استعمال کیا تھا کسی ویڈیو کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا اب اس بات کی آپ میں سے کسی کو کچھ سمجھ آئی ہو تو ہمیں بھی سمجھا کے شکریہ کا موقع دیں یا پھر سب ہماری طرح اسی حالت میں ہیں کہ

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے۔ خدا کرے کوئی

بہرحال اس کیس کو ایک ٹیسٹ کیس سمجھتے ہوئے پاکستان مین جاری ”سیاسی انتقام“ نام ڈرامے کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سب کے پیچھے ہے کون کیا یہ صرف عمران خان ہیں جو اپنی سیاسی مخالفین کو نشان عبرت بنانا چاہ رہے ہیں یا اس سب کے پیچھے بھی وہی طاقتور ترین حلقے ہیں جو اس ملک میں سب کچھ اپنی مرضی و منشا سے کرنا چاہتے ہیں۔ جن کی پہاڑ جیسی ”انا“ گزرے ستر برسوں میں بھی اجتماعی عوامی شعور کو درست سمجھنے سے آج تک قاصر ہے، جو آج بھی عوام کو ان کا جائز حق حکمرانی کسی طو رپر بھی لٹانے کو تیار نہیں ہیں۔ کوئی عدالت اگر یہ فیصلہ نہ بھی کر پائی توتاریخ اپنا فیصلہ ضرور سنائے گی۔

مجتبیٰ فیض
Latest posts by مجتبیٰ فیض (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments